آمدنی کی تقسیم

ایم آئی خلیل  ہفتہ 4 اپريل 2015

کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کے لیے حکومت آمدنی کی تقسیم پر خصوصی توجہ دیتی ہے، سرمایہ دارانہ نظام میں آمدنی کا رخ غریب طبقے کی جانب موڑنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ حکومت بہت سے فلاحی اقدامات کرتی ہے۔ امیروں پر ٹیکس عائد کرکے غریبوں کے لیے فلاح و بہبود کے کام کیے جاتے ہیں۔

اگر صرف ایک ہی طبقے کے لیے ملکی آمدن کے ذرایع مخصوص ہوتے جا رہے ہوں تو حکومت ایسی پالیسی اپناتی ہے تاکہ محروم طبقے کے لیے ذرایع سے استفادہ کرنا آسان ہو۔ حکومت مالیاتی پالیسیاں بناتی ہے، زرعی پالیسی نافذ کرتی ہے، تجارتی پالیسی کا اعلان کیا جاتا ہے۔ ٹیکسوں کی صورت میں دولت مند طبقے سے آمدن کا بڑا حصہ حاصل کیا جاتا ہے۔ ان محصولات سے حکومت اپنے اخراجات پورا کرنے کے ساتھ معاشرتی خدمات پر رقوم صرف کرتی ہے۔

ان معاشرتی خدمات کا مقصد عوام کو مفت تعلیم فراہم کرنا یا سستی تعلیم فراہم کرنا، طبی سہولیات کی فراہمی، بہت سے ممالک اپنے بے روزگار شہریوں کو گزارا الاؤنس دیتے ہیں۔ حکومت سستا ٹرانسپورٹ مہیا کرنے کے لیے مختلف شہروں میں ٹرانسپورٹ سسٹم قائم کرتی ہے، اس کے علاوہ عوام کو روزگار کی فراہمی کے لیے ایسی صنعتی پالیسی کا اعلان کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ صنعتیں قائم کی جائیں۔ صنعتکاروں کے لیے مختلف اقسام کی چھوٹ اور مراعات کا اعلان کیا جاتا ہے۔

اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ کارخانے اور ملیں قائم ہوں تاکہ لوگوں کو روزگار میسر آئے۔ مختلف علاقوں میں صنعتی زون قائم کیے جاتے ہیں۔ مختلف علاقوں کی ترقی کے لیے ان کو تحصیل سے ضلع کا درجہ دے دیا جاتا ہے تاکہ معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو، لوگوں کو اپنے ضلعی دفاتر جانے کے لیے پہلے جس طرح دور کا سفر کرنا پڑتا تھا اب وہ بالکل قریب ہوجائے، اس طرح اگر کوئی تحصیل ضلع بننے کے تمام تر شرائط پوری کر رہی ہو اور آبادی بھی اتنی بڑھ چکی ہو تو ایسی صورت میں حکومت تمام تر انتظامی امور کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب سمجھتی ہے تو اس شہر یا تحصیل کو ضلع کادرجہ بھی دے دیتی ہے۔

قیام پاکستان کے بعد کئی درجن تحصیل کو جب مناسب سمجھا گیا اسے ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔ جس کے معاشی اثرات مثبت مرتب ہوتے ہیں۔ لوگوں کے لیے روزگار کے مواقعے بڑھتے ہیں۔ ضلعی صدر مقام قرار دینے کے باعث تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔ ضلعی ہیڈ کوارٹر کے لیے نئے دفاتر کی تعمیر مختلف محکموں کی جانب سے اپناکام شروع کرنے کے باعث معاشی سرگرمیوں میں تیزی آتی ہے۔ اس طرح لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہوتا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ 1985 سے قبل چکوال شہر کی آبادی 50 ہزار سے زائد تھی لیکن ضلع کے قیام کے ساتھ ہی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ روزگار کے مواقعے بڑھنے کے باعث دیگر علاقوں کے لوگ اس شہر میں قیام پذیر ہونے لگے۔ وہاں کے کئی شہریوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ضلع بننے کے بعد بڑے بڑے شاپنگ سینٹرز قائم ہوئے۔ مختلف مارکیٹیں بنائی گئیں۔ بیرون ملک سے واپس آنے والے پاکستانیوں نے یہاں پر مختلف منصوبے شروع کیے۔

جس سے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقعے بڑھے اور ان کی آمدن میں اضافہ ہوا۔ گزشتہ دنوں تلہ گنگ اور کوٹ ادو کے قارئین نے رابطہ کرکے اپنی اپنی تحصیلوں کو ضلعے کا درجہ دینے پر بات کی۔ ان دونوں شہروں کو ضلع بنانے کے بارے میں مختلف مواقع پر صوبائی حکومت کی جانب سے بھی کچھ نہ کچھ عزائم سامنے آئے ہیں۔

تلہ گنگ جس کی آبادی میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، چند لوگوں کا خیال ہے کہ دونوں شہروں کو اگر ضلع کا درجہ دے دیا جائے تو یہاں بڑی تیزی کے ساتھ تعمیراتی سرگرمیوں کا آغاز ہوگا۔ تجارتی مراکز قائم ہوں گے اور چھوٹی بڑی صنعتیں قائم ہوں گی جس سے روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقعے پیدا ہوں گے۔ صوبائی حکومت تو جلد ازجلد اپنے طور پر تمام تر امور کا جائزہ لینے کے بعد اگرچہ اس سے قبل بھی جیساکہ بتایا جاتا ہے کہ کئی مرتبہ سروے ہوچکا ہے بہرحال اپنے تئیں تسلی کرنے کے بعد ان اضلاع کے قیام کا جلد اعلان کیا جانا چاہیے۔

آمدنی کی تقسیم میں عدم مساوات دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام کے لیے آگے بڑھنے، معاشی سرگرمیوں میں اضافے، تجارتی سرگرمیوں کو بڑھانے، مختلف کارخانوں اور صنعتوں کے قیام کے مواقعے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کی آمدن میں اضافے کے لیے مختلف جہتوں سے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ان میں خصوصاً پسماندہ علاقوں کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں مذکورہ شہروں کے علاوہ دیگر علاقے اور شہر بھی ایسے ہیں جنھیں انتظامی طور پر ترقی دینے کی ضرورت ہے تاکہ ان علاقوں کی پسماندگی کو دور کیا جاسکے۔

عوام کے لیے معاشی مواقعوں میں اضافہ کیا جاسکے۔ اس طرح کے اقدامات دراصل کسی بھی پسماندہ علاقے کو ترقی دینے کے لیے حکومت کی طرف سے کوشش ہوتی ہے۔ کیونکہ کوئی بھی پسماندہ علاقہ جسے انتظامی طور پر جب ترقی دی جاتی ہے تو ایسی صورت میں حکومت کے اخراجات کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی علاقہ پسماندہ رہ جاتا ہے تو اس علاقے میں تقسیم دولت غیر مساوی ہوکر رہ جاتی ہے۔

موجودہ دور میں معاشی ترقی کے لیے علاقائی ترقی کو ضروری سمجھا جاتا ہے اور معاشی منصوبہ بندی کے ایسے نظام کو قابل ترجیح سمجھا جاتا ہے جس میں آمدن کی تقسیم میں عدم مساوات کو کم کرنے کے لیے تمام تر اقدامات کو بروئے کار لایا جائے تاکہ پسماندہ علاقے کے لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو اور لوگ حکومت کی طرف سے مختلف سہولیات کی فراہمی سے مستفید ہوں۔ ان کو تعلیم کے حصول اور بہتر طبی سہولیات کے حصول کے زیادہ مواقعے حاصل ہوں۔ ان کے علاقے اور شہر یا قصبے کی معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو تاکہ ان کے لیے بھی آمدن حاصل کرنے کی آسانیاں پیدا ہوں اسی طرح آمدن کی تقسیم میں بہتری عمل میں لائی جاسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔