میڈیا کی یلغار اور ہماری سوچ

رئیس فاطمہ  اتوار 5 اپريل 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

’’آپ سوچیں ذرا۔ یہ ہندو ہماری تہذیب اور ثقافت کو کس طرح تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ پہلے تو یہ اپنے ڈراموں کے ذریعے حملہ آور ہوئے اور اب کارٹون فلمز کو بھی ہندی میں ڈبنگ کے ذریعے ہمارے بچوں کے ذہنوں کو آلودہ کر رہے ہیں۔‘‘

یہ آج کا منظر نامہ ہے۔ لیکن اس سے پہلے یہ جملے بھی آپ نے سنے ہوں گے ’’یہ عیسائی۔۔۔ ہمارے لوگوں کو بے دین بنا رہے ہیں۔ انگریزی تعلیم کے ذریعے جو زہر پھیلا رہے ہیں اس کا خمیازہ آئندہ نسلوں کو بھگتنا ہو گا۔ اسکولوں میں باقاعدہ صلیب کا نشان سینے پہ بنا کے دعا کروائی جاتی ہے۔ یہ کھلا حملہ ہے، ہمارے مذہب پر۔‘‘

یہ اور اسی قسم کی بہت سی باتیں ہم مسلسل سنتے رہتے ہیں۔ لیکن کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ اس میں ہمارا قصور کس حد تک ہے؟ کوہ نور ہیرا ہمارا تھا، وہ لے گئے۔ ہمارا سارا تاریخی ریکارڈ، نادر کتب اور مخطوطات برٹش میوزیم لائبریری میں موجود ہیں۔ وہ لے گئے ۔

سوال یہ ہے کہ جب وہ لے جا رہے تھے تو آپ کیا کر رہے تھے؟ سو رہے تھے؟ یا ان تاریخی نوادر کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں تھا؟ لیکن جو بچا کچھا ہے اس کی حفاظت کہاں تک ہو رہی ہے؟ پاکستان کے مختلف مقامات پر بڑی نادر تاریخی عمارات اور تہذیبی ورثہ موجود ہے لیکن ہم صرف ان کی حفاظت اور دیکھ بھال کے لیے کروڑوں روپے کے بجٹ منظور کروا کے انھیں اپنے اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں جمع کروا دیتے ہیں۔

اس کرپشن میں مدد دینے والوں کو بھی ’’حصہ بقدر جثہ‘‘ کی ہڈی ڈال دیتے ہیں۔ اور تاریخی نوادر کو مذہب اور اپنی پسند کی شریعت کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ ہم مجموعی طور پر ایک تخریب کار قوم ہیں، جو قبائلی کلچر کی گود میں پروان چڑھی ہے۔ سوائے کراچی اور لاہور کے، سول سوسائٹی کا وجود 1947ء سے پہلے بھی کہیں نہیں تھا۔ لاہور تو فلمی، ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز تھا ہی، لیکن کراچی میں آباد ہندو برادری بھی روشن خیال، تعلیم یافتہ اور متمول تاجر برادری پہ مشتمل تھی۔ کاروباری حضرات ویسے بھی پرامن ہوتے ہیں، کیونکہ بدامنی اور انتشار ان کے کاروبار کے لیے مہلک ہوتا ہے۔

ہندوؤں کے علاوہ انتہائی پرامن اور انسان دوست کمیونٹی پارسی تھے، جو جانوروں سے بھی پیار کرتے تھے، کہ انھیں بھی خدا نے ہی تخلیق کیا ہے۔ یہی انسانیت ہے اور ایسے ہی لوگ اشرف المخلوقات کہلائے جاتے ہیں۔ بات شروع ہوئی تھی تہذیبی اور ثقافتی ورثے کے زوال اور تباہی کی، کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہم ہر معاملے میں دوسروں کو قصوروار ٹھہرا کر خود کو بری الذمہ قرار دے لیتے ہیں کہ ہمارا تو کوئی قصور ہی نہیں۔

اب ذرا تہذیب و ثقافت کے حوالے سے بھارتی میڈیا کے کردار کا جو منفی ذکر ہو رہا ہے کہ پہلے تو وہ ’’ساس بہو‘‘ سیریل کے حوالے سے گھروں میں گھس آئے اور اب انگلش کارٹون کے ہندی ورژن سے کلچر اور مذہب کو خطرات لاحق نظر آتے ہیں۔ تو عرض یہ ہے کہ اگر آپ کو اتنی ہی زیادہ پریشانی ہے تو نہ دیکھیے ان چینلز کو، کوئی جبر تو نہیں ہے۔ لیکن دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اکثریت ان ہی بے سروپا ڈراموں کو اس لیے پسند کرتی ہے کہ ان کی پروڈکشن اور تفریحی عنصر بہت بہتر ہوتا ہے۔

لیکن اعتراض کرنے والوں نے کبھی یہ بھی سوچا کہ اگر پاکستانی چینلز معیاری اسکرپٹ اور پروڈکشن کی طرف توجہ دیتے تو بھارتی چینلز جگہ نہ بنا پاتے۔ مگر یہاں تو پورے پورے خاندانوں اور گروہ بندی نے میڈیا کو ہائی جیک کیا ہوا ہے۔ ہر گروپ اپنا اسکرپٹ رائٹر، اپنا ادیب یا ادیبہ، اپنے اداکار اور صداکاروں کا حلقہ رکھتا ہے۔ خواہ کام کتنا ہی غیر معیاری کیوں نہ ہو۔ تو ریموٹ طے کرتا ہے کہ کون سا چینل دیکھنا ہے۔

اب آئیے کارٹون فلموں کے ہندی ورژن کی طرف۔ ہندی اور اردو کا رسم الخط ضرور الگ ہے۔ لیکن عام بول چال میں دونوں ایک ہی ہیں۔ اگر شدھ ہندی کا استعمال نہ کیا جائے تو دونوں میں سوائے چند لفظوں کے کوئی فرق نہیں۔ بچوں کو مانوس زبان میں کارٹون زیادہ سمجھ میں آتے ہیں۔ اگر پاکستانی چینلز نے اس جانب توجہ دی ہوتی اور اردو میں کارٹون فلموں کی ڈبنگ کی ہوتی تو معاملہ دگر ہوتا۔ آپ نے میدان خالی چھوڑا، جس کا انھوں نے فائدہ اٹھایا۔ بجائے اعتراض کے کام کیجیے۔

سوال یہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ آپ نے اپنی تہذیب و ثقافت کے فروغ کے لیے بچوں کے لیے خود کارٹون اور فیچر فلمیں کیوں نہ بنائیں؟ یورپین اقوام نے بچوں کو ہمیشہ اہمیت دی، کہ یہی مستقبل کے معمار ہیں۔ اسی لیے 70ء کی دہائی میں بھی FLIPPER، FURY، سنڈریلا، سلیپنگ بیوٹی، اور بہت سی دوسری فیچر فلمیں بچوں کے لیے ٹیلی ویژن پہ دکھائی جاتی تھیں۔ اور بچے ان سے بہت کچھ سیکھتے تھے۔ ہم خود کچھ نہیں کرنا چاہتے، البتہ دوسروں پہ تنقید کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور یہی تباہی کی وجہ ہے۔

جو لوگ بھارتی میڈیا پہ تنقید کرتے ہیں، ان سے یہ سوال تو پوچھا جا سکتا ہے کہ ترکی کے جو ڈرامے اب ہر چینل اور میڈیا ہاؤس کی اولین ضرورت ہیں ان سے کیا آپ کی ثقافت اور مذہب کو کوئی خطرہ نہیں؟ جو ماحول، کلچر، نوجوانوں اور خواتین کا بے باکانہ انداز، مختصر لباس اور معیوب عشقیہ اور رومانی انداز۔ کس حد تک اسلامی ہے؟ کیا یہ آپ کی تہذیب کو دیمک اور گھن کی طرح نہیں چاٹ رہے؟

پہلے نودولتیے اور فیشن کی دوڑ میں شامل خواتین اور نوعمر لڑکیاں، بھارتی اداکاراؤں کے نام کی جیولری طلب کرتی تھیں۔ اب ان کے ساتھ ساتھ ترکی ڈراموں کی اداکاراؤں کی جیولری، سینڈلز اور ملبوسات بھی عام بک رہے ہیں۔ لیکن کسی طرف سے اعتراض نہیں آیا کہ ترکی اسلامی ملک ہے۔ لیکن کس حد تک اسلامی؟ ترکی کا زیادہ تر حصہ یورپ میں ہے۔ اور وہ اس پر نہ صرف فخر کرتے ہیں بلکہ لباس، پینا پلانا اور شخصی آزادی میں وہ یورپین سے چار ہاتھ آگے ہیں ۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم صرف ذاتی مفاد کو مدنظر رکھتے ہیں۔ اسی لیے گروپ بندیوں اور کمزور اسکرپٹ کی وجہ سے اب بھارتی اور ترکی ڈرامے سرفہرست ہیں۔ وہ جو پہلے ان پر پابندی کا مطالبہ کرتے تھے، وہ سب سے زیادہ انھیں پسند کرتے ہیں۔ آخر میں پاکستانی فلموں کی طرح مقامی ڈرامہ اور تفریحی شو دونوں غائب ہو جائیں گے۔ کہ پرائم ٹائم میں وہی دکھایا جائے گا جو مقبول ہو اور منافع بخش بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔