نئی کتابیں اور رسائل

رئیس فاطمہ  جمعرات 2 اپريل 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

بہت سی کتابیں اور رسائل جمع ہوگئے ہیں لیکن مصروفیت کی بنا پر ان کی طرف توجہ نہیں دے پائی، آج کچھ کتابوں کا انتخاب کیا ہے یقین ہے کہ قارئین کے ذوق مطالعہ کی تسکین کا باعث ہوں گی۔

سب سے پہلے میں جس کتاب کے بارے میں لکھنا چاہتی ہوں وہ ہے جناب عبداللہ جاوید کی کلام میر سے منتخب کردہ اشعار کی کتاب جس میں انھوں نے مختلف عنوانات قائم کرکے ان کے ذیل میں میر کے اشعار کا انتخاب کیا ہے۔ عبداللہ جاوید خود بھی ایک معروف شاعر کی حیثیت سے مشہور ہیں اور کسی نہ کسی ادبی اور تخلیقی کام میں مصروف رہتے ہیں۔ زیر نظر کتاب کا عنوان ہے ’’مت سہل ہمیں جانو‘‘ ذیلی عنوان ہے ’’آئیے میر پڑھیے‘‘۔

اردو زبان کے ایک دیرینہ ناقد اور محقق جمیل جالبی نے فلیپ پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے:

’’ہماری شعری تہذیب میں میرکا مقام آج بھی مستحکم ہے۔ اپنی وفات کے دو سو برس بعد بھی ان کے اشعار آج کی زندگی کے تجربے اور انسانی احساس کو بڑی خوبی سے بیان کرتے ہیں۔ بڑے اشعار کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ ان کی خوشبو ماورائے زمانہ سفر کرتی ہے اور بڑے شاعر اپنے عہد اور اپنے مادی وجود کی حدوں سے گزر کر بھی زندہ رہتے ہیں۔ اس امر کی صداقت کا ثبوت میر کے اشعار سے آج بھی ملتا ہے۔‘‘ جمیل جالبی کی اس رائے کے بعد ہمارے لیے یہ سمجھنا چنداں دشوار نہیں رہا کہ میر کو ’’خدائے سخن‘‘ کا لقب کیوں دیا گیا تھا۔

کتاب کا آغاز اردو زبان اور ادب کے غیر معمولی منفرد ناقد محمد حسن عسکری کے اس جملے سے ہوتا ہے کہ ’’میر کو پڑھنا۔ زندگی بھرکا جھگڑا مول لینا ہے‘‘ اس جملے کی صداقت اور واقفیت سے صرف وہی لوگ واقف ہیں جنھوں نے میر کو پڑھنے میں ایک عمر صرف کردی ہے۔ میر کا ایک شہرہ آفاق شعر ہے:

ایسی بھی بدمزاجی‘ ہر لحظہ میر تم کو
الجھاؤ ہے زمیں سے‘ جھگڑا ہے آسماں سے

یہ ایک سچے تخلیقی فن کار کے دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی آواز ہے جس میں کوئی کھوٹ، ملاوٹ، منافقت، دنیاداری اور مصلحت کوشی نہیں ہے۔ اسی لیے محمد حسن عسکری نے کہا ہے کہ میر کو پڑھنا۔ زندگی بھر کا جھگڑا مول لینا ہے۔ عبداللہ جاوید نے مختلف عنوانات کے تحت میر کے اشعار درج کیے ہیں اور ان کی خوبیوں کو اجاگر بھی کیا ہے۔ لیکن جو کام انھوں نے بڑے انفرادی انداز میں کیا ہے وہ میر کے غزلیہ اشعار کی نظموں میں منتقلی کا ہے۔ یہ کام انھوں نے ادب احترام اور معذرت کے ساتھ کیا ہے ظاہر ہے یہ معذرت روح میر سے ہی ہے لیکن ان کی اس کاوش نے میر کے غزلیہ اشعار کے معانی کو دو چند کردیا ہے اور انھیں زیادہ موثر اور بامعنی بنادیا ہے۔

مثال کے طور پر :- نظم ’’حمدیہ‘‘ کے تحت انھوں نے میر کی غزل کا یہ شعر نظم کے انداز میں پیش کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
’’تھا مستعار حسن سے‘ اس کے
جو نور تھا
خورشید میں بھی
اس ہی کا ذرّہ
ظہور تھا‘‘

عبداللہ جاوید نے یہ ایک انوکھا اور دلچسپ تجربہ کیا ہے لیکن مجھے کہنے دیجیے کہ ان کا یہ تجربہ ہرگز، ہرگز ناکامی سے دوچار نہیں ہوا بلکہ ان نظموں کو پڑھ کر میر کے غزلیہ اشعار کی تفہیم اور تاثر مزید گہرا ہوجاتا ہے۔ اب اس کی کچھ اور مثالیں:
’’کارگہہ شیشہ گری‘‘
’’لے سانس بھی۔۔۔۔آہستہ
کہ نازک ہے بہت
کام
آفاق کی اس
کارگہہ شیشہ گری کا‘‘
’’پھر وہیں دیکھو‘‘
‘‘اپنی تو جہاں آنکھ لڑی
پھر وہیں دیکھو
آئینے کو
لپکا ہے پریشاں نظری کا‘‘
’’دامن کو ٹُک ہلا‘‘
’’افسردگی سوختہ جاناں
ہے قہر میر
دامن کو ٹُک ہلا
کہ دلوں کی بجھی ہے آگ‘‘

عبداللہ جاوید کی یہ کتاب ’’اکادمی بازیافت‘‘ کے زیر اہتمام شایع ہوئی ہے۔

دوسری کتاب جس کے بارے میں، میں لکھنا چاہتی ہوں وہ ہے ڈاکٹر محمد اعجاز تبسم کی تصنیف ’’جَو :-غذا بھی، شفا بھی‘‘کتاب کے سرورق کے اوپر یہ عبارت درج ہے ’’نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پسندیدہ غذا جَو پر ایک تحقیقی کتاب‘‘ کتاب کا پس منظر یہ ہے کہ میں نے روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ کراچی کے کالموں میں اسلام آباد سے شایع ہونے والے ایک رسالے کا حوالہ دیتے ہوئے ’’گلوٹین الرجی‘‘ کا ذکر کیا تھا یہ کتاب میرے انھی کالموں کے جواب میں بھیجی گئی تھی۔ کتاب کے مصنف اور کتاب کے مندرجات کا تعارف کراتے ہوئے پروفیسر ریاض احمد قادری لکھتے ہیں:

’’ڈاکٹر محمد اعجاز تبسم ایک پی ایچ ڈی زرعی سائنس داں ہیں اور گزشتہ دو عشروں سے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پسندیدہ غذا جَو یعنی Barley کی تحقیق میں مصروف عمل ہیں۔ ان کا اوڑھنا بچھونا نہ صرف جَو کی فصل کے کھیت کھلیان ہیں بلکہ ہر شہری کی صحت کو بحال و برقرار رکھنے میں بھی پیش پیش ہیں۔‘‘ آگے چل کر پروفیسر ریاض احمد قادری لکھتے ہیں:

’’ڈاکٹر محمد اعجاز تبسم کی تحقیق کے مطابق جَو کی فصل کی کاشت سے نہ صرف زمین کی زرخیزی میں بہتری لائی جاسکتی ہے بلکہ قوم کو غذائی خودکفالت کی منزل سے بھی ہم کنار کیا جاسکتا ہے۔‘‘

جَو کی فصل، پیداوار اور اس کے مختلف خواص اور خوبیوں کے بارے میں اس سے زیادہ معلوماتی کتاب میری نظر سے نہیں گزری۔ غالباً نہیں بلکہ واقعتاً یہ کتاب اپنے موضوع پر پہلی اور اب تک لکھی جانے والی کتابوں میں ایک منفرد اور اعلیٰ درجے کی کاوش ہے جو ایک ایسے شخص کی تصنیف ہے جس نے زرعی سائنس میں پی ایچ ڈی کیا ہوا ہے۔ اس مفید کتاب کو تکلّم پبلی کیشنز فیصل آباد نے شایع کیا ہے، جس میں تمام انسانی عارضوں اور امراض کا حل جَو کے استعمال کو قرار دیا گیا ہے۔ اس کتاب کا ہر گھر میں ہونا بے حد ضروری ہے۔

اب جس کتاب کا تذکرہ میں کروں گی وہ ہے ڈاکٹر فیروز عالم کی خودنوشت سوانح عمری ’’ہوا کے دوش پر‘‘۔ فیروز عالم کی پیدائش یوں تو بھارت کے شہر جودھ پُور کی ہے لیکن شعور کی آنکھ انھوں نے تقسیم کے بعد سندھ پاکستان کے ایک شہر میرپورخاص میں کھولی۔ ’’ہوا کے دوش پر‘‘ دراصل ایک عام آدمی کی سرگزشت ہے جس میں بہت سے نشیب و فراز آتے ہیں جو اس کتاب کی دلچسپی کا سبب ہیں۔

’’فکر و نظر‘‘انیس باقر کے مضامین۔ (انشائیوں اور سیاسی کالموں کا مجموعہ ہے۔ کتاب کے مصنف این ایس ایف یعنی نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک سرگرم قائد رہ چکے ہیں جو بالخصوص کراچی کے طلبا کی بائیں بازو کی ایک طلبا تنظیم تھی۔ لکھنے پڑھنے کا شوق انھیں ورثے میں ملا ہے۔ وہ اردو زبان اور اردو ادب کے ممتاز ناقد اور ادیب پروفیسر مجتبیٰ حسین کے صاحب زادے ہیں۔ انھوں نے انشائیے، مضامین اور سیاسی کالموں کا انتخاب ’’فکر و نظر‘‘ کے عنوان سے شایع کردیا ہے جن میں ان کی ترقی پسندانہ فکر نمایاں ہے۔

اس کے علاوہ میں یہاں اردو کے دو ایسے رسائل کا ذکر کرنا چاہتی ہوں جو پابندی اوقات، معیار اور توازن کے اعتبار سے آج بھی چند گنے چنے ادبی رسائل میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان میں سب سے پہلا ادبی جریدہ ’’فنون‘‘ ہے جسے مشہور و معروف افسانہ نگار، شاعر، کالم نویس اور مدیر احمد ندیم قاسمی کی دختر نیک اختر محترمہ ناہید قاسمی بروقت مرتب کرکے شایع کردیتی ہیں اور یوں اپنے مرحوم والد کی روش کو فروغ دے رہی ہیں۔

دوسرا ادبی رسالہ جو احسن سلیم کی ادارت میں شایع ہوتا ہے یعنی ’’اجرا‘‘ بھی وقت پر شایع ہونے والے ادبی رسائل میں نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے مدیر نے ابتدا ہی سے ’’تبدیلی‘‘کی ایک مہم شروع کر رکھی ہے اور وہ پاکستانی معاشرے کو اس تبدیلی سے ہم کنار کرنے کے آرزو مند ہیں جو صرف اور صرف ادب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ہم احسن سلیم کی ان کاوشوں میں تہہ دل سے شریک ہیں اور چاہتے ہیں کہ معاشرے میں ادب کے ذریعے تبدیلی لائی جاسکے۔(آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔