زندگی کیا ہے؟

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 3 اپريل 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

دنیا میں لگ بھگ 7 ارب انسان بستے ہیں لیکن ان میں سے بمشکل 7 ہزار انسان بھی ایسے نہیں ہوں گے جو بھولے ہی سے سہی اس مسئلے پر غور کرتے ہوں گے کہ ’’ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے‘‘ ان 7 ارب انسانوں میں سے ہمارے اقتصادی نظام نے 90 فی صد سے زیادہ انسانوں کو اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ وہ پیٹ اور روٹی کے علاوہ کسی اور مسئلے پر سوچیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم آپ جس تہذیب پر فخر سے پھولے نہیں سماتے وہ تہذیب ہے کیا؟ اگر اخلاقی روایات، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے، پہننے اوڑھنے وغیرہ کا نام ہی تہذیب ہے تو پھر اس تہذیب سے ان 90 فی صد لوگوں کو نکال دینا ہو گا جو نہ اخلاقی روایات سے آشنا ہیں نہ اٹھنے بیٹھنے کے آداب سے نہ پہننے اوڑھنے کے سلیقے سے۔ اس پس منظر میں جب ہم اس سوال پر غور کرتے ہیں کہ ’’زندگی کا مقصد کیا ہے؟‘‘ تو سامنے ایک لا محدود خلا آ جاتا ہے۔

ویل ڈیورانٹ کا شمار دنیا کے معروف مدبرین اور مفکرین میں ہوتا ہے اس مفکر مدبر اور لکھاری کی شہرت اس کی ایک کتاب ’’تہذیب کی کہانی‘‘ سے حاصل ہوئی۔ ویل ڈیورانٹ نے تہذیب کی کہانی کے علاوہ بھی کتابیں لکھیں جن میں ’’تاریخ کے ہیرو‘‘ بھی شامل ہے اس کتاب کو ویل ڈیورانٹ نے 92 سال کی عمر میں مکمل کیا۔

ان کی پہلی کتاب ’’فلسفے کی کہانی‘‘ تھی جو سات سے زائد عشروں تک مسلسل چھپتی رہی، ڈیو رانٹ کے پاگل پن کا عالم یہ تھا کہ وہ فلسفے کو درسگاہوں سے نکال کر عام لوگوں کی زندگی میں لانے کی دیوانہ وار کوشش کرتے رہے۔

ڈیورانٹ ایک دن درختوں کی شاخوں سے گرے ہوئے پتے جمع کرنے میں مصروف تھا کہ عمدہ لباس میں ملبوس ایک شخص اس کے پاس آیا اور کہا کہ ’’میں خودکشی کرنے جا رہا ہوں اگر کوئی شخص خودکشی نہ کرنے کے حق میں معقول دلائل دے تو میں خودکشی کا ارادہ ترک کر سکتا ہوں، ڈیو رانٹ ایک فلسفی تھا اور فلسفیانہ دلائل سے اسے خودکشی سے روکنے کی کوشش کر سکتا تھا تاہم وہ شخص مذکور اسے فلسفے اور منطق سے نابلد نظر آیا لیکن ڈیورانٹ اسے اس کی عقل کے مطابق خودکشی نہ کرنے کے لیے راضی کرتا رہا لیکن وہ شخص اس کے دلائل سے متاثر ہوئے بغیر چلا گیا۔

ڈیورانٹ کی کتاب ’’زندگی کیا ہے‘‘ میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق صرف 2000ء میں 10 لاکھ افراد نے خودکشی کی، امریکا میں ہر روز اوسطاً 84 لوگ خودکشی کرتے ہیں اور ان کی ہر سال 30 ہزار سے زیادہ ہوتی ہے، ہر 17 منٹ میں ایک شخص زندگی ہار جاتا ہے، یہ اعداد و شمار 2000ء کے یعنی 15 سال پہلے کے ہیں، آج تو زندگی اتنا بڑا عذاب بن گئی ہے کہ یقیناً 2000ء کے مقابلے میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گی۔

ڈیورانٹ نے اس پس منظر میں مختلف شعبۂ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے 100 افراد کو خطوط لکھے جس میں صرف ایک سوال پوچھا گیا۔ ’’زندگی کا مقصد کیا ہے؟‘‘ اس سوال کا جواب ویل ڈیورانٹ کو مختصر اور طویل شکل میں ملا۔ لیکن ڈیورانٹ نے خود بھی اس سوال کا جواب دیا۔ جس کتاب میں انھوں نے اپنے ہی سوال کا جواب دیا اس کا نام ’’زندگی کا مفہوم‘‘ تھا۔

وہ لکھتا ہے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی ’’سچائی‘‘ کی دریافت تھی، سچائی نے ہمیں واہموں سے نجات نہیں دلائی بلکہ اس نے الٹا ہمیں تسکین بخش واہموں اور محفوظ قید سے نکال باہر کیا، سچ نے ہم سے زندہ رہنے کی ہر وجہ، ہر جواز چھین لیا اور اب ہمارے پاس کل کی بیکار امید کے سوا کچھ نہیں۔ ڈیورانٹ کو جس سچ نے اس قدر مایوس کیا اگرچہ  وہ سچ ایک زندہ حقیقت ہے لیکن یہ سچ اس قدر مایوس کن ہے کہ یہ زندہ رہنے کے ہر جواز کو چھین کر انسان کو مایوسی کے صحرا میں کھڑا کر دیتا ہے۔

اصل میں آج میرے ذہن میں اچانک یہ خیال آیا کہ اگرچہ دنیا کے 7 ارب انسان زندہ تو ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ کیوں زندہ ہیں؟ کیوں مر جاتے ہیں؟ تو مر کر کہاں جاتے ہیں؟ ان مایوس کن سوالات کو چھوڑ کر میں نے ایک با مقصد سوال اٹھایا ہے کہ ’’زندگی کا مقصد کیا ہے؟‘‘ اس حوالے سے میں نے اس حقیقت کی نشان دہی بھی کر دی ہے کہ جس اقتصادی نظام میں انسان کو روٹی اور پیٹ کے علاوہ سوچنے کے لیے کوئی موضوع ہی نہیں ملتا تو کیا اس نظام کا خاتمہ  کر کے کوئی ایسا نظام لانے کی ضرورت نہیں جو 90 فی صد آبادی کو بھی سوچنے سمجھنے کا موقع دے؟ ہو سکتا ہے میرا سوال ڈیورانٹ کے سوال سے مطابقت نہ رکھتا ہو لیکن اس سوال میں مایوسی نہیں بلکہ زندگی کو بامقصد بنانے کی ترغیب ضرور ہے۔

ہم اپنی مختلف تحریروں کے درمیان ….. لگا دیتے ہیں جس کا مطلب لا علمی نہیں بلکہ احتیاط اور خوف ہوتا ہے ویل ڈیورانٹ نے جو سچ دریافت کیا ہے وہ کوئی نیا سچ نہیں بلکہ ہزاروں سال پرانا سچ ہے۔ منصور، سقراط اور گلیلیو سے لے کر غالبؔ تک اس قسم کے سچ تلاش کیے جاتے رہے ہیں لیکن جو سچ انسان کو مایوسی کے علاوہ کچھ نہ دے اس سے جھوٹ بہر حال بہتر ہوتا ہے۔

ڈیورانٹ کہتا ہے ’’مکمل فلسفیانہ تناظر میں دیکھا جائے تو اس زمین پر انسانی زندگی کیڑے مکوڑوں کی بے قاعدہ افزائش کا نام بن کر رہ گئی ہے اس میں شکست اور موت کے علاوہ کچھ نہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ہماری زندگی ایک ایسی نیند ہے جس سے بیداری کی کوئی صورت ممکن نہیں‘‘ اسی قسم کی مایوسی کا اظہار دنیا کے معروف ادیب چیخوف نے کیا ہے۔

وہ اپنے ایک افسانے ’’وارڈ نمبر 6‘‘ میں کہتا ہے ’’زندگی ایک مصیبت انگیز، کھٹکے دار پنجرے کے علاوہ کچھ نہیں۔ جیسے ہی کوئی شخص دانش اور بلوغ کی منزل پر پہنچ جاتا ہے ویسے ہی وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہتا کہ وہ ایک کھٹکے دار پنجرے کے اندر بند ہو کر رہ گیا ہے۔

جس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں، اگر ہر انسان کو ایک نہ ایک دن خاک میں مل جانا ہی ہے اور قشر ارض کے ساتھ سرد ہو کر کسی مقصد اور سبب کے بغیر ہی اربوں سال تک آفتاب کے گرد گردش کرتے رہنا ہے۔ اگر یہی سب ہونا ہے تو انسان کو اس کے شاندار ملکوتی ذہن کے ساتھ وجود میں لانا پھر اسے کسی مسخرے پن کے ساتھ خاک میں تبدیل کرنا کیا ضروری تھا؟

دنیا کے دو بڑوں کی یاسیت زدہ فکر میں نے آپ کے سامنے پیش کر دی ہے اس نا امیدی کو امید میں بدلنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ انسان اس بات پر غور کرے کہ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اس فلسفے کے لیے کتابیں درکار ہیں جب کہ ہمارے پاس ایک مختصر کالم موجود ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔