لہو پکارے گا آستیں کا (

ایم جے گوہر  جمعرات 2 اپريل 2015

تاریخ شاہد ہے کہ جس قوم کے رہنماؤں و قائدین نے مشکل حالات اور آزمائش کے لمحوں میں زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے درست وقت پر درست فیصلے کیے تو کامیابیاں ان کا مقدر بنیں اور قوموں نے عروج کی منزلیں طے کیں۔

قائداعظم سے ماؤزے تنگ تک اور نیلسن منڈیلا سے بارک حسین اوباما تک ہر رہنما اپنی قوم اور تاریخ عالم کا ناقابل فراموش کردار بنا، پاکستان کی 65 سالہ تاریخ میں قائد اعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو وہ واحد رہنما ہیں جنھیں عوام الناس نے زبردست پذیرائی بخشی وہ اپنی خداداد صلاحیتوں اور کرشماتی شخصیت کے طفیل قومی و عالمی سطح پر ایک مدبر سیاست دان کے طور پر ابھرے اور پاکستان کی پہچان بن گئے۔

بھٹو نے سقوط بنگال کے بعد شکست خوردہ و مایوس قوم کو جینے کا نیا عزم و حوصلہ دیا اور تاریخ ساز جدوجہد کر کے غیر معمولی حالات میں پاکستان کو عالمی برادری میں ایک باوقار ملک کے طور پر روشناس کرایا۔

بھٹو صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ 1973ء کا متفقہ آئین ہے جس پر آج تک قومی سیاسی زندگی کی عمارت کھڑی ہے لیکن ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ملک پر جب بھی جمہوریت پر شب خون مار کر آمروں نے اپنا تسلط قائم کیا تو آئین کے ساتھ طفلانہ سلوک کرتے اور سیاست کا چہرہ خود ساختہ ترامیم کے تیزاب سے جھلساتے رہے اس پر مستزاد یہ کہ انصاف کے اعلیٰ ایوانوں سے بھی آمروں کو ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت سند جواز ملتی رہی، جس کے باعث ان کے حوصلے بھی بلند ہوتے رہے، سب سے زیادہ متنازعہ فیصلہ 4 اپریل 1979ء کو بھٹو کی پھانسی کا تھا جو آج تک اور آیندہ بھی موضوع بحث رہے گا۔

بھٹو کی پھانسی کے بعد جو انھیں احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کے الزام میں دی گئی اس مقدمہ قتل کے حوالے سے مختلف اوقات میں ایسے حیرت انگیز انکشافات سامنے آتے رہے ہیں کہ جن کے باعث ایوان انصاف کے پس پردہ کردار نے بہت سے سنجیدہ سوالوں کو جنم دیا۔

سردار شوکت حیات خان نے اپنی کتاب ’’گم گشتہ قوم‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’اس قتل (احمد رضا قصوری کے والد کے قتل) کا الزام بھٹو پر لگا، لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ چلا ، مقدمے (مقدمہ) سننے والا بڑا جج ہمارا سابق مسلم لیگی کارکن چیف جسٹس مشتاق احمد (مولوی مشتاق حسین) تھا‘‘ انھوں نے مزید یہ لکھا کہ ’’مجھے پریس کی رپورٹوں اور دوسرے ذرایع سے احساس ہو گیا تھا کہ بھٹو کو ایک شریک جرم کی حیثیت سے پھانسی پر لٹکایا جائے گا۔

میں لاہور ہائی کورٹ میں کسی ذاتی کام سے گیا ہوا تھا۔ اتفاق سے میرا گزر چیف جسٹس کی عدالت کے پاس سے ہوا میں نے معلوم کیا کہ کیا چیف جسٹس موجود ہیں؟ جواب اثبات میں ملنے پر میں نے اس کے سیکریٹری سے کہا کہ وہ پوچھ کر بتائے کہ کیا میری ملاقات اس وقت ہو سکتی ہے۔

مشتاق نے مجھے فوراً اندر بلا لیا اور پورے احترام سے ملا میں نے پوچھا ’’مشتاق! میں نے سنا ہے کہ تم پانچ آدمیوں کو ایک آدمی کے قتل میں پھانسی پر لٹکا رہے ہو، کیا یہ برطانوی ضابطہ قانون یا اسلامی قانون کے تحت انصاف ہو گا؟ اگر یہ خبریں درست ہیں تو کیا اسے احساس نہیں کہ اگر اس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا تو وہ اپنی ذات کو پیپلزپارٹی کی انتقامی کارروائی سے کیسے بچا سکے گا؟‘‘ اس نے جواب دیا کہ فکر مت کرو مجھے سپریم کورٹ کے ججوں کی اکثریت نے حلف پر یقین دلایا ہے کہ اس کا فیصلہ سپریم کورٹ میں بحال رکھا جائے گا۔

مذکورہ اقتباس سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو گئی کہ ایوان انصاف نے بھٹو کے خلاف مقدمہ قتل میں کس طرح کا ’’انصاف‘‘ انھیں فراہم کیا اور اس کے پس پردہ کیا عوامل کار فرما تھے، بھٹو صاحب کے خلاف تھانہ اچھرہ لاہور میں احمد رضا قصوری کے والد نواب احمد خاں کے قتل کی FIR درج کرائی گئی تھی۔

پنجاب ہائی کورٹ کے سینئر جج شفیع الرحمن کو انکوائری کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ انھوں نے اپنی رپورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کو بے قصور قرار دیا تھا، لیکن یہ رپورٹ بڑی تیاری کے ساتھ چوری کر کے ضایع کر دی گئی، بھٹو کے مقدمہ قتل کے حوالے سے چیف جسٹس سپریم کورٹ نسیم حسن شاہ مرحوم کے کردار سے کون واقف نہیں، انھوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اپنے اندر کا سچ اگلتے ہوئے تسلیم کیا کہ بھٹو کیس میں قانونی سقم تھے انھیں اتنی سخت سزا نہیں ملنا چاہیے تھی۔

تاہم جب حاکم وقت ہی ’’منصف‘‘ بن جائے تو انصاف لہولہان ہو جاتا ہے۔ معروف صحافی و تجزیہ کار حمید اختر مرحوم نے اپنے ایک کالم میں جو اخبار ہٰذا میں 13 جولائی 2006ء کو شایع ہوا، لکھا تھا کہ ’’ضیا الحق حکومت کی کوشش تھی کہ میاں عباس بھٹو کے مقدمہ قتل کے دوران یہ شہادت دیں کہ احمد رضا قصوری کے والد کو قتل کرنے کا حکم انھیں بھٹو صاحب نے دیا۔

لاہور میں جب جسٹس مولوی مشتاق کی عدالت میں اس مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی تو میاں عباس نے جو بیان ریکارڈ کروایا اس میں واضح لفظوں میں کہا کہ نہ تو انھوں نے اپنے جوانوں کو یہ قتل کرنے کا حکم دیا اور نہ ہی بھٹو یا کسی اور حکومتی شخصیت نے انھیں ایسا کرنے کے لیے کہا تھا‘‘ چونکہ میاں عباس کے اس بیان کی بنیاد پر بھٹو کو پھانسی نہیں دی جا سکتی تھی لہٰذا انھیں جان بخشی کی ضمانت کا لالچ دے کر اگلی پیشی پر جھوٹا بیان دلوایا گیا کہ انھیں اس قتل کا حکم وزیراعظم بھٹو نے دیا تھا۔

بھٹو صاحب کو تو پھانسی ہو گئی لیکن آمرانہ سفاکی کے مکروہ عزائم کی تکمیل اس وقت ہوئی جب بھٹو کے خلاف جھوٹا بیان دینے والے میاں عباس اور دوسرے گواہان کو جان بخشی کی ضمانت دینے کے باوجود تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالمجید ملک اپنی کتاب ’’ہم بھی وہاں موجود تھے‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ ’’میں نے جنرل ضیا الحق کو اپنے طویل خط میں بھٹو کو پھانسی نہ دینے کے علاوہ اس رائے سے بھی آگاہ کیا جو پاکستان کے بارے میں مختلف سفیروں کی تھی۔

اس کے علاوہ میں نے یہ بھی تحریر کیا کہ آرمی کے سامنے اب فوری طور پر دو مقاصد ہونے چاہئیں کہ انتخابات کرا کے اقتدار منتخب حکومت کے سپرد کردے اور خود بیرکوں میں واپس جائیں‘‘ دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہان نے بھی بھٹو کی جان بخشی کی اپیلیں کی تھیں لیکن جنرل ضیا الحق نے کسی کی ایک نہ سنی اور پاکستان کے کروڑوں عوام کو اپنے محبوب رہنما اور ایک مدبر سیاست دان سے محروم کر دیا۔

ہر سال 4 اپریل کو بھٹو مرحوم کی برسی منائی جاتی ہے تو قومی و عالمی ذرایع ابلاغ میں بھٹو کے مقدمہ قتل کے حوالے سے مختلف النوع سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور عوام یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ بقول شاعر:

جو چپ رہے گی زبان خنجر
لہو پکارے گا آستیں کا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔