یمن میں مسلمان ہی مسلمان پر ٹوٹ پڑا، امریکا تماشائی

انوار فطرت  اتوار 5 اپريل 2015
ایران کے وزیر خارجہ محمد جاوید ظریف نےآپریشن کو امریکی جارحیت قرار دیتے ہوئے اسے فوراً بند کرنے کا مطالبہ کیا ہےفوٹو: فائل

ایران کے وزیر خارجہ محمد جاوید ظریف نےآپریشن کو امریکی جارحیت قرار دیتے ہوئے اسے فوراً بند کرنے کا مطالبہ کیا ہےفوٹو: فائل

25 مارچ کو سعودی عرب سمیت دس اتحادی ممالک نے یمن میں باغی حؤثیوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملہ کر دیا۔

امریکا میں تعینات سعودی عرب کے سفیر عادل الجَُیر کا دعویٰ ہے کہ یہ آپریشن یمن کی جائز حکومت کے دفاع اور امداد کے لیے کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ حؤثی باغیوں نے یمن کے امریکی ایما یافتہ صدر عبد ربہ ہادی کا تختہ الٹا تھا۔ بدھ کے روز کے آپریشن کے نتیجے میں یمن کے دارالحکومت صنعا میں 18 افراد جاں بحق اور 24 زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ یمن کے صوبے سعدہ کے شہر ملاحیض اور حضر سفیان پر بھی حملوں کی اطلاعات ہیں۔ واضح رہے کہ صوبہ سعدہ، سعودی عرب کی سرحد سے ملحق ہے۔ امریکا کے محکمۂ خارجہ نے اس آپریشن کی حمایت اور اس میں انٹیلی جنس، ہدف کاری میں معاونت، مشورہ اور لاجسٹک امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔

سعودی عرب کے اتحادی ممالک کے وزراء کا کہنا ہے کہ مسائل کو حل کرنے کے لیے بہترین ذریعہ تو مذاکرات کی میز ہے تاہم یہ حؤثی باغی ہی ہیں، جنہوں نے جنگ کا راستہ اختیار کیا۔ در ایں اثناء سعودی عرب کے عسکری ذرائع نے العربیہ ٹی وی چینل کی وساطت سے انکشاف کیا ہے کہ اس آپریشن میں ایک سو سعودی جنگی جہازوں نے حصہ لیا۔ اس آپریشن کانام دبے (Dubbe) ہے، جس کا مفہوم ہے ’’فیصلہ کن طوفان‘‘۔ ان ایک سو جہازوں میں متحدہ عرب امارات کے 30، بحرین کے 8، مراکش کے 6، اردن کے 6 جیٹ طیاروں نے حصہ لیا، سوڈان نے بھی 3 جنگی جہازوں کی پیش کش کی ہے، اردن نے حملوں میں براہ راست حصہ لینے کی تصدیق کی ہے جب کہ مصر نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالنے کا عندیہ دیا ہے۔

سعودی عرب نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان اور دیگر مسلم ملک بھی اتحاد میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ کویت نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے ایف 18 سپر ہارنٹ ائیر کرافٹس کے 3 سکواڈرن بھیج رہا ہے جب کہ پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب نے اس سلسلے میں اسلام آباد سے ساتھ دینے کی درخواست کی تھی، جس کا جائزہ لیا جا رہا ہے البتہ حکومت نے آپریشن میں شمولیت کے لیے مثبت اشارے دے دیے ہیں۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/04/Yemen.jpg

اس آپریشن میں حؤثی لیڈر علی الحؤثی کے زخمی ہونے کا بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے جب کہ حؤثی ترجمان محمد البخائطی نے اس کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ یہ عسکری کارروائی یمن کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ ادھر ایران کے وزیر خارجہ محمد جاوید ظریف آپریشن کو امریکی جارحیت قرار دیتے ہوئے اسے فوراً بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خطے کے ممالک اور مغرب کو خبردار کرتے آ رہے ہیں کہ وہ کوتاہ نگہی پر مبنی اس کھیل سے باز رہیں۔ بہ ہرحال یہ سب محض خبریں ہی خبریں ہیں۔ نوبت یہاں تک کیسے پہنچی؟ آیے ذرا اس صورت احوال کے پس منظر میں جاتے ہیں۔

سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ ایران نواز زیدی گروپ، جس کے رہ نما عبدالمالک الحؤثی کیسے طاقت میں آئے اورکیسے انہوں نے شمالی اور وسطی یمن پر تصرف حاصل کیا۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ جب خطے میں ’’بہارِ عرب‘‘ کا آغاز ہوا تو یمن پر اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیے سعودی عرب نے جو کوششیں کیں، وہ کسی بھی طرح کی بہتر منصوبہ بندی سے عاری تھیں، یمن کے آمر صدر صالح، عبد ربہ ہادی کے حق میں سبک دوش ہو گئے، جو ایک زمانے میں ان کے نائب صدر رہے تھے۔ ان واقعات کی وجہ سے یمن کے حالات بہتر تو کیا ہوتے البتہ حکومت کے اندر پہلے سے موجود قبیلائی، نظریاتی، سیاسی اور عسکری دراڑیں اور گہری ہو گئیں۔ ایسے میں سعودی عرب کا یمن کے مختلف گروہوں پر اثر ورسوخ کا پرانا طریقۂ کار کار گر ثابت نہیں ہوا اور اس کا فائدہ حؤثیوں کو پہنچا۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/04/Yemen1.jpg

انہوں نے مختلف قبائل کو متحد کیا اور آگے بڑھتے ہوئے صوبہ سعدہ پر عمل داری حاصل کرلی، جو سعودی عرب کی سرحدوں کو چھوتا ہے، اس کے علاوہ صنعا کے جنوب میں واقع علاقوں میں پیش قدمی کا موقع بھی حاصل کرلیا۔ اُدھر سعودی عرب کی توجہ القاعدہ پر مرکوز تھی، جو یہاں کی بادشاہتوں اور امارتوں کی جان کے درپے تھا لہٰذا آنکھ بچی اور مال یاروں کا؛ حؤثیوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ یہاں القاعدہ تو تھی ہی، داعش نے بھی سر اٹھا لیا۔ سعودیہ نواز بحرین کے حکمران خاندان کو ’’جمہوری انداز‘‘ راس نہیں آیا اور وہاں شیعہ مسلمانوں نے سیاسی سطح پر قوت پکڑنا شروع کر دی۔ سعودی عرب کے گمان و وہم میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ ایران یمن کے جنوب میں رسوخ حاصل کر پائے گا۔

جنوبی یمن کا علاقہ بلاشبہ شیعہ اور اسمٰعیلی اکثریت کا علاقہ ہے لیکن ان کا سنیوں سے کچھ زیادہ اختلاف نہیں ہے۔ سعودی عرب کو چاہیے تھا کہ وہ سبک دوش ہو جانے والے صدر صالح کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھتا لیکن یہ فرض کر لیا گیا کہ رات گئی بات گئی جب کہ صالح کی نیت صاف نہیں تھی۔ صالح واپس صنعا لوٹ آئے اور سیاسی طور پر محاذ بند ہو گئے۔ انہوں نے ان لوگوں کے خلاف منصوبہ بندی کرنا شروع کر دی جن کو وہ اپنی معزولی کا ذمہ دار سمجھتے تھے، اس طرح وہ دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے راہ داری ہم وار کرنا چاہتے تھے۔

ان کی ریشہ دوانیوں نے ان کے مخالفین کے کچھ زک پہنچائی یا نہیں مگر حکومت کو ضرور کم زور کیا اور اس کی وہ سکت ناتواں ہو گئی جس کے ذریعے وہ حؤثیوں کا زور توڑ پاتی۔ حؤثیوں نے یمن کے خاصے علاقے کو زیرنگیں کر لیا لیکن حواس قائم رکھے اور سعودی عرب سے کسی بھی طرح کا پھڈا ڈالنے سے گریز کیا۔ 2009 میں ان باغیوں نے سعودی بارڈر گارڈز کے ساتھ ایک جھڑپ کی غلطی سے سبق حاصل کر رکھا تھا۔ وہ اپنی طاقت کو سوچ سمجھ کر استعمال کرتے ہوئے ان گروہوں کو کم زور کرنے میں مصروف رہے، جن سے انہیں مزاحمت کا خدشہ رہا۔ یہ تو رہے وہ حقائق، جن کے نتیجے میں حؤثیوں نے طاقت پکڑی، اب آگے چلتے ہیں۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/04/Yemen2.jpg

موسم بہار گٹار بجانے میں گزار دیا جائے تو ساون کی سختیاں سہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سعودی عرب نے یمن کے بدلتے ہوئے حالات پر بروقت گرفت نہ کی اور اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہ چکا تھا اور اب چوں کہ دیر ہو چکی تھی لہٰذا اب ذرا انتظار۔ خود سعودی عرب کی عسکری صلاحیت ایسی نہیں کہ وہ خود سے یمن میں براہ راست مداخلت کر پائے اور اگر بالفرض ہو بھی، تو لگتا نہیں کہ وہ ایسا کرنا چاہے گا۔

حؤثیوں نے بھی بہ ظاہر سعودی عرب کے لیے خطرہ بننے کا کوئی اشارہ نہیں دیا تھا بل کہ ایک لحاظ سے وہ سعودی عرب کے لیے یوں مفید ہیں کہ شمالی اور وسطی یمن ان کی عمل داری میں ہے، جس کی وجہ سے وہ ملک کے دیگر حصوں میں سرگرم القاعدہ اور سعودی عرب کے درمیان ایک دیوار کی حیثیت اختیار کر گئے۔ القاعدہ یا داعش کو سعودی عرب تک پہنچنے کے لیے حؤثیوں سے گزر کر جانا پڑتا۔ اب سعودی عرب خاصی گو مہ گو کی کیفیت میں ہے، ادھر اسے القاعدہ سے خدشات ہیں اور دوسری طرف وہ یہ بھی پسند نہیں کر رہا کہ حؤثی زیدی اس کی سرحد کو چھو رہے ہوں، یعنی تلوار ہے اور دو دھاری ہے۔

2009 میں جب حؤثیوں کی سعودی بارڈر گارڈز سے جھڑپ ہوئی تھی اگر وہ چاہتے تو سعودی عرب میں داخل ہو سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ سعودی فضائیہ ان پر جھپٹ سکتی ہے۔ مشرق میں حضر الموت کی سمت سے دونوں ملکوں کے درمیان لق و دق صحرا ہے، اس طرف سے بھی سعودی عرب کو نقصان پہنچانا ممکن نہیں کیوں کہ اس کے نگران طیارے مصروف کار رہتے ہیں۔ ہاں ایک مغربی سمت ایسی ہے جو پہاڑوں، باقاعدہ سڑکوں اور آبادیوں پر مشتمل ہے۔ سعودی عرب کی یہ سمت یمنی صوبے سعدہ کے ساتھ سرحد بناتی ہے لیکن یہ راستہ بھی اتنا سہل نہیں کہ حلوہ خورد کسے۔ یہاں باغیوں کو سعودی افواج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حؤثی جانتے ہیں کہ یہاں بڑی شدت کی پٹائی ہو سکتی ہے۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/04/Yemen3.jpg

صرف یہ ہی نہیں سعودی عرب سے حؤثی باغیوں کے صرف نظر کرنے کے اور بھی اسباب ہیں۔ سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ حؤثی مالی طور پر خود کفیل نہیں ہیں، ہرگز نہیں ہیں۔ یمن تو یوں بھی دنیا کے غریب ممالک میں سے ہے۔ حؤثی ہی کیا، یمن پر کوئی بھی قابض ہو یا حاکم ہو، اسے ثروت مند ملکوں کا دست نگر ہونا ہی پڑتا ہے، کسی کی کفالت کے بغیر اس ملک کا نسق و نظم چل ہی نہیں سکتا۔ یمن پانی کی قلت کا شکار ہے اور ملک کسی بھی وقت قحط آب کی زد پر آ سکتا ہے۔

اس قحط کے اثرات سے سعودی عرب بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ یہ کم زوری ریاض اور صنعا کو ایک دوسرے سے تعاون کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ حؤثی اس کم زوری سے بہ خوبی آگاہ ہیں۔ ایران سے امداد تو پا رہے ہیں لیکن یہ بھی ان کے علم میں ہے کہ سعودی عرب اس معاملے میں کہیں زیادہ کشادہ دست ہو سکتا ہے۔ ایران یہ ہی کچھ کر سکتا ہے کہ انٹیلی جنس، افرادی قوت اورسیاسی کمک پہنچاتا رہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب ان کے ہم سائے میں ہے اور ایران 12 سو میل دور۔ عراق سے تریاق کے پہنچتے پہنچتے مریض چل نہیں بسے گا؟

اس کا یہ مطلب نہیں کہ الحؤثی بہت کامیاب ہیں۔ ان میں اگر لیاقت ہوتی اور وہ ریاض کو یمن میں اپنی موجودی کے فوائد کا قائل کر لیتے تو سعودی عرب انہیں یمن کے جائز حکم ران منوانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتا تھا۔

حزب اللہ کی مثال

یمن میں حؤثی باغیوں کو وہی فضا میسر ہے جو لبنان میں حزب اللہ کو تھی۔ دونوں تنظیمیں اپنے اپنے علاقوں میں سب سے بڑی قوتیں ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ حزب اللہ، لبنان کے سیاسی دھارے میں شامل ہے۔ تنظیم انصار اللہ دوسرے فریقوں کو ساتھ ملا کر حزب اللہ کی ہم سری کی دعوے دار ہے لیکن اس کا اصل مقام فی الحال وہ ہے، جہاں حزب اللہ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں کھڑی تھی، اسے سیاسی اثر و رسوخ حاصل کرنے میں ابھی وقت لگے گا اور سعودی عرب بھی اسے حزب اللہ کے راستے پر نہیں چلنے دے گا۔ پھر یہ ہے کہ یمن، تل ابیب کا باج گزار بھی نہیں اور اس کے ہم سائے میں شام جیسا کوئی ملک بھی موجود نہیں، جہاں ایران کی رسائی سہل ہو۔

ایک اور مشکل، جس کا اشارتاً ذکر کیا جا چکا ہے، یہ ہے کہ سابق صدر صالح اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے مختلف منصوبے بنا رہے ہیں، جن کا فائدہ جہادیوں کو پہنچ رہا ہے۔ سابق صدر صالح کی اسٹیبلشمنٹ کچھ قبائل اور سنی گروہ جہادیوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ سلفی اور جہادی بھی مل کر اپنا مقام مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ سعودی عرب، القاعدہ یا داعش وغیرہ جیسی تنظیموں کا انصار اللہ کے مقابلے میں قوی ہونا برداشت نہیں کر سکتا۔

امریکا پہلے تو یہ اشارہ دیتا رہا ہے کہ وہ یمن میں جہادیوں کی یلغار روکنے اور ان کی شورش دبانے کے معاملے پر حؤثیوں کا ساتھ دے گا۔ وہ اس سلسلے میں ایران اور حزب اللہ کی طرف بھی نگۂ مہرباں سے دیکھتا رہا ہے بل کہ اگر صدر بشارالاسد کو منہا کر دیا جائے تو وہ شام پر بھی للچاتا رہا ہے کہ ان سب کو ملا کر دولت اسلامیہ کا راستہ روکا جائے، جس سے سعودی عرب کو خدشات ہیں۔ امریکا اگر عملاً ایسا کرتا تو ایران بھی اس کا خیرمقدم کرتا لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ بدھ کو یمن میں حؤثی باغیوں کے ٹھکانوں پر حملہ کر دیا گیا۔ ان میں ایک بھی گورا نہیں، جتنے مارے گئے اور مارے جائیں گے، افسوس! سب مسلمان ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔