حلقہ این اے246 کا ضمنی انتخاب انتہائی اہمیت اختیار کر گیا

عمیر علی انجم  جمعـء 3 اپريل 2015
این اے 246 پرمتحدہ اور پی ٹی آئی کے درمیان کراچی میں اپنی اکثریت کوثابت کرنے کی سیاسی جنگ ہے،سیاسی حلقوں کی رائے    فوٹو: فائل

این اے 246 پرمتحدہ اور پی ٹی آئی کے درمیان کراچی میں اپنی اکثریت کوثابت کرنے کی سیاسی جنگ ہے،سیاسی حلقوں کی رائے فوٹو: فائل

 کراچی: کراچی میںقومی اسمبلی کے حلقے این اے 246 میں 23اپریل کوہونے والا ضمنی انتخاب ملک کی موجودہ سیاسی تاریخ میں اہمیت اختیار کرگیا ہے،ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی نظریں مذکورہ نشست پرہیں، یہ نشست1988سے اب تک متحدہ کی مضبوط نشست تصورکی جاتی ہے۔

اس نشست پرایم کیوایم ،پی ٹی آئی اورجماعت اسلامی کے امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا،اگراس حلقے کاجائزہ لیاجائے تویہ حلقہ فیڈرل بی ایریا،لیاقت آباد اوراطراف کے علاقوں پرمشتمل ہے اس حلقے میں اکثریت اردوبولنے والوں کی ہے جبکہ میمن اور دیگر برادریوں کے لوگ بھی آباد ہیں، حلقے میں رہائشی آبادیوں کے علاوہ ایک بڑاحصہ تجارتی علاقے پرمشتمل ہے،اس حلقے میں ایم کیوایم کامرکز نائن زیرو اور الطاف حسین کی رہائش گاہ بھی واقع ہے،1988سے 2013تک ہونے والے انتخابات کاجائزہ لیاجائے تو1993کے انتخاب کے سوا مذکورہ نشست پرہونے والے تمام انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوارکامیاب رہے ہیں ۔

سیاسی حلقے اس نشست کوایم کیوایم کی آبائی نشست تصورکرتے ہیں، این اے 246 کے بیشترعلاقے 1970کے عام انتخابات میں این اے 131کاحصہ تھے، جو1977میںاین اے 187میں شامل ہوئے 1985سے1997تک حلقہ این اے 188کاحصہ رہا،1985کے غیرجماعتی عام انتخابات میںآفاق خان کامیاب ہوئے،1988کے عام انتخابات میں پہلی مرتبہ ایم کیوایم کے امیدوار سید محمد اسلم 131012 ووٹ سے کامیاب ہوئے، جبکہ دوسرے نمبر پر اسلامی جمہوری اتحادکے امیدوارمحمدعثمان رہے۔

1990کے عام انتخابات میںایم کیوایم کے امیدوارسیدمحمداسلم 142591 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ دوسرے نمبرپر آزاد امیدوار محمدعثمان رہے،1993کے انتخابات میں اس نشست پرایم کیوایم نے بائیکاٹ کیا،اورپاکستان اسلامک فرنٹ کے امیدوارمظفراحمدہاشمی 12235ووٹ لیکرکامیاب ہوئے،اوردوسرے نمبرپرمسلم لیگ( ن) کے امیدوارحمزہ علی قادری رہے،1997کے عام انتخابات میںایم کیوایم کے حسن مثنیٰ علوی105323ووٹ لیکرکامیاب قرارپائے اوردوسرے نمبرپرمسلم لیگ (ن )کے امیدوارمحمدانورعظیم خان رہے۔

2002کے انتخابات کے لیے نئی حلقہ بندیاں کی گئیں اورمذکورہ حلقہ این اے 246میںتبدیل ہوگیا،اس حلقے سے ایم کیوایم کے حاجی عزیزاللہ بروہی 53134ووٹ لیکرکامیاب ہوئے اوردوسرے نمبرپرمتحدہ مجلس عمل کے راشدنسیم رہے، جن کو32879ووٹ ملے،حاجی عزیزاللہ بروہی نے 2004میں اس نشست سے استعفیٰ دے دیااورمئی 2004میں ہونے والے ضمنی انتخاب میںمتحدہ کے امیدوارنثاراحمدپہنورکامیاب ہوئے،2008کے انتخابات میں اس حلقے سے ایم کیوایم کے امیدوارسفیان یوسف 186933ووٹ لیکرکامیاب ہوئے جبکہ دوسرے نمبرپرپیپلزپارٹی کے سہیل انصاری 6741ووٹ رہے۔

2013کے انتخابات کاجائزہ لیاجائے تواس حلقے میںپہلی بار ایم کیو ایم کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف کی اکثریت دیکھنے میں آئی، انتخابی نتائج کے مطابق اس نشست پرپیپلزپارٹی چھوڑکرایم کیوایم میں آنے والے رہنماسردارنبیل احمدگبول 137874 ووٹ لیکرکامیاب ہوئے،دوسرے نمبرپرتحریک انصاف کے امیدوار عامر شرجیل رہے ،جن کو31875ووٹ ملے،جماعت اسلامی میں کراچی میں انتخابات کابائیکاٹ کردیاتھا،تاہم ان کے امیدواراشدنسیم کو10321ووٹ ملے،نبیل احمدگبول کے ایم کیوایم کی قیادت سے اختلافات کے باعث انھوںنے اس نشست سے استعفیٰ دے دیا،اس وقت کراچی کی مجموعی صورتحال کاجائزہ لیاجائے توایم کیوایم جوکراچی میں عوامی مینڈیٹ رکھنے والی جماعت کہلاتی ہے۔

وہ 11 مارچ 2015 سے مسائل کاشکارہے کیونکہ نائن زیروپرچھاپے اور کارکنان کی گرفتاریوں نے پارٹی کو مشکلات میں ڈال دیا ہے ،کراچی میں اس وقت ایم کیو ایم کے تنظیمی دفاتر بند ہیں ،ایم کیو ایم کی قیادت کو منی لانڈرنگ کے الزامات کا بھی سامنا ہے ،23اپریل کو این اے 246 میں ضمنی انتخاب ہونے جارہے ہیں ،اس وقت ایم کیو ایم کی اس حلقے میں سیاسی حریف تحریک انصاف ہے کیونکہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی قیادت ایم کیو ایم پر مسلسل تنقید کررہی ہے ۔

انتخابی مہم کے سلسلے میں پی ٹی آئی نے 19اپریل کوجناح گراونڈمیں جلسے کااعلان کیاہے،اس حلقے سے ایم کیوایم کے امیدوارکنورنویدجمیل،پی ٹی آئی کے عمران اسمائیل اورجماعت اسلامی کے راشدنسیم سمیت 15 امیدوارحصہ لے رہے ہیں،پی ٹی آئی کامجلس وحدت المسلمین سے اتحادہوگیاہے جبکہ ان کے جماعت اسلامی سے بھی رابطے جاری ہیں، آئندہ آنے والے دنوں میںطے ہوگاکہ جماعت اسلامی پی ٹی آئی کی حمایت کرتی ہے کہ یانہیں ؟،ایم کیوایم کے حلقے کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی اس نشست کوجیتنے کرنے کے لیے غیر جمہوری کاندھوں کواستعمال کررہی ہے۔

اس حلقے میں پی ٹی آئی کی اکثریت نہیں ہے،2013کے انتخابات میں انھیں جوووٹ ملے تھے، وہ جماعت اسلامی کے بائیکاٹ اورمختلف وجوہات کی بناپرملے،اس حلقے کا نہ توکبھی پی ٹی آئی کے رہنماوں نے دورہ کیاہے اور نہ ہی ان کے دفاتر ہیں،ایم کیوایم کے حلقوں کاکہناہے کہ چھاپے اورگرفتاریوں کے باجودایم کیوایم بھرپوراندازمیں انتخابی مہم چلارہی ہے،جبکہ پی ٹی آئی کے ساتھ جماعت اسلامی نے بھی اس حلقے میں انتخابی مہم کاآغازکردیاہے ،سیاسی حلقے سمجھتے ہیں یہ نشست کراچی کے آئندہ کے سیاسی حالات کاتعین کرے گی۔

اگراس نشست پرایم کیوایم کامیاب ہوجاتی ہے توپی ٹی آئی کو کراچی میں آئندہ اپنے سیاسی مستقبل کیلیے نئی حکمت عملی بنانے پڑے گی ،اگر ایم کیو ایم اس نشست پر بائیکاٹ کرتی ہے یا شکست کھاجاتی ہے تو یہ ایم کیو ایم کے آئندہ کے سیاسی مستقبل کیلیے خطرناک ہوگا اور پی ٹی آئی یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ اب کراچی شہر ہمارا ہے ،سیاسی حلقے سمجھتے ہیں کہ این اے 246 پر پرامن اور شفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے ۔

تاکہ پولنگ کے روز ووٹرز بغیر کسی دبائو اور مسائل کے اپناووٹ کاسٹ کرسکیں ،اگر ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی میں انتخابی مہم کے دوران کشیدگی رہی تو پھر اس حلقے میں نقص امن کا خطرہ ہے ،سیاسی حلقے مذکورہ نشت کے نتائج کا انتظار کررہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیںاین اے 246 پر پر امیدواروں کے درمیان انتخابی مقابلہ نہیں بلکہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان کراچی میں اپنی اکثریت کو ثابت کرنے کی سیاسی جنگ ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔