حقہ سیاست…

شیریں حیدر  اتوار 5 اپريل 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

تایا جی کی معمول کی محفل کی تیاری جاری تھی، اس محفل میں ان کے وہ دوست شامل ہوتے ہیں جو جانے کتنے ہی سالوں سے ان کے ہاں ناشتہ کرتے ہی پہنچ جاتے ہیں، ہر کوئی آتے ہوئے راستے میں چار گھروں میں سے ہوتا ہوا آتا ہے اور ’’ نت نئی خبروں ‘‘ کا تبادلہ ہوتا ہے، یہ سب لنگوٹیے یار پڑھے لکھے ہیں، نہ صرف اپنے گاؤں بلکہ ملکی اور عالمی حالات پر بھی ان کی نظر ہوتی ہے۔ میں ناشتے سے فارغ ہو کر بیٹھی اخبار پڑھ رہی تھی، سارے بزرگ ایک ایک کر کے پہنچنا شروع ہو گئے تھے، ملازم نے حقہ تازہ کر کے جائے محفل پر رکھ دیا تھا، حقے کے گرد دائرے کی شکل میں آٹھ کرسیاں رکھی تھیں، سات تو تایا جی سمیت مستقل ممبر ہیں اور کسی اچانک آ جانے والے کا ’’مارجن ‘‘ رکھتے ہوئے دو ایک فالتو کرسیاں لگائی جاتی ہیں۔

تایا جی اپنے جوڑوں کے، بالخصوص گھٹنوں کے درد کے باعث کہیں آ جا نہیں سکتے سو یہ محفل ہر روز یہیں جمتی ہے، اتوار اور عید کا ناغہ ہوتا ہے، رمضان کا مجھے علم نہیں۔ تائی جی لاکھ تنگ ہوں مگر یہ محفل اتنی ضروری ہوتی ہے کہ تایا جی تائی جی کو اپنی زندگی سے علیحدہ کر سکتے ہیں، اس اہم محفل کو نہیں۔ میں اخبار کی اوٹ سے مہمانوں کو آتے ہوئے دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ کون سا دور ہے جب لوگوں کے پاس اس قدر فالتو وقت ہوتا ہے، پھر آج کے زمانے میں حقہ؟ سگریٹ بھی تو پئے جا سکتے ہیں، مگر جب حقے کی نے کسی کے ہاتھ میں آتی ہے تو بات کرتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے صاحب گفتگوکے ہاتھ میں مائیک ہو۔

مجھے اسی روز واپس بھی آنا تھا اور تایا جی نے کہہ رکھا تھا کہ جب تک وہ فارغ نہ ہوں ، میں واپسی کا سوچ بھی نہیں سکتی، اچھا ہی ہوا کہ میں نے وہاں بیٹھ کر ان کی باتیں سن لیں اور مجھے اندازہ ہوگیا کہ دنیا میں کیسے کیسے لوگ ہیں جو عالمی مسائل پر اتنی گہری نظر بھی رکھتے ہیں اور ان کے حل کے لیے متفکر بھی۔

’’ اور سناؤ کوئی نئی تازہ کرم داد؟ ‘‘ تایا جی کے سوال سے گفتگو شروع ہوئی۔

’’ بس پاء جی… چل رہا ہے گزارا، بیٹا بالکل الف ہو گیا ہے، کسی طور بہو کو رکھنے پر آمادہ نہیں ہو رہا، لگتا ہے کہ کوئی حل نہیں اور بالآخر معاملہ طلاق تک ہی پہنچ جائے گا ‘‘ تشویش سے کہا گیا۔

’’ میں آتے ہوئے کرنیل کے گھر گیا تھا، اس کی بیٹی کا بھی مسئلہ چل رہا ہے، ناراض ہو کر میکے آئی ہوئی ہے‘‘ ایک اور آوازآئی۔

’’ تو غفور تیرا تو اس کی سسرال میں بڑا آنا جانا ہے، رشتہ داری بھی ہے، تو ہی لڑکے والوں کو سجھا، کرنیل کی بیٹی تو بڑی سیانی بچی ہے اور ابھی تو اس کے بیاہ کو چار مہینے بھی نہیں ہوئے ‘‘ تایا جی نے کہا۔

’’ چھوڑ یار ‘‘ غفور چاچا نے کہا، ’’ تجھے تو میری عادت کا پتا ہے، میں پرائے پھڈے میں ٹانگ نہیں اڑاتا، جن کے گھر کا معاملہ ہے وہی جانیں اور خود نمٹیں !! ‘‘ تائی جی سے میں نے سوال کیا کہ ’کرنیل‘ کون تھا، میں سمجھی کہ کوئی فوج کے کرنل ہوں گے، معلوم ہوا کہ تایا جی لوگوں کی کلاس کا مانیٹر تھا جسے سب کرنیل کہہ کر چھیڑتے تھے اوراتنی عمر گزر گئی مگر لقب وہی چل رہا تھا۔

’’ اکرم کمہار کی بیٹی ، ترکھانوں کے لڑکے کے ساتھ چلی گئی ہے!!‘‘ ایک گرما گرم خبر آئی، ’’ پولیس کیس بنتا ہے مگر مصالحت کی کوششیں کر رہے ہیں بڑے ملک!!‘‘

’’ مصالحت کیا ہو گی، کیا بیٹی واپس لیں گے، نکاح کر دیں اسی آوارہ کے ساتھ!!!‘‘

’’نیازتیری بیماری کا کیا ہوا، تیرا تو اپنا بیٹا ڈاکٹر ہے امریکا میں!!‘‘

’’ بیٹا تو ڈاکٹر ہے مگر امریکا میں، مجھے تو اس کے ڈاکٹر ہونے کا کوئی فائدہ نہیں، ویسے بھی وہ عورتوں کے امراض کا ڈاکٹر ہے، مجھے جلدی بیماری ہے، گاؤں کے اسپتال میں تو اتنی سہولتیں نہیں ہیں، نہ خون پیشاب کے ٹیسٹ کی، نہ ایکسرے نہ الٹرا ساؤنڈ، یہاں کے ڈاکٹر نے کہا ہے کہ شہر کے اسپتال سے خون کے کچھ ٹیسٹ کروانا ہوں گے!!‘‘

’’ تو چلے جاؤ نا کسی روز شہر ‘‘ ایک آواز آئی، ’’ویسے تو اتنی آبادی ہے ہمارے گاؤں کی، کیا ہی اچھا ہو جو یہاں کے اسپتال کے لیے اس طرح کی سہولتوں کی منظوری ہو جائے، شہر جانا تو ایک مسئلہ ہی بن جاتا ہے!!‘‘

’’ جانا ہی ہے کسی روز شہر بھی یار، بس وقت ہی نہیں مل پاتا ‘‘ نیاز چاچا نے کہا۔

’’سعید تیری زمین کے پانی کا کیا ہوا؟ ‘‘ کسی نے ایک اور انکل سے پوچھا، ’’ کسی کو بیچ میں ڈالتاتا کہ مسئلہ حل ہوتا!!‘‘

’’ یہ مسئلہ نہیں حل ہونے والا، کون کس کے پھڈے میں پڑتا ہے، آج کے زمانے میں کوئی کسی کو اپنا بخار نہیں دیتا !!!!‘‘

’’ لے تو کہتا ہے کہ کوئی کسی کو اپنا بخار نہیں دیتا اور ہماری حکومت تو اپنی فوج سعودی عرب بھیج رہی ہے تا کہ یمن کے خلاف لڑ سکے ‘‘ ایک انکشاف ہوا۔

’’ یمن کے خلاف؟ ‘‘ حیرت سے ایک آواز آئی، ’’یمن کس کی شہہ پر سعودی عرب کے خلاف لڑ رہا ہے؟ ‘‘
’’ ایران یمن کی پشت پر ہے ‘‘

’’ ہوں !!! ‘‘ گہری سوچ، ’’ تو اس کا مطلب ہے کہ امریکا سعودی عرب کا ساتھ دے گا کیونکہ اس کی تو ایران سے پکی والی دشمنی ہے ‘‘
’’ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ پاکستان کی فوج کے لیے کتنے محاذ کھولے جا سکتے ہیں اور وہ کہاں کہاں لڑ سکتی ہے‘‘
’’ پاکستانی فوج میں جذبہ ہے اور اسی لیے ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کی جنگ پاکستانی فوج لڑے اور پھر سعودی عرب میں تو اللہ کا گھر ہے، اس گھر کی وجہ سے اس ملک کی حفاظت سے ہم انکار کیسے کر سکتے ہیں ‘‘

’’ مگر ہماری حکومت کو اپنے ملک کی حفاظت پہلے کرنا چاہیے، کتنے ہی محاذوںپر ہماری پوری کی پوری فوج برسر پیکار ہے‘‘
’’سارا مسئلہ حکمرانوں کے اپنے کاروباروں کا ہے، سعودی عرب کا دفاع کس طرح نہیں کریں گے، ان کے تو سارے کاروبار ڈوب جائیں گے اور یہ سب کے سب کنگال ہو جائیں گے جو اس ملک سے رقم لوٹ لوٹ کر باہر جمع کر رہے ہیں!!‘‘ ایک اور ماہرانہ رائے۔

’’ اس مسئلے پرخامو شی زہر قاتل ہے، خود کشی ہے، ہم سب کو آواز بلند کرنا چاہیے، متحد ہو کر، ایک آوازہو کر!!! ڈٹ جانا چاہیے، اپنی فوج کو یوں توپوں کے منہ کے آگے جھونک دینا کہاں کی دانشمندی ہے!!‘‘ گرم جوشی بڑھتی ہی جا رہی تھی۔
’’ تایا جی ‘‘ میں نے تایا جی کو پکارا۔

’’ اوہو، میں تو بھول ہی گیا پتر ‘‘ تایا جی جوتے پہنتے ہوئے اٹھے، ’’ یار محفل برخاست کرو، میری دھی کو واپس اسلام آباد جانا ہے!!! ‘‘ میں بیگ اٹھا کر باہر نکلی، سب کو سلام کیا، تایا جی لاٹھی کے سہارے کھڑے تھے، میں ان سے گلے ملی، ’’ تم ساری باتیں سن رہی تھیں نا پتر، تم بتاؤ، تمہارے خیال میں حکومت کوکیا کرنا چاہیے اس مسئلے پر؟ ‘‘ تایا نے مجھ سے سوال کیا۔
’’ تایا جی! آپ اور سارے چاچے جو گفتگو کر رہے تھے، میں اسے نہایت غور سے سن رہی تھی، اس پر میری ناقص رائے ہے مگر میں پہلے آپ سے اپنی گستاخی کی معافی مانگ لیتی ہوں کہ میری رائے عموما لوگوں کو پسند نہیں آتی‘‘

’’ نہیں نہیں، تم کہو بیٹا، آخر کو تم لکھتی ہو، کچھ نہ کچھ تو ملکی اور عالمی حالات تو تم جانتی ہی ہو گی!!‘‘ نیاز چاچا بولے، سب لوگ میری رائے سننے کے منتظر تھے۔

’’ ارے نیاز چاچا، میری ایسی معلومات کہاں، لیکن اس مسئلے پر میں یہی کہنا چاہوں گی کہ آپ لوگ اپنے مسائل کو اولیت دیں، اپنی جلدی بیماری کے علاج کے لیے وقت نکال نہیں پاتے آپ، اکرم ترکھان کی بیٹی کا مسئلہ آپ سے حل نہیں ہوتا، کرم داد چاچا کے بیٹے کو کوئی سمجھا نہیں سکتا، گاؤں کے اسپتال میں سہولیات کے حل کے لیے کوشش کریں، کرنیل انکل کی بیٹی کا گھر بچانے کے لیے کچھ کر سکیں تو… بہت اچھا ہو گا، باقی جو کام امریکا کے کرنے کے ہیں، جو مسائل یمن اور سعودی عرب کے ہیں، فو ج کو اور حکومت کو کن حالات میں کیا فیصلہ کرنا چاہیے، یہ سب ان کو کرنے دیں جنھیں ان کاموں کے لیے چنا گیا ہے، چھوٹی فکریں رکھیں اور اپنے ارد گرد کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں!!!‘‘ ان سب کے چہرے دیکھے بغیر میں تائی جی کو اللہ حافظ کہہ کر اپنا بیگ اٹھائے باہر نکل آئی، مڑ کر دیکھنے کی ہمت نہ تھی، اگلی دفعہ تایا جی کا سامنا جانے کیسے ہو گا؟؟؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔