مسرت عالم، ہندو کے سینے میں پیوست کانٹا

تنویر قیصر شاہد  پير 6 اپريل 2015
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

انھیں رجائیت پسند تو کہا جا سکتا ہے مگر اس سے کہیں بڑھ کر انھیں خود کو حُریت پسند کہلوانا زیادہ مرغوب و محبوب ہے۔ عمر تو ان کی 47 برس ہے لیکن انھیں 37 برس کا نوجوان کہا جانا چاہیے کہ ان کی زندگی کے تقریباً سترہ برس بھارتی عقوبت خانوں نے کھا لیے ہیں۔ سری نگر کے ایک قدیم محلے (زین دار) کے رہائشی ہیں ۔ وہ اپنے شفیق و حلیم چچا فاروق احمد، چچی زاہدہ اور اپنی بڑی ہمشیرہ کے ساتھ رہتے ہیں۔ فاروق صاحب نے اپنے بڑے بھائی کی اچانک رحلت کے بعد اپنے اس بھتیجے کی نگہداشت بھی کی، انھیں سری نگر کے مہنگے اور جدید تعلیمی ادارے (کرسچین مشنری اسکول) سے تعلیم بھی دلوائی۔

سری نگر میں ان کا خاندان مہنگے گارمنٹس کے کاروبار سے منسلک تھا، اس لیے خوشحال بھی رہا لیکن جونہی وہ مقبوضہ کشمیر کی علیحدگی پسند تحریک ’’حزب اللہ‘‘ میں شامل ہوئے، کاروبار پر بھارتی عذاب نازل ہونے لگا۔ ان کے چچا فاروق احمد کہتے ہیں: ’’کشمیریوں پر بھارتی مظالم کے خلاف میرے بھتیجے نے باقاعدہ احتجاجوں اور تحریکوں میں حصہ لینے کا آغاز کیا تو ہمارے بزنس کے زوال کا بھی آغاز ہو گیا۔ اب ہم معاشی بدحالی میں زندگی گزار رہے ہیں لیکن خدا کا شکر ہے زندگی کا پہیہ چل رہا ہے۔‘‘

اس حریت کیش اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پنجۂ استبداد سے کُلی نجات حاصل کرنے کے لیے علیحدگی پسند جماعتوں کے روحِ رواں کا نام ہے: مسرت عالم بھٹ!! نوّے کا عشرہ شروع ہوتے ہی انھوں نے مقبوضہ کشمیر کی علیحدگی پسند جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ 1991ء میں پہلی بار طویل عرصہ کے لیے زندان جانا پڑا۔ انھوں نے فلسطینی نوجوانوں کی پیروی میں بھارتی قابض فوجوں کے خلاف سنگباری کا آغاز کیا۔ غلیل اور پتھر ان کا ہتھیار تھے۔ مسرت عالم کے مزاحمانہ کردار نے انھیں مقبوضہ کشمیر کے نمایاں ترین افراد میں شامل کر دیا۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ممتاز ترین مگر علیل حریت پسند لیڈر علی شاہ گیلانی کے بعد مسرت عالم ہی ان کی جگہ سنبھالیں گے۔

سن دو ہزار آٹھ کے دوران مقبوضہ کشمیر میں ہندوؤں کے معروف مذہبی مقام ’’امر ناتھ‘‘ کے لیے بھارتی حکومت نے کئی ایکڑ زمین الاٹ کی تو کشمیری بپھر گئے۔ یہ الاٹمنٹ آئین کی مبادیات کے خلاف تھی؛ چنانچہ مقبوضہ کشمیر میں ایک زبردست تحریک نے سر اٹھایا۔ مسرت عالم اس میں مرکزی کردار ادا کرتے پائے گئے۔ وہ اپنے شوریدہ سر ساتھیوں کے ساتھ ہاتھوں میں پتھر لیے بھارتی قابض فوجوں کے سامنے سینہ سپر ہوگئے۔ سنگدل بھارتی فوجی بھی کہاں ٹلنے والے تھے؛ چنانچہ انھوں نے پتھروں کے جواب مین سیدھی گولیاں چلائیں۔

اس تصادم میں ایک سو بیس کی تعداد میں کشمیری نوجوان شہید ہو گئے لیکن اس کا ذمے دار مسرت عالم قرار دیے گئے۔ کئی مقدمات ان کے خلاف درج ہوئے۔ دس سال جیل کی سنگینیاں اور تشدد برداشت کرنے کے باوجود وہ 2008ء میں، امرناتھ کے حوالے سے، ایک بار پھر بھارتی افواج کے سامنے سراپا احتجاج تھے۔ وہ بلند آواز سے Go India, Go Back کے نعرے لگاتے نظر آتے۔ ’’بھارت چھوڑ دو تحریک‘‘ بھی انھی کی ایما پر زور پکڑ رہی تھی۔ انھوں نے ایک نئی مہم کا بھی آغاز کیا اور وہ یہ کہ جب ہم بھارت کو مانتے ہی نہیں تو بھارت سرکار کے قائم کردہ اسکولوں میں ہمارے بچے پڑھنے کیوں جائیں؟ اس نئی مہم نے اتنی شدت اختیار کی کہ 2010ء میں جولائی تا ستمبر، مسلسل تین ماہ تک مقبوضہ کشمیر میں لاتعداد اسکولوں کے دروازے بند ہوگئے۔

’’پبلک سیفٹی ایکٹ‘‘ کے تحت یہ عرصہ ان پر بار بار قید و بند کے ’’سندیسے‘‘ بھی لے کر آتا رہا۔ انھوں نے ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ کے صحافی ایم ایس پنڈت کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک بار کہا تھا: ’’بھارت میں ہمیشہ مستبد، ناانصاف اور ظالمانہ حکومتیں بروئے کار رہی ہیں۔ سب نے کشمیریوں پر مظالم ڈھائے، ہمارے حقوق غصب کیے اور ہمیں بنیادی حقوق سے محروم رکھا۔ امریکا میں، جہاں جمہوری اقدار مضبوط ہیں، لوگ احتجاج کرتے ہوئے پتھر بھی پھینکتے ہیں، جوتے بھی لہراتے ہیں اور مشروبات کے خالی ڈبے بھی مخالفین پر پھینکتے ہیں لیکن وہاں احتجاج کنندگان کو دس دس سال کی بامشقت سزائیں نہیں دی جاتیں۔ بھارتی ریاست راجستھان میں گُجر اپنے مطالبات پورے کرانے کی تگ و دو میں سڑکیں بلاک کرتے اور پولیس پر پتھر پھینکتے ہیں لیکن انھیں بھی کوئی سزا نہیں دی جاتی جب کہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے یہی طریقہ ہم اختیار کرتے ہیں تو ہمیں اور ہمارے نوجوانوں کو بھارتی عدالتیں لمبی سزائیں سنا دیتی ہیں۔ کیا یہ انصاف اور جمہوریت ہے؟‘‘

مسرت عالم نے بھارت کے خلاف سوشل میڈیا میں بھی طوفان بپا کیے رکھے ہیں۔ وہ مبینہ طور پر مقبوضہ کشمیر کی مساجد میں اینٹی انڈیا تقاریر پر مبنی سی ڈیز تقسیم کرنے میں بھی خاص شہرت رکھتے ہیں۔ جیل کی سخت زندگی انھیں اپنے متعینہ راستے سے انحراف پر مائل اور قائل نہیں کر سکی۔ بھارتی ’’تہلکہ‘‘ میگزین کے ایڈیٹر کا کہنا ہے کہ جیل سے رہا ہوتے ہی مسرت عالم وہیں سے تحریک کا آغاز کر دیتے ہیں جہاں چھوڑ کر انھیں جیل جانا پڑا تھا۔ انھیں قتل کرنے کے لیے ’’را‘‘ نے کئی کوششیں کیں مگر خدا نے انھیں محفوظ رکھا ہے۔ زیرِ زمین سرگرمیوں میں چلے گئے تو ان کی گرفتاری کے لیے بھارتی قابض افواج نے دس لاکھ روپے کا انعام مقرر کیا۔

کئی جہادی اور سیاسی ذمے داریاں بھی اٹھائے ہوئے ہیں۔ تحریکِ حریت کے سیکریٹری جنرل بھی ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں ’’مسلم لیگ‘‘ کے چیئرمین بھی۔ انھیں بھارتی آئین اور بھارت میں کوئی امید نظر نہیں آتی۔ مسرت عالم کہتے ہیں: ’’1947ء سے اب تک ہر بھارتی حکومت نے ہمارا استحصال کیا۔ جموں و کشمیر کے باسی اتنے باشعور ضرور ہیں کہ ایک قوم کی حیثیت سے اپنے بارے میں فیصلہ کر سکتے ہیں۔ بھارت کو کشمیر سے اپنا بوریا بستر سمیٹ کر چلے جانا چاہیے۔‘‘ کئی الزامات کے تحت انھیں 2010ء میں گرفتار کر کے پھر حوالۂ زنداں کر دیا گیا تھا۔ کامل پانچ برس وہ جیل کی سختیاں اور صعوبتیں برداشت کرتے رہے ہیں۔ بھارتی جیلوں کی سخت گیری، اور وہ بھی کشمیری علیحدگی پسندوں کے لیے، کا اندازہ ہم بخوبی لگا سکتے ہیں۔

نو مارچ 2015ء کو انھیں طویل عرصے بعد رہائی ملی تو بھارتی پارلیمنٹ میں مقبوضہ کشمیر کے مخالفین نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ نریندر مودی کو مدافعت اختیار کرنا پڑی اور فیس سیونگ کے لیے کہا کہ وزیراعلیٰ مفتی جی نے مسرت عالم کو رہا کرتے وقت ہم سے مشورہ نہیں کیا۔ رہائی کے دوسرے روز مسرت عالم نے اپنے گھر میں بھارتی انگریزی اخبار ’’دی ہندو‘‘ کے رپورٹر زاہد رفیق سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’’یہ ہماری کوششوں اور ہمارے مؤقف کی فتح ہے کہ میری رہائی پر بھارتی پارلیمنٹ میں ایک نئی جنگ کا آغاز ہوا ہے۔ بھارت ہمیں آزاد دیکھنا ہی نہیں چاہتا۔ اور جسے آپ لوگ مقبوضہ کشمیر کی خاموشی کو ’’امن‘‘ کا نام دینے کی کوشش کرتے ہیں، میری رہائی پر بھارتی پارلیمنٹ میں احتجاج سے ثابت ہوا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں یہ خاموشی دراصل طوفان آنے سے قبل والی خاموشی ہے۔‘‘

مسرت عالم کی رہائی سے سری نگر اور دہلی کے درمیان جس نئی کشاکش نے جنم لیا ہے، یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے نئی نئی یاری تڑک کر کے ٹوٹنے والی ہے۔ ابھی تو سری نگر اور بھارت کی مختلف جیلوں میں پڑے مقبوضہ کشمیر کے کئی دیگر علیحدگی پسند لیڈروں کو بھی رہا کرنا باقی ہے۔ مثلاً: محمد عاشق فکتو (جمعیت المجاہدین کے کمانڈر اور ’’دختران ملّت‘‘ کی سربراہ آسیہ اندرابی کے شوہر)، حزب اللہ کے مشتاق الاسلام، جمعیت المجاہدین کے محمد شفیع ڈار، جے کے ایل ایف کے ظہور احمد بھٹ اور ’’حریت‘‘ کے نصیر عبداللہ، محمد ایوب ڈار، محمد یاسین یاٹو، آصف حلوائی، نور محمد تانترے، پرویز میر اور فیروز بھٹ ایسے بھارت بیزار لیڈر۔ جب کٹھ پتلی وزیراعلیٰ مفتی سعید (ریاستی انتخابات میں کیے گئے اپنے وعدوں کے مطابق) انھیں بھی رہا کریں گے تو شاید بھارتی پارلیمنٹ کی چھت ہی زمین پر گر جائے گی۔ مسرت عالم کی رہائی پر مگر مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی کے ریاستی سیکریٹری جنرل اشوک کیول بہت ہی غصے میں ہیں اور یہ کہتے ہوئے بھی سنائی دے رہے ہیں: ’’وزیراعلیٰ مفتی سعید جی نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ آیندہ ایسا نہیں ہو گا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔