- پی آئی اے کا یورپی فلائٹ آپریشن کیلیے پیرس کو حب بنانے کا فیصلہ
- بیرون ملک ملازمت کی آڑ میں انسانی اسمگلنگ گینگ سرغنہ سمیت 4 ملزمان گرفتار
- پاکستان کےمیزائل پروگرام میں معاونت کا الزام، امریکا نے4 کمپنیوں پرپابندی لگا دی
- جرائم کی شرح میں اضافہ اور اداروں کی کارکردگی؟
- ضمنی انتخابات میں عوام کی سہولت کیلیے مانیٹرنگ اینڈ کنٹرول سینٹر قائم
- وزیرداخلہ سے ایرانی سفیر کی ملاقات، صدررئیسی کے دورے سے متعلق تبادلہ خیال
- پختونخوا؛ صحت کارڈ پر دوائیں نہ ملنے پر معطل کیے گئے 15 ڈاکٹرز بحال
- لاہور؛ پولیس مقابلے میں 2 ڈاکو مارے گئے، ایک اہل کار شہید دوسرا زخمی
- پختونخوا؛ مسلسل بارشوں کی وجہ سے کئی اضلاع میں 30 اپریل تک طبی ایمرجنسی نافذ
- پختونخوا؛ سرکاری اسکولوں میں کتب کی عدم فراہمی، تعلیمی سرگرمیاں معطل
- موٹر وے پولیس کی کارروائی، کروڑوں روپے مالیت کی منشیات برآمد
- شمالی کوریا کا کروز میزائل لیجانے والے غیرمعمولی طورپربڑے وارہیڈ کا تجربہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان دوسرا ٹی20 آج کھیلا جائے گا
- بابر کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا مشورہ
- موبائل فون صارفین کی تعداد میں 37 لاکھ کی ریکارڈ کمی
- گیلپ پاکستان سروے، 84 فیصد عوام ٹیکس دینے کے حامی
- ایکسپورٹ فیسیلی ٹیشن اسکیم کے غلط استعمال پر 10کروڑ روپے جرمانہ
- معیشت2047 تک 3 ٹریلین ڈالر تک بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وزیر خزانہ
- پٹرولیم ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن کمپنیوں نے سبسڈی مانگ لی
- پاکستان کی سعودی سرمایہ کاروں کو 14 سے 50 فیصد تک منافع کی یقین دہانی
شہر میں 60 کروڑ گیلن پانی کی قلت، 2 روزہ ناغے کی تجویز
کراچی: موسم گرما کے آغاز کے ساتھ ہی شہر میں پانی کا بحران پیدا ہوگیا، مئی، جون اور جولائی میں یہ بحران بدترین ہوجائے گا، شہری بوند بوند کو ترس جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق شہر میں60 کروڑگیلن پانی کی قلت ہے،دریائے سندھ سے واٹر بورڈ کو55 کروڑ گیلن پانی فراہم ہوتا ہے تاہم چھوٹی بڑی لائنوں میں پانی کے رساؤ،کینال سے آبی بخارات اور دھابے جی پمپنگ اسٹیشن کے پرانے پمپ کی استعداد کم ہوجانے کے باعث 15 کروڑ گیلن یومیہ پانی کم فراہم ہورہا ہے جس سے کراچی کو صرف 40 کروڑگیلن پانی فراہم کیا جارہا ہے، اندرون شہر میں پانی کی چوری اس کے علاوہ ہے جس کا کوئی حساب نہیں ہے،ایم ڈی واٹر بورڈ نے کہا ہے کہ شہر میں پانی کی قلت50 کروڑگیلن ہے، ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جارہے ہیں، درمیانی وطویل مدت کے منصوبے بھی تیار کیے جاچکے ہیں۔
واٹر بورڈ کے ذرائع کے مطابق 2کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کو پانی کی طلب100 کروڑگیلن یومیہ ہے تاہم ایک اندازہ کے مطابق فراہمی آب صرف40 کروڑ گیلن یومیہ ہے،اس طرح پانی کی قلت 60 کروڑگیلن تک پہنچ چکی،ذرائع کے مطابق پانی کے بدترین بحران کا اندازہ آئندہ مہینوں میں لگایا جائے گا، اس وقت نیوکراچی، بلدیہ ، اورنگی، لانڈھی،ملیر اوردیگر علاقوں میں 15 دن پانی کی فراہمی بند رہتی ہے،ذرائع نے بتایا کہ دھابیجی پمپنگ اسٹیشن کی مرمت پر گذشتہ سال میں اربوں روپے خرچ کیے جاچکے ہیں تاہم اپ گریڈیشن اور نیوپمپنگ ہاؤس بروقت شروع نہیں کیا جاسکا،واٹربورڈ انتظامیہ کی غفلت سے6 کروڑ50 لاکھ گیلن یومیہ منصوبہ بھی تاخیر کا شکار ہے۔
ایم ڈی واٹر بورڈ قطب شیخ کے موقف کے مطابق حب ڈیم خشک ہوجانے سے شہرکو10 کروڑ گیلن پانی کی فراہمی ایک سال سے بند ہے،کھلے کینال میں آبی بخارات اورچھوٹی بڑی لائنوں میں رساؤ سے30فیصد پانی ضائع ہورہا ہے،دھابیجی پمپنگ اسٹیشن میں نصب پرانے پمپس کی استعداد کم ہونے سے پانی کی فراہمی بھی شدید متاثر ہورہی ہے،ان تینوں وجوہات کی بنا پر شہر کو 10 کروڑ گیلن پانی کم فراہم ہورہا ہے، ایم ڈی واٹر بورڈ کا کہنا ہے شہر میں 50 کروڑ گیلن پانی کی قلت ہے، پانی کے بحران پر قابو پانے کیلیے فوری طور پر ٹاؤن کی سطح پر 2روزہ ناغے کی بنیاد پر پانی فراہم کرنے کی تجویززیرغورہے تاکہ تمام شہریوں بالخصوص شہرکے آخری حصے میں رہنے والے شہریوں کو پانی فراہم کیا جاسکے،کینجھر جھیل سے شہر کراچی کیلیے 65 ملین گیلن پانی کا منصوبہ سندھ حکومت کو بھیجا ہے جسے تیکنیکی کمیٹی نے منظور کرلیا۔
منصوبے پر 6.1ارب روپے کی لاگت آئی گے،انھوں نے توقع ظاہر کی کہ یہ منصوبہ اگلے مالی سال میں شروع کردیا جائے گا، قطب شیخ نے بتایا کہ دھابیجی پمپنگ اسٹیشن کی استعداد کوبہتر بنانے کیلیے ایک ارب 20کروڑ کا منصوبہ وزیراعلیٰ سندھ نے منظور کرلیا،اس منصوبے کا تعمیراتی کام اگلے مالی سال میں شروع کردیا جائے گا، یہ دونوں منصوبہ درمیانی مدت کے ہیں جو ایک سے 2سال میں مکمل کیے جائیں گے،قطب شیخ نے کہا کہ دھابیجی نیوپمپنگ ہاؤس پر 2 نجی کمپنیوں میں عدالتی کارروائی جاری ہے جس کے باعث منصوبہ شروع نہیں کیا جاسکا،انھوں نے کہا کہ پانی چوری پر قابو پانے کیلیے 180 غیرقانونی ہائیڈرنٹس اور ناجائز کنکشن ختم کیے جاچکے ہیں جس سے فراہمی بہتر ہوئی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔