سعودی عرب کی عسکری مدد کرنا کیوں ضروری ہے؟

تنویر قیصر شاہد  منگل 31 مارچ 2015
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

بحث ہو رہی ہے کہ برادر اسلامی ملک سعودی عرب کو لاحق بعض خدشات و خطرات سے نجات دلانے کے لیے کیا پاکستان اور پاکستان کی عسکری قوتوں کو آگے بڑھ کر مدد کرنی چاہیے؟ اس وقت عراق و شام اور سعودی عرب کے ہمسائے (یمن) میں ’’داعش‘‘ کے وابستگان اور حوثیوں نے دہشت گردی، خونریزی، لوٹ مار، انارکی اور تباہی کا جو بازار گرم کر رکھا ہے، اسے پیشِ نگاہ رکھا جائے تو پاکستان کو فوری طور پر اور ہر صورت میں برادر سعودیہ کی اعانت کرنی چاہیے، بشرطیکہ پاکستان کو اندرونی طور پر اور اپنے مشرقی و شمال مغربی محاذوں پر جو معرکہ آرائیاں کرنا پڑ رہی ہیں، ان پر کوئی ضرب لگے نہ کوئی منفی اثرات مرتب ہوں۔

پاکستان کی سلامتی اور تحفظ کو بہر حال باقی تمام معاملات پر فوقیت دی جانی چاہیے۔ یہ بات لائقِ استحسان ہے کہ حکومتِ پاکستان نے عندیہ دیا ہے کہ سعودی عرب کے دفاع کے لیے پاکستان فوری طور پر پہنچے گا۔ یہ اعانت دونوں ممالک کے باہمی اچھے تعلقات کو مزید تقویت پہنچائے گی۔ اور اس سے پہلے کہ اسی موضوع پر چند مزید گزارشات کی جائیں، چاہتا ہوں کہ عالمِ اسلام کی کئی بار مدد کرنے کے کارن پاکستان کو بیرونِ ملک کس زبردست عزّ و شرف اور احترام سے نوازا جاتا ہے۔

جناب نذر عباس پاکستان کے ممتاز اور تجربہ کارسفارتکار رہے ہیں۔ ان کے سوانح حیات اور سفارتی یادداشتوں پر مشتمل حالیہ دنوں میں ایک کتاب شایع ہوئی ہے۔ اس کا نام ہے: Memoirs of   an Ambassador of Pakistan ان کی پہلی تعیناتی ترکی میں ہوئی تھی۔ تین سو تئیس صفحات پر مشتمل اس دلچسپ کتاب میں مصنف نذر عباس لکھتے ہیں: ’’ترکی میں ہر جگہ ہم پاکستانیوں کو جس محبت و اکرام سے نوازا جاتا، یہ سب پر عیاں تھا۔ غیر ملکی سفارتکار بھی اس خصوصی سلوک سے واقف تھے۔ ایک روز ہمارے ایک سینئر ساتھی نے اپنے ہاں ایک شاندار دعوت کا اہتمام کیا۔ اس میں کئی مسلمان اور غیر مسلم سفیر بھی اپنے خاندانوں سمیت مدعو تھے۔

اچانک انڈونیشیا کے تھرڈ سیکریٹری اٹھ کر کہنے لگے: میری شکل، جیسا کہ آپ سب دیکھ رہے ہیں، پاکستانیوں سے بہت ملتی جلتی ہے۔ مَیں جب بھی بازار جاتا ہوں، ترک مجھے پاکستانی سمجھ کر گہری مسکراہٹوں سے میرا استقبال کرتے ہیں۔ دکاندار ہنستے ہوئے مجھے ’’مرحبا‘‘ اور ’’کاردیش (بھائی) پاکستانی‘‘ کہہ کر سلام کرتے ہیں۔ اور جب انھیں بتاتا ہوں کہ مَیں پاکستانی نہیں ہوں تو ان کی مسکراہٹیں غائب ہو جاتی ہیں اور چہرے لٹک جاتے ہیں۔ مَیں تم پاکستانیوں سے حسد کرنے لگا ہوں۔‘‘ (صفحہ 87) نذر عباس صاحب لکھتے ہیں کہ انڈونیشی سفارتکار کی یہ بات نہایت غیر مناسب تھی لیکن ہم سب خوش تھے کہ اس کے حاسدانہ جذبات بہر حال یہ تو بتا رہے تھے کہ ترکی میں پاکستان کس قدر و منزلت سے دیکھا جاتا ہے۔

ترکی میں پاکستان نے یہ مقامِ احترام اس لیے حاصل کیا کہ پاکستان اور پاکستانی عوام نے ہر آزمائش کے موقع پر ترکی کی دستگیری کی۔ یہ اسلامیانِ ہند ہی تو تھے جنہوں نے اپنی غربت و عسرت کے باوصف آزادی کی جنگ لڑنے والے ترکوں کی بیش بہا مالی امداد کی تھی۔ 1974ء میں جب ’’سائپرس‘‘ کے تنازعے میں ترکی اور یونان آمنے سامنے آئے تو ان پُر آزمائش دنوں میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے جب ایک مغربی صحافی نے پوچھا کہ سائپرس کے ایشو پر پاکستان کی پالیسی کیا ہے تو بھٹو صاحب نے ترنت جواب دیا: ’’ہم دل و جان سے ترکوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سائپرس کے حوالے سے جو پالیسی ہمارے ترک بھائیوں کی ہے، وہی میری اور پاکستان کی ہے۔‘‘

اس مجاہدانہ جواب سے ترکی باغ باغ ہو گیا تھا۔ جناب نذر عباس اپنی تازہ کتاب میں ترکوں کی پاکستان سے محبت کا ایک اور دلنشیں واقعہ ان الفاظ میں لکھتے ہیں: ’’انقرہ اور استنبول کے درمیان ایک چھوٹا سا مگر جنت نظیر قصبہ ’’بولو‘‘ (Bolu) آتا ہے۔ ایک مرتبہ مَیں اپنی اہلیہ (نگار) کے ہمراہ استنبول سے اپنے گھر انقرہ واپس آ رہا تھا۔ ہم دلفریب نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے تھوڑی دیر کے لیے ’’بولو‘‘ رکے۔ وہاں سبزیوں کے وسیع کھیت تھے جن کی جاذب نظر ہریالی اور روح پرور ہوا پاگل کر رہی تھی۔ نیچے تھوڑی دور ایک تنہا کسان سبزیوں کا ڈھیر لگائے کھڑا تھا۔

یہ سوچ کر کہ سبزیاں تازہ بہ تازہ ہیں، ضرور خریدنی چاہئیں؛ چنانچہ ہم دونوں اس طرف بڑھ گئے۔ ہم نے اسی سے معروف اور مزے دار ترکی سبزی (Patlijan) بھی خریدی اور دوسری سبزیاں بھی۔ سبزیوں کے ڈھیر کے ایک طرف خوبصورت اور لال لال پیاز رکھے ہوئے تھے۔ ہوں گے کوئی دو تین کلو۔ میری اہلیہ خریدنے کے لیے ان پیازوں کی طرف بڑھیں تو کسان نے کہا کہ آپ یہ نہیں خرید سکتے کیونکہ یہ مَیں نے اپنے پیارے دوست کے لیے الگ کر رکھے ہیں۔ چنانچہ ہم نے باقی سبزیوں کی قیمت ادا کی اور اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گئے۔ کسان بھی ہمارے ساتھ تھا۔ اس نے ہمارے چند تھیلے اٹھا رکھے تھے۔ گاڑی کے قریب پہنچ کر اس نے نمبر پلیٹ دیکھی جو صرف سفارتکاروں کے لیے مخصوص ہوتی ہے۔

کسان رکا اور مجھے پوچھنے لگا کہ آپ کہاں سے ہیں؟ مَیں نے کہا، پاکستان سے۔ یہ سننا تھا کہ اس کے چہرے کا رنگ متغیّر ہو گیا۔ وہ اچانک پوری رفتار سے اپنی سبزیوں کے ڈھیر کی طرف بھاگنے لگا۔ ہم حیران رہ گئے تھے۔ کسان نے وہاں سے وہی دو تین کلو تازہ لال پیاز تھیلے میں بھرے، پوری رفتار سے ہماری طرف بھاگا اور تھیلا ہمارے ہاتھ میں دے کر پھر پوری رفتار سے بھاگا اور نشیب میں اپنے کھیتوں میں چلا گیا۔ اس نے پیسے لیے نہ ہمیں شکرئیے کا موقع دیا اور خود بھی کچھ نہ بولا۔ ترک کسان نے جس والہانہ انداز میں آناً فاناً یہ سارا کچھ کیا، اس کی خاموشی ہی پاکستان کی محبت میں سب کچھ کہہ گئی تھی۔‘‘ (صفحہ 89)

ہمارے سابق اور محترم سفارتکار نذر عباس صاحب بعد ازاں ترکی سے لیبیا شِفٹ ہو گئے تھے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں لیبیا کے حکمرانوں‘ خصوصاً کرنل قذافی کی پاکستان سے محبت کے جو واقعات رقم کیے ہیں، پڑھ کر دل مسرتوں سے بھر جاتا ہے۔ بھٹو صاحب نے لیبیا کے توسّط سے افریقہ میں پاکستان کے لیے جو راہیں کھولیں، یہ پاکستان کے لیے غیر معمولی کامیابی تھی۔ پاکستان نے کرنل قذافی کی خدمت میں ایک بڑا اہم تمغہ بھی پیش کیا تھا۔ قذافی صاحب نے پاکستان کی بار بار امداد بھی کی۔ انھوں نے پاکستان کے خلاف اندراگاندھی کے جارحانہ اقدامات کو روکنے کے لیے مسز گاندھی کو ایک سخت خط بھی لکھا تھا۔ 1974ء میں پاکستان میں ہلاکت خیز زلزلہ آیا تو لیبیا نے پاکستان کو دس ملین ڈالر کی بھاری امداد سے نوازا۔

یہ سب تاریخی واقعات لکھنے کا مقصد و مدعا یہ ہے کہ آپ اگر آزمائش کے موقع پر سفارتی محاذ پر اپنے کسی برادر اسلامی ملک کی دستگیری کرتے ہیں تو یہ تعاون کبھی ضایع نہیں جاتا۔ یہ ثمر آور ضرور ثابت ہوتا ہے۔ آج سعودی عرب کی ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں اور وہ پاکستان کی اعانت کا طلبگار بھی ہے تو پاکستان کو آگے بڑھ کر سعودی حکومت اور اہلِ سعودیہ کی ہر ممکنہ دفاعی دستگیری کرنی چاہیے۔ سعودی عرب ہمیشہ اور ہر موقع پر پاکستان کی خفی و جلی مدد کرتا آیا ہے۔ وہ ہمارا اسٹرٹیجک دوست بھی ہے۔ اس موقع پر ہماری مقتدر قوتوں اور ہمارے منتخب حکمرانوں پر لازم ہے کہ وہ سعودی عرب کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔