اگر مجھے قتل کیا گیا…

شرجیل انعام میمن  ہفتہ 4 اپريل 2015
شرجیل انعام میمن

شرجیل انعام میمن

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین شہید ذوالفقار علی بھٹو کا 37 واں یوم شہادت آج ایسے حالات میں منایا جارہا ہے، جن کی نشاندہی انھوں نے بہت پہلے اپنی کتاب ’’اگر مجھے قتل کیا گیا…‘‘ میں کردی تھی۔ آج پاکستان سمیت پورے عالم اسلام میں بدامنی کی آگ لگی ہوئی ہے۔ صرف عالم اسلام ہی نہیں بلکہ افریقا، ایشیا اور لاطینی امریکا کے بیشتر ممالک داخلی انتشار اور زبردست معاشی بحرانوں سے دوچار ہیں۔ یہ حالات عالمی طاقتوں کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔

منصوبہ بندی کے تحت سب سے پہلے ان ترقی پذیر ملکوں میں عوامی امنگوں سے ہم آہنگ مقبول سیاسی قائدین کو ایک ایک کرکے نشانہ بنایا گیا، جو اپنے ملک اور اپنے خطے کے استحکام اور خود مختارانہ ترقی کی پالیسیوں کے خالق تھے۔

ان سیاسی رہنماؤں نے عوام کو متحرک کرکے اور علاقائی اتحاد تشکیل دے کر اپنے ملکوں اور اپنے خطوں کے خلاف ہونے والی سازشوں اور بیرونی قوتوں کے ہاتھوں اپنے وسائل کی لوٹ مار کے راستے محدود کردیے تھے اور امن، خوشحالی اور حقیقی قومی خودمختاری کی راہ متعین کردی تھی۔

ان رہنماؤں کو انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے نت نئے حربے استعمال کیے گئے۔ اب ہمیں اس آگ سے نکالنے والا کوئی نہیں ہے۔ عالم اسلام سمیت تیسری دنیا کے لوگ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں اور ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں اور ان کے وسائل پر غیروں کا قبضہ ہوگیا ہے۔ آج شہید ذوالفقار علی بھٹو جیسے عظیم سیاسی قائدین کی کمی شدت سے محسوس ہورہی ہے۔ وہ نہ صرف عالم اسلام کے عظیم رہنما تھے بلکہ افریشیائی ملکوں کی خودمختاری کے علم بردار اور ان ملکوں کے غریب عوام کی آواز تھے۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو بہت پہلے ہی یہ سمجھ گئے تھے کہ عالمی طاقتیں کیا منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ جب وہ ایوب خان کی کابینہ میں وزیر کی حیثیت سے شامل تھے تو انھوں نے ترک ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ اور سابق منتخب وزیراعظم عدنان میندریز (Adnan Menderes) کو ترکی کی فوجی حکومت کی طرف سے دی گئی، سزائے موت کے خلاف زبردست عالمی مہم چلائی۔

شہید بھٹو نے پورے عالم اسلام کو یہ باور کرایا کہ عدنان میندریز کو پھانسی دینے سے نہ صرف ترکی بلکہ پورے عالم اسلام پر خطرناک سیاسی اثرات مرتب ہوئے۔ انھوں نے پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ایوب خان کو بھی اس بات پر قائل کیا کہ پاکستان کی حکومت ترک حکومت سے اپیل کرے کہ عدنان میندریز کو پھانسی نہ دی جائے، ایوب خان نے انھیں ستمبر 1960 میں ترکی بھیجا تاکہ حکومت پاکستان کی طرف سے عدنان میندریز کو سزائے موت سے بچانے کی اپیل کی جاسکے۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو نے موت کی کال کوٹھڑی سے اپنی سب سے پیاری بیٹی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو جو خط لکھا، اس میں اس واقعے کا تفصیلی ذکر کیا۔ شہید لکھتے ہیں کہ ’’میں نے ترکی میں ترک فوجی حکمران جنرل گرسل سے طویل ملاقات کی تھی۔ ترکی کے وزیر خارجہ سلیم بھی موجود تھے۔

جنرل گرسل نے مجھ سے کہا کہ ترکی کے مسائل میندریز کی سزائے موت پر عمل سے حل ہوجائیں گے۔ عجیب بات یہ ہے کہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اناطولیہ کے کچھ حصوں میں موت کی سزا پر شدید اور پرتشدد ردعمل ہوگا لیکن پھر چند مہینوں میں ہر شخص میندریز کو بھول جائے گا۔ میں نے جنرل گرسل سے کہا کہ ترکی کے مسائل کی ابتدا ہی میندریز کی پھانسی سے ہوگی۔ میں نے ان سے کہا کہ ترکی کے عوام اس پھانسی کو چند مہینوں میں نہیں بھلادیں گے۔

اس کے برعکس ہر ترک کئی نسلوں تک پھانسی کے گناہ کا احساس اپنے ساتھ لیے پھرے گا۔ میں نے جنرل گرسل سے کہا کہ میندریز تو پھانسی پا کر لافانی ہوجائے گا اور اس سانحہ کا گہرا داغ ترکی کے چہرے پر نمودار ہوجائے گا اور اس کی سیاست میں ایک گہری تفریق پیدا ہوجائے گی۔‘‘ شہید بھٹو کی زبردست کوششوں کے باوجود بھی عدنان میندریز کو تختہ دار پر لٹکادیا گیا۔ اس کے بعد وہی ہوا، جس کی نشاندہی شہید ذوالفقار علی بھٹو نے کی تھی۔ میندریز کی پھانسی سے ہی ترکی کے مسائل کی ابتدا ہوئی۔ براعظم یورپ میں ہوتے ہوئے بھی وہاں جمہوریت اور سیاسی استحکام نہ آسکا۔

عدنان میندریز 10 سال (1950 سے 1960) تک ترکی کے وزیراعظم رہے۔ نوجوان ذوالفقار علی بھٹو نے 1955 میں سیاسی کردار ادا کرنے کے لیے اپنی کوششوں کا آغاز کیا اور صرف پانچ سال کے عرصے میں یعنی 1960 تک وہ عالمی برادری میں ایک مدبر اور عالمی سیاسی رہنما کے طور پر اپنے آپ کو منوا چکے تھے۔ انھوں نے دنیا کے دیگر سامراج مخالف رہنماؤں جمال عبدالناصر، سوئیکارنو، جنرل نیون، پنڈت جواہر لعل نہرو، نکروما، ٹیٹو، پیٹرس لوممبا، چی گویرا، ہوچی منہ اور ان جیسے دیگر قد آور سیاسی رہنماؤں کے ساتھ مل کر غیر وابستہ تحریک اور ترقی پذیر ممالک کی دیگر تحریکوں کو آگے بڑھانے میں موثر کردار ادا کیا اور عالمی سیاسی منظرنامے پر ان رہنماؤں میں سب سے زیادہ نمایاں نظر آنے لگے۔

عدنان میندریز کی پھانسی کے وقت ذوالفقار علی بھٹو کا سیاسی قد کاٹھ اتنا بڑا تھا کہ انھوں نے میندریز کی پھانسی رکوانے کے لیے ترکی کی فوجی جنتا کو بہت زیادہ عالمی دباؤ میں لے آئے کیونکہ بھٹو جانتے تھے کہ یہ ایک عالمی سازش ہے، جو تیسری دنیا کے قوم پرست، انقلابی، سامراج مخالف اور جمہوری طور پر مقبول سیاسی رہنماؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ آج وہی عالمی سازش نمایاں طور پر نظر آرہی ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے شہید بھٹو یا ان جیسا کوئی نہیں ہے۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے وزیر کی حیثیت سے پاکستان کی خارجہ اور معاشی پالیسیوں میں غیر محسوس طور پر تبدیلی کی۔ وہ پاکستان کی قومی خودمختاری پر مبنی خارجہ پالیسی کے معمار ہیں۔ انھوں نے پاکستان کو عالمی سامراجی کیمپ سے نکالنے اور اسے تیسری دنیا کی تحریکوں میں رہنمایانہ کردار سونپنے کے لیے بہت اہم اقدامات کیے۔ انھوں نے تھرڈ ورلڈ کے تصور کو اسلامک ورلڈ میں سمودیا۔ انھوں نے مختلف عالمی فورمز پر اسلامی ممالک کے لیے آواز اٹھائی اور انھیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔

مولانا کوثر نیازی لکھتے ہیں کہ ’’شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کرکے اسلامی اخوت اور بھائی چارے کے جذبات اور مسلم ممالک میں باہمی تعاون کی ضرورت کے احساس کو مزید فروغ دیا، ان کی خواہش تھی کہ تمام مسلمان ملک، جو ماضی میں سامراجی استحصال کا شکار رہے ہیں، اپنے اپنے جداگانہ طرز حکومت، سماجی و اقتصادی نظام اور جغرافیائی و تاریخی مجبوریوں کے باوجود وسیع بنیادوں پر اپنی عالمی اور باہمی پالیسیوں میں زیادہ سے زیادہ ممکن حد تک ہم آہنگی پیدا کریں۔ شہید بھٹو شعوری طور پر دانش مندی کے ساتھ انقلابی بنیادوں پر مسلم ممالک کے باہمی تعاون کے خدوخال ابھارنے میں قابل ذکر کردار ادا کرتے رہے۔

انھیں اس راہ کی دشواریوں اور مشکلات کا پورا احساس تھا اور ساتھ ہی یہ کامل یقین کے موجودہ صدی میں اسلام کا انقلابی کردار ایک بار پھر ابھر کر سامنے آئے گا اور اس دکھی دنیا کے لیے یہ دین کامل انصاف، مساوات اور بھائی چارے کا راحت افزا پیغام بن کر پھیلے گا‘‘۔ عالمی طاقتوں کو شاید بھٹو شہید کا یہ کردار پسند نہ آیا اور آج سے 36 سال قبل انھیں دنیا کے غریب عوام سے جسمانی طور پر جدا کردیا گیا۔

آج یوں محسوس ہوتا ہے کہ شہید بھٹو کے خلاف ہونے والی عالمی سازش کا پاکستان سمیت پورا عالم اسلام خمیازہ بھگت رہا ہے۔ یمن میں ہونے والی جنگ نے اسلامی ملکوں کے داخلی انتشار کی آگ پر فرقہ ورانہ کشیدگی کا تیل چھڑک دیا ہے۔ اب یہ بات زیادہ واضح ہوگئی ہے کہ شہید بھٹو کا عدالتی قتل کیوں کیا گیا۔ شہید بھٹو کی وہ باتیں بھی سچ ثابت ہوگئی ہیں جو انھوں نے ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ میں کی تھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔