گوگل اب آئے گا کٹہرے میں

ثناء غوری  اتوار 5 اپريل 2015
 گوگل کمپنی اشتہار بازی کی معلومات سے اربوں کماتی ہے۔ڈین ٹینچ، فوٹو : فائل

گوگل کمپنی اشتہار بازی کی معلومات سے اربوں کماتی ہے۔ڈین ٹینچ، فوٹو : فائل

اس فیصلے سے برطانیہ کے کروڑوں شہریوں کے لیے مقدمہ کرنے کا دروازہ کھل گیا ہے، سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس سمیت انٹرنیٹ کی کمپنیوں سے ان کے صارفین کو مختلف نوعیت کی شکایات بھی ہوتی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے سرچ انجن اور سوشل ویب سائٹس جہاں معلومات سمیت دیگر سہولتیں فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں وہیں ان کی وجہ سے لوگوں کے نجی معاملات  جیسے تصاویر اور وڈیوز سامنے آکر ان لوگوں کے لیے مسائل کا سبب  بن جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر معاملات میں بھی جو صارفین کی کارکردگی اور زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں، انھیں شکایتیں ہوتی ہیں۔

چنانچہ صارفین کو ان کمپنیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہونا چاہیے، اسی وجہ سے برطانیہ کی ایک اپیل عدالت نے گوگل کی اس درخواست کے خلاف فیصلہ سنا دیا ہے جس میں گوگل کمپنی صارفین کو پرائیویسی سیٹنگز کے مبینہ غلط استعمال پر اپنے خلاف برطانیہ میں مقدمہ دائر کرنے سے روکنا چاہتی تھی۔

صارفین کے ایک گروپ نے دعویٰ کیا ہے کہ گوگل نے سفاری براؤزر پر سیٹنگز سے بچ کر نکلتے ہوئے ان کے کمپیوٹروں پر کوکیز کی فائلیں ڈال دی تھی تاکہ ان کو اشتہاروں کا ہدف بنایا جاسکے۔ گوگل نے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

واضح رہے کہ یہ مقدمہ سفاری براؤزر پر ایک ترکیب استعمال کرنے سے متعلق تھا جس میں گوگل مبینہ طور پر سفاری کی ڈیفالٹ پرائیویسی سیٹنگز سے بچ کر صارفین کے کمپیوٹروں پر کوکیز کی فائل رکھ دیتا تھا اور پھر صارفین کے علم میں لائے بغیر ان کی مختلف ویب سائٹس پر جانے کی عادت، سماجی حیثیت، نسل اور قومیت تک کا ڈیٹا اکٹھا کر سکتا تھا۔

سفاری ایپل کمپنی کا براؤز ہے جب کہ کوکیز وہ چھوٹی فائلیں ہوتی ہیں جو براؤز اپنے پاس سٹور کر لیتے ہیں۔

یہ فائلیں صارف کی آن لائن عادات کے بارے میں اطلاعات جمع کرتی ہیں اور آن لائن کی بعض خدمات میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

گوگل نے اس مقدمے کو روکنے کی بھرپور کوشش کی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ چوں کہ صارفین کو مالی نقصان نہیں پہنچا لہٰذا اسے کسی چیز کے لیے جواب دہ نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اپیل عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ’صارفین کے دعوے ایسے سنجیدہ معاملات کو اٹھا رہے ہیں جن پر مقدمہ چل سکتا ہے۔‘

گوگل کے خلاف مقدمہ کرنے والے تین افراد میں سے ایک جودتھ ویڈل ہال کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’اپیل عدالت نے یقینی بنایا ہے کہ گوگل اپنے بے پناہ وسائل کو بروئے کار لا کر برطانوی انصاف سے بچ نہ سکے۔ میرے جیسے عام کمپیوٹر صارف اب اس بڑے جن (گوگل) کو اس کے ناقابلِ قبول، غیراخلاقی اور ناانصافی پر مبنی اقدامات پر عدالتوں میں لے جا سکیں گے۔‘

گوگل کمپنی امریکا کی 38 ریاستوں میں اس معاملے پر چار کروڑ ڈالر کا جرمانہ ادا کر چکی ہے۔

اس عدالتی فیصلے سے برطانیہ کے کروڑوں شہریوں کے لیے مقدمہ کرنے کا دروازہ کھل گیا ہے جنھوں نے اس عرصے کے دوران ایپل کمپیوٹر، آئی فون، آئی پوڈ، آئی پیڈ وغیرہ استعمال کیا ہے۔

اپیل عدالت کے فیصلے کاخیرمقدم کرتے ہوئے ڈین ٹینچ نے جو لا فرم آلسوینگ کے شراکت دار ہیں اور مقدمہ دائر کرنے والوں کی طرف سے اقدامات کر رہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ گوگل کمپنی اشتہار بازی کی معلومات سے اربوں کماتی ہے۔

’اب اس کا کہنا ہے کہ اسے علم نہیں تھا کہ وہ نو ماہ تک ایپل صارفین کی انٹرنیٹ عادات کا خفیہ طور پر پتا چلاتی رہی۔ گوگل کمپنی یہ بھی کہتی ہے کہ بات بہت چھوٹی تھی اور صارفین کو کوئی مالی نقصان نہیں پہنچا۔‘

’لیکن اپیل عدالت نے ان دلائل کو صارفین کے حقوق کی خلاف ورزی سمجھا ہے اور کہا ہے کہ گوگل کے خلاف برطانوی عدالتوں میں مقدمہ چل سکتا ہے۔ ہم گوگل کو اس کے اقدامات پر عدالتوں میں لے جانے کے منتظر ہیں۔‘

گوگل کمپنی جو پہلے ہی امریکا کی 38 ریاستوں میں اس معاملے پر چار کروڑ ڈالر کا جرمانہ ادا کر چکی ہے، عدالت کے اس فیصلے سے پریشان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔