یمن کا بحران :مسلم ممالک کردار ادا کریں

ایڈیٹوریل  بدھ 1 اپريل 2015
یمن میں خاصے عرصے سے حالات خراب چلے آ رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

یمن میں خاصے عرصے سے حالات خراب چلے آ رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

یمن کی صورت حال بدستور خراب ہے اور سعودی عرب کی فضائیہ وہاں بمباری جاری رکھے ہوئے ہے۔ ابھی تک اس صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے عالمی یا علاقائی سطح پر کوئی کوششیں سامنے نہیں آئی ہیں۔ادھر مشرق وسطیٰ کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے گزشتہ روز وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا۔

اس اجلاس میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، فضائیہ کے سربراہ سہیل امان، مشیر برائے قومی سلامتی سرتاج عزیز، قائم مقام چیف آف نیول اسٹاف خان ہشام بن صدیق اور سیکریٹری خارجہ کے علاوہ دیگر سنیئر حکام نے شرکت کی۔

اخباری اطلاعات کے مطابق اس اہم اجلاس میں طے پایا ہے کہ پاکستان اپنے عوام کی امنگوں کے مطابق سعودی عرب کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کا پختہ عزم رکھتا ہے۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ پاکستان مشرق وسطیٰ میں بگڑتی صورتحال کی بہتری میں بامقصد کردار ادا کرنے میں بھی پرعزم ہے۔ سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا ہے کہ سعودی عرب فوج بھیجنے کاکوئی فیصلہ نہیں ہوا جو بھی فیصلہ ہوگا ملکی مفاد میں ہوگا۔

یمن میں جو بحران پیدا ہوا ہے ‘اس سے مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمان ممالک متاثر ہو رہے ہیں۔ یہاں کی صورت حال کو جس قدر جلد درست کر لیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ یہ بات درست ہے کہ یمن کی صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ کے ممالک کے علاوہ اقوام عالم کو بھی متحرک کیا جانا چاہیے ۔

قوام متحدہ اس معاملے میں بہتر کردار ادا کر سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ اسی لیے قائم ہوا تھا کہ وہ مختلف اقوام کے درمیان جھگڑوں کو روکے تاکہ نوبت جنگ تک نہ پہنچے۔ یمن میں جو کچھ ہو رہا ہے اس معاملے میں ابھی تک اقوام متحدہ کا کردار نظر نہیں آ رہا۔ یہ بھی بات سوچنے والی ہے کہ آخر سعودی عرب جیسا پرامن ملک انتہائی اقدام کرنے پر کیوں مجبور ہوا۔

یمن میں خاصے عرصے سے حالات خراب چلے آ رہے ہیں۔ شمالی اور جنوبی یمن کے درمیان تفاوت خاصا پرانا ہے۔ یہاں جس بغاوت نے جنم لیا ہے ‘وہ حکومتوں کی استحصالی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اگر یمن کے مختلف قبائل اور وہاں کی اشرافیہ اپنے مفادات کو کسی قابل قبول طریقے سے ہینڈل کر لیتے تو شاید یمن میں لڑائی نہ ہوتی۔ اب صورت حال بہت زیادہ خراب ہو چکی ہے ۔

معاملات مزید بگڑے تو اس امر کا خدشہ موجود ہے کہ لڑائی یمن کی سرحدوں سے باہر نہ نکل جائے ۔یہ قیاس آرائیاں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کی افواج یمن میں زمینی کارروائی بھی کر سکتی ہیں۔ ادھر ایران اس صورت حال سے خوش نہیں ہے۔ پاکستان کا یہ موقف بالکل ٹھیک ہے کہ وہ سعودی عرب کی سالمیت کے خطرات کے پیش نظر برادر اسلامی ملک کی مدد کرے گا۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ مسلم ممالک خصوصاً پاکستان ‘ترکی ‘ملائیشیا اس معاملے میں آگے بڑھیں ۔

ایران کو بھی اس معاملے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب اور گلف کے دیگر ممالک کی قیادت کو یہ یقین دلایا جائے کہ انھیں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس کے بعد یمن کے متحرک گروپوں سے مذاکرات کیے جائیں ۔اگر یہ گروپ کسی قابل قبول حل پر نہیں پہنچتے تو پھر ان کے خلاف اسلامی ممالک مشترکہ طور پر کارروائیاں کریں اور اس کارروائی کو اقوام متحدہ کی تائید حاصل ہو۔عجیب بات یہ ہے کہ حالیہ چند برسوں میں مسلمان ملکوں میں جو خانہ جنگی ہوئی یا بدنظمی ہوئی ‘اسے ختم کرانے کے لیے دنیا کی طاقتور اقوام نے کوئی متحرک کردار ادا نہیں کیا۔ شام کے معاملے کو دیکھ لیں۔

اس ملک کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے اجلاس بھی ہوتے ہیں لیکن قیام امن کے لیے کوششیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہی حال عراق کا ہے ۔عراق میں امریکا نے فوجی کارروائی کی لیکن وہاں کوئی مستحکم حکومت قائم کرنے سے پہلے ہی امریکا اپنی فوجیں نکال کر لے گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عراق کے حالات ابھی تک خراب چلے آ رہے ہیں اور یہ ملک متحارب گروپوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ لیبیا بھی اسی کی ایک مثال ہے۔

مصر میں فوج نے کسی حد تک حالات کو بہتر کر لیا ہے ورنہ وہاں بھی صورت حال خراب ہونے کا اندیشہ تھا۔ یمن میں بھی معاملات خاصے عرصے سے خراب چلے آ رہے تھے لیکن یہاں بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان نے حالات کو بہتر کرنے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اگر امریکا ‘روس ‘ چین ‘برطانیہ اور فرانس چاہتے تو یمن میں بہت پہلے حالات کو بہتر کیا جا سکتا تھا۔

لیکن ایسا لگتا ہے کہ جیسے دنیا کی یہ بڑی طاقتیں مشرق وسطیٰ کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتی ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں اب حالات کو بہتر بنانے کی ساری ذمے داری مسلم ممالک پر آن پڑی ہے اور انھیں ہی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔