مچلنا اور تیز کر دیں

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 8 اپريل 2015

ایریس مس اپنی کتاب ’’در مدح حماقت‘‘ لکھتے وقت اصل مقصد کی تشریح یوں کرتا ہے ’’چونکہ پوری نسل انسانی کامل جنون و سودا پر مصر ہے۔ پوپ سے مسکین دیہاتی پادری تک اہل ثروت سے قلاشوں تک ریشم اور اطلس میں ملبوس خواتین سے معمولی سوتی لباس پہنے والی عورتوں تک غرض ساری دنیا خدا کی عطا کردہ عقل کے خلاف کاربند رہنے پر تلی بیٹھی ہے۔

سب لوگ لالچ، خود بینی اور جہالت کو رہنما بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ کوئی شخص عقل و دانش کے نام پر بتائے چند ارباب فہم و ذکا کیوں اپنا وقت اس سعی بے حاصل میں صرف کر رہے ہیں کہ انسانوں کو بدل کر ایسا بنا دیں جیسے وہ نہیں چاہتے۔ بہتر یہ ہے کہ انھیں حماقتوں میں مگن رہنے دیا جائے ان سے وہ چیز نہ چھینو جو تمام دوسری چیزوں کے مقابلے میں ان کے لیے زیادہ باعث تسکین ہے وہ ان کی سب سے بڑی صلاحیت ہے یعنی اپنے آپ کو احمق اور بیو قوف بنائے رکھنا۔ صرف نا معقول احمقانہ خواہشات ہی کی بنا پر دنیا کے پہیے گر دش کر رہے ہیں۔‘‘

کتاب خطبے کے انداز میں لکھی گئی ہے جو حماقت نے خود ایک خیالی اجتماع میں پیش کیا جس میں ہر طبقے اور کوائف کے لوگ شریک تھے، حماقت نے فضیلت کا لباس پہنا اور سر پر وہ ٹوپی رکھی جسے احمقوں کی ٹوپی کہتے ہیں وہ ایک اسٹیج پر کھڑی ہوئی اور کہتی ہے کہ میرے بغیر معاشرے کا نظام درہم برہم ہو جائے گا کوئی دانش مند عورت یا مرد شادی کرنے کا خطرہ قبول نہیں کر سکتا جب تک حماقت کا جادو ان پر نہ چل جائے یہ متکبر فلسفی، یہ زرین پوش بادشاہ، پرہیزگار پادری، مقد س پوپ صرف میری بدولت ظہور میں آئے۔

دنیا کے دانش مند ترین آدمیوں کو بدنصیب سمجھا جاتا ہے احمق اور بے دانش آنے والے خطرات سے بالکل بے پرواہ رہتے ہیں زندگی جن ہزاروں تشویشوں سے بھری ہوئی ہے ان سے قطعاً متاثر نہیں ہوتے اور ہر حال میں خوش خوش رہتے ہیں حکومتیں اسی حد تک کامیاب ہیں جس حد تک لوگوں کو بیوقوف بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

’’درمدح حماقت‘‘ کا خاصا حصہ کلیسا پر طنز کے لیے وقف ہے۔ وہ لکھتا ہے ان لوگوں کے نزدیک تقدس کا سب سے بڑا نشان یہ ہے کہ وہ پڑھ نہیں سکتے وہ کلیسا ؤں میں جا کر زبور پڑھتے ہیں تو گدھوں کی طرح رینگتے معلوم ہوتے ہیں وہ زبور کا ایک لفظ بھی نہیں سمجھتے لیکن یہ خیال کیے بیٹھے ہیں کہ ان کی آواز ہی مقدس بزرگوں کے کانوں کے لیے تسکین افزا ہے راہب گلیوں اور بازاروں میں چلاتے پھرتے ہیں وہ اپنے آپ کو رسولوں سے مشابہ قرار دیتے ہیں حالانکہ وہ جاہل ہیں۔ اسٹیفن زوگ کتاب کے بارے میں لکھتا ہے یہ وقت کی ایک نہایت خطرناک کتاب تھی وہ دراصل ایک بم تھا جو پھٹا اور جرمن اصلاح کلیسا کے لیے راستہ کھل گیا۔

کیا یہ کہنا سچ نہ ہو گا کہ آج پاکستان پر حماقت کی مکمل حکمرانی قائم ہو گئی ہے۔ سیاست دان، سرمایہ دار، بزنس مین، جاگیردار، چوہدری، میر، بیوروکریٹس، ملا، صحافی غرض ہر اعلیٰ سے اعلیٰ آدمی اور ہر چھوٹے سے چھوٹا عام آدمی اسی کا حمایتی اور پیروکار بنا ہوا ہے۔

پورے ملک میں اسی کی پوجا کی جاتی ہے سب کے سب اسی کی حکمرانی قائم و دائم رکھنے اور اسے مضبوط سے مضبوط تر کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور اپنا اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔ جہاں اس کی حکمرانی کمزور ہونے لگتی ہے سب کے سب دوڑ کر اسے بچانے کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔

ملک میں کسی کی مجال نہیں ہے کہ وہ حماقت کی حکمرانی کے لیے خطرہ بنے یا اسے کمزور کرنے کی سازش کرے سازش کرنے کی بات تو چھوڑیں لوگ اس کے خلاف بات سننا بھی پسند نہیں کرتے ہیں اگر کوئی غلطی سے اس کے خلاف کہنے کی جرأت کر لیتا ہے تو لوگ ڈنڈے لے کر اسے مارنے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں ہم دیوانوں کے ایسے غول بن گئے ہیں جو گلی گلی ایماندار، سچے، وفادار، عقل مند، بچے کھچے لوگوں کو تلاش کرتے پھرتے ہیں تا کہ انھیں ملک بدر کیا جا سکے اور سخت سے سخت سزا د ی جا سکے۔

ہم صرف لالچ، حرص، فریب، د ھوکے، فراڈ کے بیوپاری بن کے رہ گئے ہیں ہمارے لیے ہر رشتہ اور تعلق فقط صرف ایک کاروبار ہے ہم زندگی کے ہر معاملے کو کاروباری نگاہ سے دیکھنے کے عادی مجرم بن گئے ہیں یہ الگ معاملہ ہے کہ ہمیں اس کاروبار میں صرف گھاٹا ہی گھاٹا ہو رہا ہے لیکن ہم اپنے آپ کو بڑے کاروباری سمجھے بیٹھے ہیں۔

جون ایلیا نے بالکل ٹھیک کہا تھا ’’ہم ایک ہزار برس سے تاریخ کے دسترخوان پر حرام خوری کے سوا اور کچھ نہیں کر رہے۔‘‘ ہمارا سماجی اور معاشرتی ڈھانچہ جو کبھی تہذیب و تمدن اور شان و شوکت کا عالیشان نشان ہوتا تھا اب وہ کھنڈرات اور ملبے میں ایسا تبدیل ہوا ہے جہاں صرف دھول کے سوا اور کچھ نہیں دکھائی دیتا۔ ہم سب حماقت کی مسحور کن دھنوں پر مچل رہے ہیں اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ ہم باقی دنیا کے لوگوں کو بھی اپنا ہی جیسا بنانے پر تلے بیٹھے ہیں۔

اپنے علاوہ کسی کو بھی عقل مند اور دانش مند ماننے کے لیے تیار نہیں اور بضد ہیں کہ سب ہم جیسے بن جائیں جنت میں داخلے کے اجازت نامے ہماری جیبوں میں بھرے پڑے ہیں، ہماری مرضی کے خلاف کسی کو جنت میں داخلے کی اجازت نہیں۔

دوزخ کے داروغے ہم بنے پڑے ہیں۔ پوری دنیا کو یہ سمجھانے کے لیے ہم نے دن رات ایک کر رکھا ہے کہ یہ زندگی عارضی ہے لہذا یہاں سر کھپانے، اسے تبدیل کر نے یا مشکلات کو کم سے کم کرنے کی جدوجہد کی کوئی ضرورت نہیں بس یہ سب بے کار کی باتیں چھوڑ کر ابدی زندگی کی فکر اور جستجو میں لگ جائیں اور پوری دنیا ہے کہ ہمیں حیران و پریشان تکے جا رہی ہے۔

اگر کوئی عقل و دانش اور سمجھداری کی بات سننا اور سمجھنا نہ چاہے تو ہم کر بھی کیا سکتے ہیں لہذا دنیا بھر کے لوگوں کو بے کار، بے مقصد، بے مطلب زندگی میں مگن رہنے دیں آئیں ہم سب حماقت کی مسحور کن دھنوں پر مچلنا اور تیزکر دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔