جوڈیشل کمیشن معاہدہ ..... مثبت پیش رفت

ایڈیٹوریل  جمعـء 3 اپريل 2015
کمیشن کے بیان پر تحریک انصاف کے قومی اسمبلی میں واپسی کا در کھل سکتا ہے جب کہ دھاندلی ثابت ہونے کی صورت میں وزیراعظم نواز شریف اسمبلی تحلیل کرنے کے پابند ہونگے۔ فوٹو : اے پی پی

کمیشن کے بیان پر تحریک انصاف کے قومی اسمبلی میں واپسی کا در کھل سکتا ہے جب کہ دھاندلی ثابت ہونے کی صورت میں وزیراعظم نواز شریف اسمبلی تحلیل کرنے کے پابند ہونگے۔ فوٹو : اے پی پی

حکومت اور تحریک انصاف نے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لیے معاہدے پر دستخط کرکے در حقیقت ملک میں جمہوری اقدار و عمل کے تسلسل اور سیاسی مسائل اور تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی روایت پر اپنا یقین ظاہر کیا ہے جو آگے چل کر نہ صرف جمہوری عمل کو مہمیز کرنے ، انتخابی نظام میں نقائص کو دور کرنے ، اس میں بہتری لانے بلکہ شفافیت کو اجاگر کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوگا ۔

دریں اثنا وزیراعظم نواز شریف نے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام کی منظوری دی ہے جس کے نتیجہ میں یقیناً قومی سیاست میں ملکی انتخابات کے نتائج کو قبول کرنے کا صحت مند کلچر بھی جنم لے سکے گا۔ یعنی معاملہ ’’ ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے، بے نیازی تری عادت ہی سہی ‘‘ جیسا نہیں ہوگا، سیاسی مدبرین کا کہنا ہے کہ تعمیری اور صحت مند جمہوریت کا بنیادی اصول کھلی اور شفاف بات چیت ہے۔

اس لیے یقین کرنا چاہیے کہ کمیشن کی رپورٹ خدا کرے ایک ایسے ہی روادارانہ، جمہوری سپرٹ سے لیس اور پارلیمانی روایات و انتخابی قواعد و ضوابط کی پابند سیاسی اخلاقیات کی بنیاد رکھے جس کے بعد انتخابی عمل کی شفافیت پر کوئی انگلی تک نہ اٹھا سکے۔تاہم اب جب کہ جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا معاہدہ ہو چکا ہے اسے کام کرنے دیا جائے ، اور کسی قسم کی سیاسی کشیدگی ،کھینچا تانی اورمتنازع  بیانات سے تحقیقاتی ماحول کو متاثر نہ ہونے دیا جائے۔

یہ دو طرفہ بریک تھرو ہے جس کا کریڈٹ حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کو جاتا ہے۔ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے حکومت اور جہانگیر ترین نے تحرک انصاف کی جانب سے میڈیا کے سامنے معاہدہ پر دستخط کیے جب کہ 7صفحات پر مشتمل دستاویز پر شاہ محمود قریشی اور وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ کے بھی دستخط ہیں۔

بلاشبہ انتخابی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے دو طرفہ اعتماد نے جوڈیشل کمیشن کی اہمیت کو قومی سطح پر تاریخ ساز بنادیا ہے، حکومت اور پی ٹی آئی نے بالآخر آئینی و قانونی طریقہ کار اختیار کیا جس پر قومی حلقوں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ امکانی صورت یہ بتائی جاتی ہے کہ کمیشن قواعد و ضوابط خود طے کرے گا، اسے انتخابی دستاویزات تک رسائی کا بھی اختیار ہوگا۔

کمیشن کے بیان پر تحریک انصاف کے قومی اسمبلی میں واپسی کا در کھل سکتا ہے جب کہ دھاندلی ثابت ہونے کی صورت میں وزیراعظم نواز شریف اسمبلی تحلیل کرنے کے پابند ہونگے۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کے مسئلہ پر انتہائی دانشمندی کا ثبوت دیا ہے ۔

جب کہ جمہوری حق کو استعمال کرتے ہوئے ایک انتخابی ایشو پر عدالتی کمیشن کے قیام پر اتفاق رائے سیاسی کشمکش میں خوشگوار ہوا کا مفاہمتی جھونکا ہے۔ اسی طرز عمل اور کشادہ نظری پر مبنی جمہوری رویہ کمیشن کی رپورٹ کی آمد پر بھی ظہور پزیر ہونا چاہیے۔ تب بات بنے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔