تہذیب کا زوال۔ نظریہ زر کا عروج

انیس باقر  جمعـء 3 اپريل 2015
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

تہذیب میں زر کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، مگر زر کے علاوہ بھی جو متصادم قوت تھی وہ انسانی اقدار کی تھیں، انسان کا ضمیر، تعلیم اور تربیت انسان کو اصولوں کا پابند بنا دیتا ہے اور زیادہ لکھنے پڑھنے کے بعد انسان اپنے ضمیر کا قیدی بن جاتا ہے۔

جیسے انسان کو اپنی ضروریات اور مشکلات کا احساس ہوتا ویسے ہی انسان کو اپنے بعد دوسروں کا بھی خیال آتا رہتا ہے اور جب شعور اور احساس بلند ہوجاتا ہے تو پھر وہ دوسروں کو بھی اپنے ہی جیسا انسان سمجھنے لگتا ہے اور یہی وہ معراج ہے کہ انسان اپنے نفس کی غلامی سے آزاد ہوجاتا ہے۔

یہ آزادی آدمی میں نظریات کی بنا پر پیدا ہوتی ہے، وہ نظریات خواہ مذہبی ہوں یا اخلاقی ایسے نظریات جو ایک انسان کو دوسرے انسان کا ہم پلہ بنا دیتے ہیں۔ اسی لیے جب سوشلزم اور مذہبی قوتوں کے نظریات میں مباحثہ تھا تو دونوں جانب میں ایسے کارکن نمایاں ہوتے تھے جو نظریات کا پاس رکھتے تھے مگر جب سے نظریات کا تصادم جاتا رہا یا یوں کہیے کہ ٹریڈ اینڈ کامرس کا عروج ہوا تو نفع کی سیاست نے عوام کے اذہان پر حکمرانی شروع کردی مگر گزشتہ تین دہائیوں سے اسلامی فکر میں نمایاں عروج آیا اور ہر مسلک نے اپنے کو راست اور دوسرے کو غلط گردانا۔

اس سے نظری اور فکری تصادم عملی تصادم کی شکل لینے لگا اور مسالک اور عقائد کی رسہ کشی شروع ہوگئی، حالانکہ دین میں زور زبردستی نہیں ہے۔

پروپیگنڈہ کی وجہ سے لوگ سیکولرازم کے نام سے لرزہ براندام ہیں جب کہ یہی سیکولرازم ہے کہ ہر فرد کو اس کے عقیدے کی آزادی کے معنی دیتا ہے مگر سیکولرازم کا اردو ترجمہ لادینیت کرکے عوام کو گمراہ کیا گیا، کفر، الحاد کو انگریزی زبان میں اتھیس ازم Atheism اور ملحد و کافر (Althiest) ایتھیسٹ ہوتا ہے۔

مگر افسوس کہ ایسے ممالک جن کی اکثریت مسلمان ہے وہاں کرپشن عروج پر ہے اور وہ لوگ جو غیر اخلاقی ذرایع سے دولت پیدا کر رہے ہیں وہ باعزت ہیں جس سے اس راستے کو فروغ مل رہا ہے۔ تقریباً 60 برسوں سے پاکستان میں سیکولرازم کو لادینیت کہہ کر فروغ دیا جا رہا ہے، اس لیے ملک میں فرقہ پرستی عام ہوئی، ٹارگٹ کلنگ کو عروج ملا۔ انسانی فکر دراصل شاعر نے کیا خوب بیان کی ہے:

یہی ہے عبادت یہی دین و ایمان
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

مگر اب تو کرپشن سوسائٹی میں کینسر کی شکل اختیار کرچکا ہے، پاکستان کے عوام کی کمائی ہوئی رقم محنت شاقہ ماڈل گرلز اور دیگر طریقوں سے ملک سے باہر جا رہی ہے ، شہروں میں کرپشن کا انداز الگ ہے اور سندھ کے چھوٹے شہروں میں کرپشن کا الگ انداز ہے، وہاں ہندو برادری کے کاروبار میں شراکت دار بن کر رقم کما رہے ہیں۔

خصوصاً رائس مل اور اسی قسم کے دیگر کاروبار جس کی وجہ سے چین کہیں نہیں۔ اس کو ڈیمو کریسی کہتے ہیں جو ملک کو خاتمے کی دہلیز تک لے کر جا رہی تھی، یہ تو کہیے اللہ بھلا کرے فوجی مداخلت کا جس نے اسمبلی سے کرپشن اور بے یقینی حالات میں امید کی کرن پیدا کردی۔ کراچی جیسا شہر جو کئی دبئی جیسے شہروں کو جنم دے سکتا تھا۔

اس میں دوبارہ زیست کی امید نظر آئی ہے۔ مجبوری ہے ایک طرف غیر جمہوری حکومت تو دوسری جانب دہشت گردی، ظاہر ہے دونوں میں کس کو پسند کیا جانا تھا جب قانون گلی کوچوں میں۔ مگر گزرتے وقت میں جو بھی کراچی کے گلی کوچوں سے گزرا سکون ہی سکون تھا کیونکہ حکمرانوں کے مال کمانے کے چرچے نہ تھے۔ ایک اطلاع کے مطابق جب ملک کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان پر گولی چلی تو ان کی جیب میں 5 روپیہ کا نوٹ تھا۔

ویسے 1960-1950کے رہنماؤں پر جو بھی الزامات عائد کیے جائیں مگر ان پر کرپشن کے الزامات نہیں لگائے جاسکتے تھے اور کراچی شہر جو ملک کا دارالسلطنت تھا لوٹ مار کی کوئی کیفیت نہ تھی، لیاری مشاعروں اور مباحثوں کی سرزمین تھی اور نیشنل عوامی پارٹی، عوامی لیگ، مسلم لیگ، نمایندہ جماعت تھی مگر مسلم لیگ کی اتنی شاخیں نہ تھیں، جماعت اسلامی کی بھی آواز تھی، مسلم لیگ کی شاخ درشاخ یہ بتاتی ہے کہ اقتدار کی یہ پگڈنڈیاں ہیں۔

پہلے مسلم لیگ کے لیڈران کا حال 60 کی دہائی میں ابن حسن جارچوی کے ناظم آباد کے گھر میں پلاسٹر نہ ہوا تھا، شام کو ان کے گھر پر مجمع لگتا اور قائداعظم کی رفاقت اور فکری نشست ہوتی تھی، مگر آج کیا ہے؟ لوگوں کو نسل پرستی میں لگا کر الجھا دیا ہے اور لوگ ان کو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں، چونکہ پنجاب کی تقریباً 2 تہائی نشستیں ہیں، اس لیے تھوڑا سا نسلی فیکٹر شامل کرکے حکومت کی جاسکتی ہے، یہی لیڈری کی ترقی کا سرچشمہ ہے، لیڈر بننے کے لیے نفرت کے بیج ڈالیں اور نسلی پودے لگائیں، کامیابی ضرور ملے گی۔ اسی لیے پاکستان میں غربت کی شرح بڑھ رہی ہے۔

1950 میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن جس نے 1953 میں مسائل پر جلوس نکالا ان پر گولی چلی اس پارٹی کو ملک کی کمیونسٹ پارٹی کی حمایت حاصل تھی اس پر پابندی کے بعد این ایس ایف نعرہ زن ہوئی، سوشلسٹ پارٹیوں میں جو لوگ کام کرتے رہے وہ زیادہ تر دانشور، ادیب، شاعر، کسان رہنما تھے۔ فیض احمد فیض، حبیب جالب، حسن حمیدی، گل خان نصیر، اجمل خٹک، سید سبط حسن، نازش امروہوی اور ترقی پسند مصنفین کی ایک فوج تھی جو 1954 میں غیر قانونی قرار دی گئی۔

لیڈروں میں حیدربخش جتوئی، سائیں عزیز اللہ، مرزا ابراہیم ریلوے لیڈر اور آج کل جو بقید حیات ہیں محمد رضی اور مگر کرپشن کا عفریت کسی پر نہ بیٹھا، افسوس کہ جن کو پابند سلاسل کیا گیا اور سیکڑوں جو ہم میں نہیں، نوجوان رہنما حسن ناصر اور ان ہی میں کاوش رضوی، ارشد حسین زیدی جو سیاسی معاملات میں کاوش رضوی کے دست راست تھے اور داماد بھی تھے، وقت تو کسی کا نہ دوست ہے اور نہ دشمن 28 مارچ کو دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے، کاوش صاحب اسی روز آرٹس کونسل میں میری کتاب فکرو نظر کی رونمائی میں بطور مہمان خصوصی مدعو تھے مگر وہ رسومات سے فارغ ہوکر 7 بجے آرٹس کونسل پہنچ گئے۔

ایک ایسے کارکن کی موت جس کے ساتھ برسہا برس جدوجہد میں گزارے اور اردو سندھی ادبی سنگت کو فعال کیا، اردو سندھی ادبی سنگت کا 1976 تا 1980 بہت اہم کردار تھا کیونکہ یہ وہ پل تھا جس نے سندھی مہاجر آگ جو ممتاز بھٹو نے بھڑکائی تھی اس پر پانی ڈالا اور آج فضل خدا کہ سندھی اور مہاجر شادیوں میں کوئی رکاوٹ نہ رہی۔ ارشد حسین زیدی صاحب تاریک راہوں میں تو نہ مارے گئے مگر لیڈری میں فتنہ پروری کی آگ لگانے والوں کے خلاف سینہ سپر رہے۔

ان کی یاد محبت کا ایک چراغ جو بجھ گیا، قیام پاکستان کی نسل رفتہ رفتہ عمر کی قید میں دھنستی جا رہی ہے اور ملکی قیادت کرنے والے ملک کی دولت کو لوٹ کر بھاگنے پر یقین رکھتے ہیں، کیونکہ ان کی نہ اخلاقی اور نہ سیاسی تعلیم ہے جو ان پڑھ یا نیم خواندہ لوگ تھے جن کا نوکری میں کوئی مستقبل نہ تھا وہ لوگ آج کل سیاسی میدان میں متحرک ہیں اور ہر جائز ناجائز کام میں آگے ہیں۔

وہ لوگ جو فکر و نظر میں پختہ تھے حالات کا جائزہ لیتے تھے فہرست رفتگاں میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔ اپنے اجداد کی دنیا پر انھیں یقین نہیں نہ وہ لوگ اب آنے سے رہے جو ہواؤں کے رخ بدلتے تھے، اب لیڈر وہ ہیں جو مئے زر پرستی پی کر ملک کی بربادی اور عوام کی تقسیم پر مامور ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔