دینی وسیاسی جماعتیں،عوامی حمایت سے محروم

جبار قریشی  جمعـء 3 اپريل 2015
 jabbar01@gmail.com

[email protected]

میں اپنے متعدد کالموں میں اس بات کا اظہارکرچکا ہوں کہ میرا کسی سیاسی، مذہبی یا سیاسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے، البتہ گزشتہ چند سال سے ایک دینی جماعت جو دین کا ایک سیاسی تصور بھی رکھتی ہے اﷲ کی رضا اور اپنے نفس کی اصلاح کی خواہش کے جذبے کے تحت ان کی جانب سے منعقد ہونے والے ماہانہ پروگراموں میں باقاعدگی سے شرکت کرتا رہا ہوں۔

یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ لبرل اور سیکولر جماعتوں سے وابستہ تنظیموں کے کارکنان کے مقابلے میں دینی سیاسی جماعتوں بالخصوص دینی جماعتوں کے کارکنان میں اپنے کاز کی تکمیل کے لیے تڑپ، جذبہ اور اخلاص زیادہ پایا جاتا ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے سامنے اپنے نصب العین کے حوالے سے واضح مقصد حیات ہوتا ہے۔

ان پروگراموں میں شرکت کے دوران میرے ذہن میں یہ سوال متعدد بار آیا ہے کہ دینی سیاسی جماعتیں ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ منظم اور متحرک ہیں ان کا وسیع نیٹ ورک موجود ہے، پاکستان کے عوام الناس بھی ان دینی اور مذہبی جماعتوں سے نظریاتی اور دلی جذباتی وابستگی بھی رکھتے ہیں۔

ان کے پاس مخلص کارکنان ایک اثاثے کی صورت میں موجود ہیں جو کسی بھی تحریک کی کامیابی کے ضامن ہوتے ہیں اس کے باوجود دینی جماعتیں پاکستان کے عوام کی اکثریتی حمایت کے حصول میں کیوں ناکام ہیں۔پاکستان میں زیادہ پذیرائی ان ہی جماعتوں کو حاصل ہے جو اپنے منشور، نظریے اور مزاج کے حوالے سے سیکولر اور لبرل سمجھی جاتی ہیں۔

عوام کی اکثریت نے اپنے قومی معاملات کو کبھی دینی مذہبی جماعتوں کے حوالے نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست میں ان کی حیثیت ایک پریشر گروپ کی ہے جن کی موجودگی کے باعث سیکولر قوتوں کو آزادانہ کام کرنے کا موقع کبھی بھی میسر نہیں آیا۔ اس لیے مذہبی جماعتوں کو سیاسی میدان میں سیاسی قوت کے بجائے مزاحمتی قوت ہی سمجھا گیا۔ الیکشن میں دینی جماعتوں کو جو ووٹ پڑتا ہے وہ ان کی مقبولیت کا نہیں بلکہ یہ ایک احتجاجی ووٹ ہوتا ہے جو لبرل اور سیکولر جماعتوں کی بد عنوانی اور نا اہلی کے باعث لبرل اور سیکولر قوتوں کو نہیں دیا جاتا، وہ دینی سیاسی جماعتوں کے حصے میں آجاتا ہے۔

یہ وہ خیالات اور تصورات تھے جنھیں میں نے متعدد بار مختلف موقعوں پر اٹھایا۔ مجھے اس کا تسلی بخش جواب نہ مل سکا اسے محض انتخابی نظام میں خرابی کی وجہ قرار دے کر بات کو ختم کردیاگیا، میری ذاتی رائے میں نظام انتخابات میں خرابی کی وجہ جزوی طور پر درست ہوسکتی ہے کلی طور پر نہیں، میرے نزدیک دینی سیاسی جماعتوں کی سیاسی نظام میں ناکامی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ جماعتیں عوام کے اصل دکھ، درد اور مسائل کو سمجھنے اور محسوس کرنے میں قطعی ناکام رہی ہیں۔

ان کا زیادہ زور معاملات کی درستگی کے بجائے عقائد کی درستگی رہا ہے اور ایسے مسائل کو عوامی مسائل بناکر پیش کیا جاتا ہے جس کا عوام الناس کے حقیقی مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مثلاً ان دینی سیاسی جماعتوں کی جانب سے عائلی قوانین کے خاتمے کی بات کی جاتی ہے جس میں مرد کے لیے دوسری شادی کی صورت میں پہلی بیوی کی اجازت ضروری ہے۔

یہ عوامی مسئلہ نہیں ہے بلکہ خواص کا مسئلہ ہے خواص میں بھی ایک مخصوص طبقے کا مسئلہ لیکن دینی سیاسی جماعتیں اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہی ہیں۔ عوام الناس کا اصل مسئلہ اقتصادی ہے، اقتصادی مسئلہ اولین اہمیت کا حامل ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رب تعالیٰ نے اپنے آپ کو رب العالمین یعنی پالنے والا کہہ کر مخاطب کیا ہے، بچے کی دنیا میں آمد کے ساتھ ہی اس کی ماں کی چھاتی میں اس کی خوراک کا بندوبست کردینا اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ رب العالمین ہے۔

یہ انسان ہے جس نے دوسرے انسان کے لیے اس کی خوراک کے حصول کو ناممکن بنادیا ہے اس لیے اس کے تدارک کے لیے عوام الناس کے سامنے واضح نظام معیشت پیش کرنا ہوگا جو ان کے اقتصادی مسائل بالخصوص بھوک افلاس اور غربت کا خاتمہ کرکے ان کے معیار زندگی کو بہتر بناسکے۔

میں نے اپنے ایک کالم میں اقتصادی مسائل میں اضافے کی وجہ آبادی کا بڑھتا دباؤ کو قرار دیا تھا۔ ہمارے ایک دوست جو دینی مزاج رکھتے ہیں انھوں نے اس پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ان کا کہنا تھا کہ آبادی کی منصوبہ بندی کے نتیجے میں بچوں کی پیدائش کا عمل ختم ہوجائے گا جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ دنیا میں معصوم بچوں کی مسکراہٹوں اور مسرور کن حرکتوں سے محروم ہوجائے گی۔

اس طرح وہ سارا تعمیری عمل جو بچوں کی پیدائش سے لے کر ان کی تربیت اور ان کے جوان ہونے اور ان کی شادی بیاہ پر ختم ہوجاتا ہے والدین کی زندگی سے نکل جائے گا۔ نہ محبت کے وہ انداز نہ وہ بچوں کے کاموں میں شرکت و مسرت کا احساس انسان کی زندگی سے سب کچھ ختم ہوجائے گا اور اس طرح انسانیت زندگی بے رنگ اور غم زدہ بن کر رہ جائے گی۔میرا جواب یہ تھا کہ خاندانی منصوبہ بندی کا مقصد نئے بچوں کی آمد روکنا نہیں بلکہ بچوں کی تعداد کو محدود رکھنا ہے تاکہ افراد کا معیار زندگی بلند ہوسکے اور ہر بچہ اپنے حصے  کی خوشیوں کو سمیٹ سکے۔

ہمارے دوست نے میری اس بات سے اتفاق نہیں کیا بلکہ میری سوچ کو مادیت پرستانہ قرار دے کر مجھے خاموش کردیا۔ موضوع کے حوالے سے میں یہاں ملک کی ایک بڑی دینی جماعت جو فرقہ واریت سے پاک ہے اور ملک کی سیاست میں عرصہ دراز سے نمایاں ہے اس کا ذکر ضرور کرنا چاہوںگا۔اس جماعت کی سیاست میں احتجاجی سیاست کا عنصر بہت زیادہ نمایاں ہے، احتجاجی سیاست کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ احتجاجی سیاست ایسے راستوں کی طرف لے جاتی ہے جہاں تحریکیں اپنی جمع کی ہوئی یا بچی ہوئی قوت کو بھی بے مقصد اور بے فائدہ ہنگاموں میں ضایع کردیتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اس جماعت میں احتجاجی سیاست کا عنصر کیوں غالب ہے اس کا بہتر جواب تو سماجی علوم کے ماہر یا ماہر نفسیات ہی دے سکتے ہیں، میری ذاتی رائے میں اس جماعت سے وابستہ قائدین اک تعلق ماضی میں طلبا سیاست سے رہا ہے۔

طلبا زمانہ طالب علمی میں جب سیاست میں داخل ہوتے ہیں تو ان کا ذہن تجزیہ کرکے مسائل کی اصل وجوہات کی تہہ میں پہنچنے اور ان کا حل نکالنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ ان کی سیاست اس وجہ سے احتجاجی سیاست کے گرد گھومتی ہے جب یہ طلبا اپنی عملی زندگی میں سیاست میں داخل ہوتے ہیں تو ان میں احتجاجی سیاست کا عنصر غالب رہتا ہے اور زندگی بھر ان کے ساتھ رہتا ہے۔ راقم التحریر اسی بنیاد کے باعث زمانہ طالب علمی سے ہی طلبا کی سیاست میں شمولیت کا مخالف رہا ہے۔

اس احتجاجی سیاست کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ ظلم کر رہا ہے اپنوں کا ظلم غیروں کے ظلم سے زیادہ ہے مگر ان کی زیادتیوں کے خلاف آج تک کوئی باقاعدہ تحریک نہیں اٹھی، اس کے برعکس مغرب بالخصوص امریکا کو ولن بناکر پیش کیا جاتا ہے لیکن آستین کے سانپوں کو کچلنے کی کبھی کوشش نہیں کی جاتی یہی وہ طرز عمل ہے جس کی وجہ سے یہ عوامی حمایت سے محروم ہیں۔

یاد رکھیے جیومیٹری کا ایک اصول یہ ہے کہ دو نقطوں کے درمیان قریب ترین فاصلہ سیدھی لائن کا ہوتا ہے یہ بات روشنی کے سفر کے لیے درست ہے لیکن سیاست کا سفر جیومیٹری کے اصولوں پر طے نہیں ہوتا بلکہ حالات کے تناظر کو دیکھ کر طے کیا جاتا ہے۔ دینی سیاسی جماعتوں کو حالات کے تناظر میں اپنی حکمت عملی واضح کرنی ہوگی، ایسی صورت میں بھی وہ کامیابی سے ہم کنار ہوسکتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔