سراب

جاوید قاضی  ہفتہ 4 اپريل 2015
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

صحراؤں میں سراب دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جس طرح یمن کے بحران میں ہمیں نظر آرہے ہیں۔ ہم ایک ایسے دلدل میں کھنچے چلے جا رہے ہیں جس نے اس ملک کو اب مذہبی فرقوں میں بٹوارا کردینا ہے۔

اور اس کا فائدہ یقیناً ہمارا دشمن اٹھائے گا۔ اوپر افغانستان ہے، ادھر ایران تو ادھر ہندوستان ہے ۔ آگے سمندر ہے اور اس بحیرہ عرب سے پار ہوکر ہم ایک عجیب جنگ میں اپنے آپ کو ڈالنے جا رہے ہیں؟ جس سے صرف سعودی عرب کی خوشنودی حاصل ہو۔ اس لیے کہ ہماری معیشت کو جب آئی ایم ایف بحران سے نہیں نکال سکتا تو سعودی عرب کبھی ادھار پر ایندھن وغیرہ دے کر ہمارے زرمبادلہ پر دباؤ کم کردیتا ہے۔ اور اس مرتبہ میاں صاحب کے زمانوں میں ان کی ایسی سخاوت کبھی پہلے دیکھی نہ گئی۔

پورے کے پورے ڈیڑھ ارب ڈالر دے دیے، وہ ڈالر جو ایک سو سات روپے کا ہوگیا تھا واپس گر کر سو سے نیچے آگیا۔ ایسا معجزہ کبھی اس سے پہلے نہ دیکھا نہ سنا۔ بے چارے شیخ رشید کی پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں۔ اس ڈیڑھ ارب ڈالر پر نہ کوئی شرط عائد تھی نہ سود لاگو تھا نہ واپس کرنے کی بات تھی۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے میاں صاحب یہ نوید ان کو دے کے آئے تھے کہ جب بھی سعودی عرب پر کوئی آنچ آئی تو پاکستان اس کو اپنے وجود پر آنچ سمجھے گا۔

حوثیوں نے ہادی کو بھاگنے پر مجبور تو کیا مگر انھوں نے حکومت اپنے ہاتھوں میں نہیں لی اور نہ ہی ان کے ایسے عزائم ہیں، وہ مسلح جدوجہد تو کر رہے ہیں لیکن 2004 میں انھوں نے شروعات مزاحمتی تحریک سے کی تھی۔ وہ القاعدہ کی طرح یا ISIS کی طرح عزائم نہیں رکھتے ، وہ ایران کا ماڈل یمن پر نہیں لانا چاہتے، وہ عورتوں کے بارے میں تنگ نظر خیالات نہیں رکھتے، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کو بھی حکومت میں اور دوسرے کاموں میں مردوں کے برابر کھڑا ہونا چاہیے۔ وہ ہیں تو شیعہ لیکن مسائل کے حل کے لیے فقہ حنفیہ کو رجوع کرتے ہیں۔

1990 تک جنوبی یمن، جمہوریہ یمن اور شمالی یمن ایک تھے۔ 1962 تک ایک ہزار سال زیدی امام خاندان کی یمن میں حکومت رہی۔ اور پھر اس کو انقلاب کے ذریعے ہٹایا گیا تو صالح صدر بنے اور وہ بھی زیدی تھے جس طرح حوثی باغی ہیں اور اس کو اقتدار سے ہٹانے والے بھی یہ حوثی تھے۔

ایک معاہدے کے تحت جس میں سعودی عرب کا بھی اثر تھا۔ ہادی کو حکومت حوالے کی گئی۔ لیکن یمن کی تقدیر نہ بدل سکی اور اس طرح جب عرب دنیا میں اسپرنگ انقلاب نے جڑ پکڑی تو یمن کیسے اس سے دور رہ سکتا تھا۔ بری حکمرانی، اقربا پروری، بے روزگاری اور پانی کی کمی نے سیاسی بحران کو جنم دیا۔ حوثی یمن کی ایک تہائی آبادی کے برابر تھے۔ شمالی یمن جس کی سرحدیں سعودی عرب کو لگتی ہیں، یہ لوگ رہنے والے ہیں۔

یمن کی اکثریتی آبادی 19 سال کی عمر کے نوجوانوں کی ہے۔ جب حوثیوں کی سیاسی مزاحمت کی تحریک کو کچلنے کی کوشش کی گئی تو پھر حوثیوں کے بہت سے سیاسی حصوں نے بندوق اٹھالی۔ ایک زمانہ یہ بھی تھا کہ جب اسلام پارٹی (جوکہ مسلم برادر ہوڈ) کی طرح بادشاہت کو نہیں مانتی تھی اور وہ اقتدار کے قریب آرہی تھی تو سعودیہ نے کوشش کی کہ اسے اقتدار نہ ملے، بھلے کیوں نہ وہ حوثیوں کو ملے۔

مگر جوں جوں دن گزرتے جا رہے ہیں، عرب بادشاہتوں کو خطرات لاحق ہوتے جا رہے ہیں، وہ اپنی بادشاہتوں کو مذہبی رنگ دے کر طول دیتے جا رہے ہیں اور ان کے خلاف اٹھ رہے ہیں۔ پسے ہوئے لوگ۔ لیکن اس میں ایران ملوث نہیں، وہ کیسے پہنچ سکتا ہے۔ حوثی باغیوں کے پاس دنیا کا انتہائی حساس عرب سمندر ہے ۔ ہاں لیکن وہ اس تضاد سے سیاسی طور مستفید ہو رہا ہے، عرب بادشاہتیں ناکام جا رہی ہیں، اسے اس بات سے خوشی ہے۔ ہاں عراق میں ایران کے حمایتی مسلح گروپ جوکہ عراق حکومت سے بھی بڑا حصہ اپنے کنٹرول میں عراق کا رکھتا ہے ان کی مدد ایران کررہا ہے تو اس کے ساتھ امریکا بھی ہے۔

لیکن امریکا شام میں ایران کے ساتھ بھی بلکہ مخالف ہے، وہاں پر بھی تو وہی ISIS ہے۔ حزب اللہ پر اسرائیل اور امریکا ایران کے مخالف ہیں۔ بات تو اب اتنی دور جا نکلی ہے کہ روس کے پیوتن بھی میدان میں کود پڑے ہیں اور انھوں نے کہا ہے کہ وہ حوثی باغیوں کی مدد کریں گے، اگر امریکا نے یوکرین میں روس کے اتحادی باغیوں کے خلاف یوکرین کی حکومت کی مدد کی۔

خلیج کا بحران تیسری عالمی جنگ کو دعوت دیتا نظر آرہا ہے۔ اور ہم اس سعودی عرب کے اثر میں اس شدید بحران میں ہیں۔ لیکن ہم پھر بھی اس بحران میں کیوں گھسنا چاہتے ہیں، اس لیے کہ میاں صاحب سعودی عرب کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں جب کہزرداری صاحب بھی سعودیہ کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔

زرداری صاحب تو Gone with the wind ناول کے کردار ولیم بٹلر کی طرح ہیں، جو دونوں طرف کھیلتے ہیں۔

کل کے طالبان کی وکالت کرنے والے عمران خان واحد ہیں جو اس مرتبہ پاکستان کی ترجمانی کرنے والا موقف یمن کے حوالے سے رکھتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہمیں اس یمن والے بحران سے دور رہنا چاہیے۔

معلوم نہیں ہمیں اگر صحیح حوالے سے اس ملک کے معاشی بحران میں اگر کوئی مدد دے سکتا ہے وہ ایران ہے، اور اگر امریکا و ایران کا ایٹمی پروگرام کے حوالے سے معاہدہ ہوجاتا ہے تو ہم پھر اپنے پیر پر کلہاڑی ماریں گے اگر ہم اپنی خارجہ پالیسی میں توازن برقرار نہ رکھ سکے۔

ہمارے دوست سعودی عرب تو ہمارے دوست ایسے ہی ایران بھی ہونا چاہیے۔ جتنا ISIS پر ایران موقف رکھتا ہے اور ان کو عراق میں کچلنے میں مصروف ہے اس سے ہم بھی ایک لحاظ سے فائدہ لے رہے ہیں۔ حیرانی ہے کہ جنوبی یمن میں تو کبھی بھی سعودی عرب نے القاعدہ کے بڑھتے ہوئے اثر پر اس طرح ردعمل نہیں دکھایا جس طرح اپنی سرحدوں کے قریب شمالی یمن میں حوثیوں کے خلاف دکھا رہا ہے۔

غور سے دیکھا جائے تو ہماری سعودی عرب کو اتنی ضرورت بھی نہیں۔ لگ بھگ دو سو عرب ڈالر وہ اپنے دفاع پر سالانہ خرچ کرتا ہے۔ جوکہ بہت بڑی رقم ہے۔ نو عرب ممالک اس کے ساتھ اتحاد میں ہیں۔ اور یہ بنیادی طور پر عرب تضاد ہے اس میں ہم نہ کودیں تو بہتر ہے۔

عرب بادشاہتیں ابھی اور پریشان ہوں گی۔ یہ القاعدہ یا ISISیہ سب بادشاہتوں کا یہ عالمی سامراج کے کیپٹلزم والی سوچ کا بھی ایک لحاظ سے نتیجہ ہے ۔ ان عرب بادشاہتوں نے پورے مسلمانوں کو بحران میں ڈالا ہوا ہے۔ آج کے دور میں بادشاہتوں کو اخلاقی یا عالمی آئینی سوچ کی نظر میں کوئی بھی Legtimacy  نہیں ہوتی۔

اب وقت آگیا ہے اس نازک موڑ پر ہم کسی بحران میں شریک ہونے سے معذرت کریں کہ جیسے آٹے میں سے بال نکالا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔