مقابلہ کب تک جاری رہے گا؟

فرخ اظہار  جمعرات 2 اپريل 2015
عورت ہی نہیں بلکہ کوئی مرد بھی اپنے بنیادی حق اور اختیار کے استعمال کو اس طرح بے ڈھنگے اور غیرمتوازن طریقے سے استعمال نہیں کرسکتا۔

عورت ہی نہیں بلکہ کوئی مرد بھی اپنے بنیادی حق اور اختیار کے استعمال کو اس طرح بے ڈھنگے اور غیرمتوازن طریقے سے استعمال نہیں کرسکتا۔

خوبصورت اور نازک اندام دیپکا پڈکون میرے اور شہزاد کے درمیان زیربحث تھی۔ اس کا سبب ’’مائی چوائس‘‘ نامی ویڈیو میں اس بالی ووڈ اداکارہ کی جانب سے عورت کو دیا گیا پیغام تھا۔

معاشروں میں بحیثیت عورت اپنے ’’حق اور اختیار‘‘ کی بات کرنا عام ہے، مگر مادر پدر آزادی کا تقاضا، اعتراض، اختلاف اور بعض اوقات تنازعات کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ شہزاد میرا گہرا دوست ہے، جو مختلف موضوعات پر اظہار خیال اور دنیا بھر کے مسائل اور سماج پر بحث کرنے کا شوق رکھتا ہے۔

صبح فیس بک پر دیپکا کے ویڈیو شوٹ کا لنک بھیجا اور شام کو میرے گھر آن دھمکا۔ اس وقت تک میں دیپکا کی ویڈیو کا ’’مردانہ جواب‘‘ یعنی ایسے ہی پیغام پر مبنی ایک میل ورژن بھی دیکھ چکا تھا۔

دیپکا کے ویڈیو پیغام کے مطابق کسی بھی عورت کا بدن اور سوچ اس کی ملکیت ہے اور وہ اپنی ذات سے متعلق کبھی بھی کوئی بھی فیصلہ کرسکتی ہے۔ یہ ویڈیو ہندوستانی معاشرے میں خواتین کے حقوق اور انہیں بااختیار بنانے کی مہم کا حصّہ ہے، جو اب کئی سوالات میں گھری ہوئی ہے۔ ہمارے کسی گلوکار کا ایک گیت مجھے ٹھیک سے یاد نہیں آرہا، لیکن اس کے بول کچھ یوں تھے؛

’’میں کھاؤں یا نہ کھاؤں تجھے اس سے کیا۔۔۔ میں نہاؤں نہ نہاؤں تجھے اس سے کیا‘‘

یہ مزاحیہ گانا تھا اور اسے سبھی نے بہت پسند کیا، لیکن دیپکا نے جس سنجیدگی اور استحقاق کے ساتھ عورت کے اختیار کی عکاسی کی ہے، اسے خصوصاً سوشل میڈیا پر معاشرے کے لیے ’’فتنہ‘‘ قرار دیا جارہا ہے جب کہ اس کے چند حامی بھی سامنے آئے ہیں۔

میں کہاں کا دانا اور کس ہنر میں یکتا ہوں، لیکن اس ویڈیو اور اسی تھیم پر ایک میل ورژن دیکھ کر میرے ذہن میں کئی سوالات ابھرے۔ دیپکا کہتی ہیں کہ وہ ایک عورت ہیں اور انہیں خود سے متعلق ہر فیصلے کا مکمل حق ہے، خواہ وہ کسی قسم کا کپڑا پہننے کے حوالے سے ہو، یا شادی کرنے یا نہ کرنے کا۔ یہ بات تو سمجھ میں آسکتی تھی، لیکن جب لوگوں نے یہ سنا کہ شادی سے پہلے جنسی تعلقات قائم کرنے کے ’’حق‘‘ کی بھی حمایت کی گئی ہے تو گویا ہر طرف طوفان آگیا۔

میل ورژن میں کسی دل جلے نے مرد کے حق اور اختیار کی عکاسی کر ڈالی۔ ویڈیو کے اختتام پر مرد اور عورت کے کردار آمنے سامنے ہیں۔ لڑکے سے غصے میں بھری خاتون کہتی ہیں کہ اسے کوئی حق نہیں یوں کسی لڑکی کو چھوڑ دینے کا، پیار کا یقین دلانے کے بعد مکر جانے کا اور وہ بیچارہ ان عورتوں کے بیچ پھنسا ہوا ہے۔

میرے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ جس طرح دیپکا نے اپنے حق کی بات کی ہے، اسی طرح یہ لڑکا بھی مرضی کا مالک ہے۔ وہ پیار کرتا تھا، مگر اب اسے کوئی اور لڑکی پسند آگئی ہے، جس لڑکی کو چند سال تک محبت کا یقین دلایا، وہ شادی کے لئے پیچھے پڑگئی، مگر لڑکے کے نزدیک محبت کرنا الگ معاملہ ہے اور شادی کچھ اور ہے، وہ شادی نہیں کرنا چاہتا۔ کوئی بھی اسے دھوکے باز نہ کہے کیونکہ یہ اس کا حق ہے کہ وہ شادی کرے یا نہ کرے۔ ہاں ہاں۔۔۔۔ اس نے جنسی تعلق بھی قائم کیا تھا، تو کیا ہوا؟ بھئی جب خواتین کو آزادی دینے اور بااختیار بنانے کی مہم میں ایک عورت (دیپکا) یہ کہتی ہے کہ شادی سے پہلے جنسی تعلق قائم کرنے اور نہ کرنے کا حق بھی دیا جانا چاہیے تو مرد بھی یہی چاہے گا، اسی طرح کپڑوں کے نام پر آپ کچھ پہنیں یا کچھ بھی نہ پہنیں عورت کا حق ہے، تو پھر جب کوئی مرد جذبات سے مغلوب ہو کر’’لذت بھرا‘‘ فقرہ اچھال دے تو اسے بھی کچھ نہ کہا جائے کیونکہ کسی پسندیدہ چیز کی تعریف کرنا اس کا حق ہے۔

شہزاد سے میں نے ذرا ڈرامائی انداز میں ویڈیو پیغام سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ بات شروع ہی کی تھی کہ وہ بگڑنے لگا۔ میرا کہنا تھا، دیکھ یار کہتی تو وہ ٹھیک ہی ہے، بھئی کسی بھی عورت کو اپنا پیار چننے کا حق ہے، اسی طرح شادی کرنے اور نہ کرنے کا بھی ہونا چاہیے، جیسے ہم مردوں کو حاصل ہے، اور دیکھ اگر دیپکا سال بھر نہ نہانا چاہے تو یہ بھی اس کا حق ہے، اسی طرح اگر وہ سال بھر ایک ہی لباس دھوئے بغیر پہننا چاہے تو اس کی مرضی بھیا، اور وہ کسی ماتمی تقریب اور مردے کے قریب کھڑے ہو کر قہقہے لگائے تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ یہ اس کی چوائس ہے کہ وہ غمزدہ ہو یا خوشی کا اظہار کرے۔

یار اتنا حساس موضوع ہے اور تُو مذاق کررہا ہے، سوچ ذرا کہ یہ سب کیا چل رہا ہے؟ اگر ایسا ہونے لگے تو معاشرے اور اخلاقی قدریں برباد ہوجائیں گی۔ ہم جانور تو نہیں ہیں نا؟ شہزاد نے کہا۔

اس پر میں نے مسکراتے ہوئے کہا، نہانے اور کپڑے بدلنے کی بات کو ایک مثال کے طور پر سمجھو، میں بھی تمہارا ہم خیال ہوں، ہم جنگل میں رہنے والے جانور نہیں ہیں، عورت ہی نہیں بلکہ کوئی مرد بھی اپنے بنیادی حق اور اختیار کے استعمال کو اس طرح بے ڈھنگے اور غیرمتوازن طریقے سے استعمال نہیں کرسکتا۔ ایک تو یہ کسی بھی انسان کی فطرت کے خلاف ہے، خود ہم بھی ایسا کرنے والے کو پسند نہیں کریں گے۔ دوسرا سماج میں رہتے ہوئے ہمیں دیگر افراد کے حقوق، ان کی نجی زندگی اور اقدار کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔

کوئی عورت سال بھر کپڑے نہ بدلے تو وہ معمولاتِ زندگی اور میل جول اسی طرح جاری رکھ سکتی ہے؟ اس حالت میں وہ کسی محفل میں جائے گی تو لوگ اسے برداشت کریں گے؟ جب ایسی کسی عورت کو محفل سے نکال دیا جائے گا تو اسے اس کا حق سلب کرنا، اختیار کی توہین کہا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پیار اور وفا کا یقین دلا کر اچانک کسی کا ہاتھ چھوڑ دینا، جنسی تعلق قائم کرنا حق اور آزادی ہے، تو بے وفائی اور بے حیائی جیسے الفاظ لغت سے ہٹا دیے جانے چاہیئیں۔ اسی حق اور اختیار کے تحت کوئی بھی لڑکی یا لڑکا جو اپنے والدین کی اکلوتی اولاد بھی ہو بڑھاپے اور شدید بیماری میں انہیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر گھر سے جاسکتا ہے۔ اس پر سماج کے کسی فرد کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے، مگر ایسا نہیں ہے کیونکہ جس طرح ہم دوسروں سے کسی فعل کی وضاحت مانگتے اور سوال اٹھانے کے عادی ہیں، اسی طرح ہمیں اپنے بڑوں یا دیگر احباب کا اپنے کسی قول و فعل پر اعتراض دور کرنا ہو گا اور انہیں جواب بھی دینا پڑے گا۔

شہزاد کا موڈ ٹھیک ہورہا تھا۔ وہ مجھے غور سے سننے لگا۔ میں بھی اسے یوں متوجہ پاکر واعظ و دانا بن گیا اور بولے چلا گیا۔

ہر مذہب اور معاشرہ اخلاقی تعلیم، قدروں اور روایات کے احترام کا درس دیتا ہے۔ مغربی معاشرے جنہیں ہم ہمیشہ بے راہ روی اور اخلاقیات سے عاری مانتے چلے آئے ہیں، وہاں بھی اس کی اجازت نہیں دی جاتی۔ وہ بھی آزادی اور اختیار و حق کے غلط اور بھونڈے استعمال سے بیزار ہیں۔ اگر ہم صرف اپنی مرضی اور اختیار کے تحت زندگی بسر کرنا چاہیں تو سماج میں رہنا ناممکن ہے۔ آزادی کے نام پر کچھ بھی کر جانے کا تصور ناقابل عمل ہے کیونکہ اس طرح انسان اور جانور میں تمیز مٹ جائے گی۔ ایسا کرنا ہو تو اپنے چند ہم خیالوں کے ساتھ الگ دنیا بسا لینا چاہیے۔

اور پھر اگر مرد بھی ایسا ہی کرے تو اسے ظالم مانا جاتا ہے۔ حقوق نسواں کی پامالی کا شور مچا دیا جاتا ہے۔ غرض دونوں ہی کا اپنی حد میں رہنا، دوسروں کے حقوق اور اخلاقی قدروں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ کسی بھی سوسائٹی میں توازن اور اس کا حسن اسی صورت میں قائم رہ سکتا ہے جب وہ احترامِ آدمیت برقرار رکھے اور اخلاقی و معاشرتی قوانین کی پاسداری کرے۔ مذکورہ ویڈیو یقیناً عورت کے حقوق، آزادی اور اسے بااختیار بنانے کی ایک پرخلوص کوشش تھی، لیکن شاید اس کی ٹیم کا ذہن مختلف زاویوں پر غور کرنے سے قاصر رہا۔

قصہ مختصر جو ہوا سو ہوا۔ مگر ہمیں ایسے مباحث اور پیغامات کو فروغ دینے سے گریز کرنا ہوگا اور مرد و عورت کو حد میں رہتے ہوئے اپنے حق اور اختیار کا استعمال کرنا ہوگا۔ اس قسم کے پیغام عام کرنے کے بجائے پڑھنے لکھنے کا حق، روزگار کا حق اور خیالات اور خواہشات کے اظہار کی حد میں رہتے ہوئے آزادی پر زور دینا ہوگا۔ دوسری صورت میں ہم اور حیوان ایک صف میں کھڑے ہوں گے۔

کیا آپ بھی مرد و عورت کی مادر پدر آزادی کے حق میں ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔