بات صرف یمن تک محدود نہیں

عبدالقادر حسن  منگل 31 مارچ 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

مسلم دنیا کو اپاہج کر دینے اور اسے بے جان کر دینے کے لیے امریکا کی طرف سے جو منصوبہ اور سلسلہ جاری ہے وہ اب شام عراق لیبیا سے ہو کر یمن تک آن پہنچا ہے جو سعودی عرب کی دیوار کے ساتھ واقع ہے۔ امریکا نے اپنی اس یلغار میں جہاں مسلمان ملکوں کو لولا لنگڑا کر دیا ہے وہاں ان کی ثقافت تاریخ اور تمدن کو بھی نابود کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس مسلمان ملک پر بھی امریکا نے ’قبضہ‘ کیا آپ یاد کریں تو اس ملک کے تاریخی آثار اور عجائب خانوں کو ضرور تباہ کیا گیا ہے جو مسلمانوں کو ان کا ماضی یاد دلاتے تھے اور یہی وہ ماضی ہے جو آج کی طاقت ور غیر مسلم دنیا کو سخت ناپسند اور پریشان کن ہے اس سے قبل جب روس نے مسلمان ریاستوں پر قبضہ کیا تو اس نے یہاں آباد مسلمانوں کی زندگی ہی بدل دی۔

ان کی زبان کی جگہ روسی زبان رائج کر دی رسم الخط بدل دیا جس سے ماضی کا علمی ذخیرہ بے کار ہوگیا۔ مذہب کو موقوف ہی کر دیا زیادہ سے زیادہ صرف مسجدیں باقی رہ گئیں جو غیر آباد کر دی گئیں اور نمازیوں سے محروم۔ پرانے زمانے کی خواتین کسی نوزائیدہ بچے کو مسجد کی کسی دیوار کے ساتھ لگا کر برکت حاصل کرتی تھیں اور اگر کسی گھر میں قرآن پاک کا کوئی ورق محفوظ تھا تو وہ اسے کسی مشکل میں مدد کے لیے سنبھال کر رکھتی تھیں۔ ان کے نام تک تبدیل کر دیے گئے اور روسی طرز پر نام کے آخر میں ف کا حرف بڑھا دیا گیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان قوم رفتہ رفتہ ماضی سے کٹ گئی جس سے آج کی قومیں خوفزدہ تھیں۔

مسلمانوں کے خلاف روس کی یہ ایک منظم سازش تھی روس کے پاس اسلام کے مقابلے میں کمیونزم کا نظریہ تھا جو اسلام کے برعکس تھا۔ یہ دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے تھے۔ حالات حاضرہ کے حوالے سے بات ذرا لمبی ہو گئی مقصد صرف یہ یاد دلانا تھا کہ روس ہو یا امریکا یہ سب اپنے اپنے انداز میں مسلمانوں کو ختم کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ آج کے دور میں امریکا طاقت کے عروج پر ہے اوروہ یہ علانیہ دعویٰ رکھتا ہے کہ پوری دنیا کو اس نے چلانا ہے چنانچہ وہ ایسی تمام رکاوٹیں دور کر رہا ہے جو اس کی جہانبانی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں اور اس کے عالمی اقتدار میں مشکلات پیدا کرتی ہیں۔ جہاں تک مسلمان دنیا کا تعلق ہے روس ہو یا امریکا دونوں ایک جیسے ہیں بس طریق کار کا اختلاف ہے۔ روس کی طرح امریکا اپنے محکوم مسلمان ملکوں کو اپنی سیاست آزادانہ کلچر اور عالمی تسلط میں لانا چاہتا ہے لیکن وہ ان پر روس کی طرح کی زبردستی نہیں کرتا ساتھ چلنے کی کوشش کرتا ہے۔

امریکا رفتہ رفتہ مسلمان ملکوں سے ان کی اسلامیت اور تہذیب و ثقافت کو کمزور کرنا چاہتا ہے چنانچہ وہ عراق شام لیبیا وغیرہ کو بڑی حد تک بدل چکا ہے اور اب یہ وہ مسلمان ملک نہیں رہے جو امریکی تسلط سے پہلے تھے۔ یمن میں جو انتشار پیدا کیا گیا ہے وہ بہت ذومعنی ہے۔ اس ملک سے مسلمانوں کے جذباتی تعلقات بہت وسیع ہیں۔ حضرت اویس قرنیؓ کے اس ملک کو مسلمان ایک بابرکت ملک سمجھتے ہیں۔ اویس قرنیؓ کی ہستی آنحضرت ﷺ کی نہایت ہی پسندیدہ تھی جس کو جنت کی بشارت دی گئی اور جنت کے دروازے پر ان کے استقبال کا ذکر کیا گیا۔ حضرت اویس اپنی ضعیف والدہ کی تیمار داری کی وجہ سے حضور پاکؐ کی خدمت میں بھی حاضری نہ دے سکے لیکن یوں لگتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان کے بے پایاں جذبات کی وجہ سے ان کو اپنی خدمت میں حاضر ہی سمجھا۔

یمن سرزمین عرب کا حصہ تھا اور حضور پاکؐ کو یمن کی بعض مصنوعات بہت پسند تھیں۔ حضرت اویس کی آنحضرتؐ سے محبت نے تو یمن کو ایک نیا رنگ ہی دے دیا۔ امریکا نے بعض دہشت گرد قسم کی تنظیموں کے ذریعہ یمن میں فساد برپا کر دیا ہے اور اس ملک کو برباد کر دیا ہے۔ امریکا یہاں مسلمانوں کا ایک پرانا اختلافی مسئلہ استعمال کرنا چاہتا ہے وہ ہے شیعہ سنی کا مسئلہ۔ مغرب کے مورخوں اور دانش وروں نے اپنی تحریروں اور تجزئیوں میں یہ بتایا ہے کہ مسلمانوں کے اندر اختلاف کو بڑھانے اور اسے خطرناک حد تک لے جانے میں یہ مسئلہ بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ یمن میں جو گروہ سرگرم ہیں ان میں سے بعض کو شیعہ قرار دیا جاتا ہے اس طرح سعودی عرب کے لیے ایک خطرہ کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ امریکا نے سرزمین حرمین شریفین کے قریب ترین علاقے میں شورش برپا کر کے وہاں اپنے مستقبل کے ارادوں کو ظاہر کر دیا ہے۔

پاکستان یمن سے بہت دور اور بظاہر ایک لاتعلق ملک ہے اور اسے فوری طور پر کسی پریشانی کی ضرورت نہیں ہے لیکن سعودی عرب سے پاکستان کے تعلقات کی تاریخ سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں۔ حرمین الشریفین کو رہنے دیں کہ ان کے ساتھ ہر مسلمان کا تعلق اس کی زندگی سے بھی کہیں زیادہ عزیز ہے لیکن حکومت سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلق میں وہ سب کچھ موجود ہے جو کسی بھی دو ملکوں کے درمیان ہوسکتا ہے اس لیے پاکستان کی لاتعلقی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن چالاک اور طاقت ور امریکا بہت ہی خطرناک ملک ہے وہ سعودی عرب کی فوجی حمایت کو ہمارے ایٹم بم تک بھی لے جا سکتا ہے اور یہ ایٹم بم امریکا کے لیے ہر گز قابل قبول نہیں ہے۔ کیا ہمارے موجودہ حکمران دور کی بھی سوچ سکتے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ بھارت کے خلاف جنگ میں شاہ فیصل نے کہا تھا کہ پاکستان جہاں سے بھی جو اسلحہ خریدنا چاہے خریدے اور اس کا بل اس ملک میں موجود ہمارے سعودی سفارت خانے کو بھجوا دے ایسی کئی مثالیں ہیں سعودی حکمرانوں نے ہمیشہ پاکستان کی طاقت کو اپنی طاقت سمجھا ہے اور بجا طور پر سمجھا ہے لیکن ڈر ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان دونوں دوست کسی امریکی سازش کے شکار نہ ہو جائیں۔ ہماری فوج نے وضاحت کر دی ہے کہ ہم نے سعودی عرب میں فوج نہیں بھیجی اورنہ ہی اسلحہ۔ بہر کیف حد سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے اور اس وقت جو صورت حال پیدا ہو چکی ہے اور ہوتی چلی جا رہی ہے اس میں بہت اعلیٰ درجہ کی فراست اور سیاسی تدبر کی ضرورت ہے۔ ابھی اس سلسلے میں مزید کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ دیکھیں حالات کا رنگ کیا نکلتا ہے اور ہمارے حکمران کس تدبر کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایک طرف امریکا ہے دوسری طرف سعودی عرب ہے اور ہم ان دونوں کا احترام کرتے ہیں۔ ایک سے ڈرتے ہیں دوسرے سے پیار کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔