آئی ایف سی نے ودہولڈنگ ٹیکس سے بھی چھوٹ مانگ لی

ارشاد انصاری  جمعرات 2 اپريل 2015
وزارت خزانہ کی جانب بھجوائے جانے والے آئی ایف سی کے لیٹر کا جائزہ لیاجارہا ہے تاہم ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا، حکام۔ فوٹو: فائل

وزارت خزانہ کی جانب بھجوائے جانے والے آئی ایف سی کے لیٹر کا جائزہ لیاجارہا ہے تاہم ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا، حکام۔ فوٹو: فائل

کراچی: بین الاقوامی مالیاتی کارپوریشن (آئی ایف سی) نے پاکستان سے ڈیوٹی اور ٹیکسوں کے علاوہ ود ہولڈنگ ٹیکس سے بھی چھوٹ مانگ لی ہے جبکہ وزارت خزانہ نے آئی ایف سی کی جانب سے موصول ہونے والا لیٹر رائے کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو بھجوادیا ہے۔

اس ضمن میں ’’ایکسپریس‘‘ کو دستیاب دستاویز کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی کارپوریشن پاکستان کے سینئر منیجر ندیم اے صدیقی کی جانب سے وزارت خزانہ کولیٹر لکھا گیا ہے جس میں 5 مارچ 2015 کو وزارت خزانہ کے مشیر رانا اسد امین کے ساتھ ہونے والی ملاقات کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں آئی ایف سی پر ود ہولڈنگ ٹیکس سے متعلقہ شقوں کے نفاذ کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ دستاویز میں کہا گیا کہ آئی ایف سی عالمی بینک گروپ کا ممبر ادارہ ہے جو دنیا کے مختلف ممالک کو قرضے و فنانسنگ فراہم کررہا ہے.

آئی ایف سی ایکٹ 1956 کو پاکستان کی جانب سے بھی منظور کرکے نافذ کیا گیا ہے اور آئی ایف سی ایکٹ کی سیکشن 5کے مطابق ایگریمنٹ کے آرٹیکل 6 میں آئی ایف سی اور اس کے اثاچہ جات، اس کی آمدنی اور اسکی ٹرانزیکشنز کو ٹیکس اور ڈیوٹیوں سے استثنیٰ حاصل ہے، اس کے علاوہ کارپوریشن کوئی ڈیوٹی اور ٹیکس اکھٹا بھی نہیں کرے گی، اسی طرح آئی ایف کی جانب سے ڈائریکٹرز اور اپنے ملازمین کو دی جانے والی تنخواہوں پر بھی کسی قسم کا کوئی ٹیکس عائد نہیں ہوگا لیکن حکومت پاکستان کی جانب سے فنانس ایکٹ 2008 کے تحت انکم ٹیکس آرڈیننس میں ایک ترمیم متعارف کرائی گئی۔

بین الاقوامی مالیاتی کارپوریشن کی جانب سے لکھے جانے والے لیٹر میں کہا گیا ہے کہ آئی ایف سی ایکٹ 1956 کے تحت آئی ایف سی پر ود ہولڈنگ سے متعلقہ سیکشن 150،151،152،1523، 233کا اطلاق نہ کیا جائے۔ اس حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو حکام کا کہنا ہے کہ وزارت خزانہ کی جانب بھجوائے جانے والے آئی ایف سی کے لیٹر کا جائزہ لیاجارہا ہے تاہم ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا اور اس بارے میں متعلقہ قوانین کا جائزہ لے کر کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔