پیغام کی آفاقیت

عابد محمود عزام  جمعرات 9 اپريل 2015

یہ دنیا کی ایک مسلمہ سچائی ہے کہ حق ہمیشہ غالب آ کر رہتا ہے اور باطل مٹ جاتا ہے، کیونکہ حق آیا ہی غالب ہونے کے لیے ہے۔ ابتدائے اسلام میں دشمنان اسلام کے نزدیک یہ سوچنا بھی کسی مذاق سے کم نہیں تھا کہ اسلام ایک دن اپنی حقانیت اور قبولیت کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچا کر رہے گا، لیکن آج کفار خود اپنی زبان سے یہ اقرار کرنے پر مجبور ہیں کہ اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بننے والا ہے۔

واشنگٹن میں واقع ریسرچ سینٹر کے تحت مرتب کی گئی رپورٹ کے مطابق ’’2070ء تک اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔ 2050ء تک بھارت انڈونیشیا کو پیچھے چھوڑ کر پوری دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان آبادی والا ملک بن جائے گا۔

کسی بھی مذہب کے مقابلے میں اسلام سب سے تیز رفتار سے آگے بڑھے گا۔ اس وقت دنیا میں عیسائیت سب سے بڑا مذہب ہے، اس کے بعد مسلمان آتے ہیں، لیکن 2070ء تک اسلام سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔

اگلے چار عشروں میں دنیا کی آبادی اندازاً 9.3 ارب تک پہنچ جائے گی اور مسلمانوں کی آبادی میں 73 فیصد کا اضافہ ہو گا، جب کہ عیسائیوں کی آبادی 35 فیصد بڑھے گی اور ہندوؤں کی تعداد میں 34 فیصد اضافہ ہو گا۔ آنے والے عشروں میں جہاں ایک طرف چار کروڑ افراد عیسائی مذہب اپنائیں گے، وہیں دس کروڑ 60 لاکھ لوگ اس مذہب کو چھوڑ دیں گے، جب کہ ایک کروڑ 12 لاکھ لوگ اسلام کو اپنائیں گے۔‘‘

اس حقیقت کو پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا کہ دشمنان اسلام نے اسلام کی تیز رفتار ترقی کے خوف سے ہمیشہ اسلام کی راہ میں روڑے اٹکائے ہیں۔ ماضی قریب میں نائن الیون کے واقعے کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کو اذیت، پریشانی اور گوناگوں مشکلات میں مبتلا کیا گیا۔ ٹوئن ٹاورز کے ملبے سے اٹھنے والے سیاہ دھوئیں کی کالک سے اسلام اور مسلمانوں کے چہرے کو داغدار کرنے کی کوششیں کی گئیں۔

دشمنان اسلام نے جہاں ایک طرف مسلم ممالک میں سازشوں کے جال بن کر بدامنی، خونریزی اور قتل و قتال کو جنم دیا، وہیں دوسری جانب امریکا نے نیٹو کے ساتھ مل کر مختلف مسلم ممالک میں مسلمانوں پر آتش و آہن کی بارش کر کے خون کی ندیاں بہا دیں۔ نائن الیون کے بعد ہر زبان کی لغت میں موجود کون سا منفی، ثقاہت سے گرا اور مکروہ لفظ ایسا ہے، جو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بے دریغ استعمال نہ کیا گیا ہو۔

دنیا بھر میں مسلمانوں کو بزور طاقت دبانے کی ہر عسکری کارروائی کو حق بجانب قرار دیا گیا، لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اسلام دشمنوں کا خیال تھا کہ ’’غلبہ اسلام‘‘ کی مالا جپنے والوں کا مکمل خاتمہ کر کے ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ نافذ کر دیا جائے گا۔ شاید ان کو یہ معلوم نہیں کہ اسلام کے خلاف ماضی میں بھی اسی قسم کی بے تحاشہ کوششیں کی گئیں، لیکن آج تک اسلام آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔

دشمنان اسلام نے جوں جوں اسلام کو مٹانے کی کوشش کی، توں توں لوگ دیوانہ وار اسلام کی شمع کے گرد جمع ہوتے گئے۔ پوری دنیا میں اسلام، قرآن مجید اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں تحقیق و مطالعے کا شوق عام ہوا اور غیر مسلموں میں اسلام کو جاننے کی لگن پیدا ہوئی۔

امریکا، برطانیہ، فرانس، اسپین، جرمنی، ہالینڈ اور دیگر ممالک کے ہزاروں فلم اسٹار، سائنس دان، کھلاڑی، ڈاکٹر، انجینئر اور سیاستدانوں نے دائرہ اسلام میں داخل ہو کر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ترقی یافتہ تہذیب و تمدن، خیرہ کن سائنسی و سماجی ترقی اور عہد حاضر کی قیادت کے علمبردار امریکا و یورپ کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا مذہبی تعصب، نسلی امتیاز اور اقتصادی و معاشی مفادات کا آئینہ دار ہے اور تمام تر مفادات سے بالاتر اور تمام خوبیوں کا مجموعہ صرف اور صرف اسلام ہی ہے۔

یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام نے ایک جامع و مکمل نظامِ زندگی اور ابدی دین فطرت دنیا کے سامنے پیش کیا، جو تمام سابقہ مذاہب کی خوبیوں سے بھی مزین ہے۔ ’’اشاعت اسلام‘‘ کے مقدمے میں مولانا حسین احمد مدنی لکھتے ہیں: ’’اس (اسلام) کی روحانی تربیت اور اخلاقی اصلاحات نے نہ صرف حلقہ بگوشانِ ادیان سابقہ کو اپنا گرویدہ بنا لیا، بلکہ ریگستانوں میں بادہ پیمائی کرنے والوں اور پہاڑوں میں وحشیانہ زندگی بسر کرنے والوں کو اپنا مطیع کر لیا۔

یہی وجہ ہے کہ نہایت تھوڑی سی مدت میں بحرِ اٹلانٹک کے ساحل سے لے کر بحرِ پاسفک کے کناروں تک اور بحرِ منجمد شمالی کے برفستان سے لے کر صحرائے کبیر افریقہ کی انتہائی گرم حدود تک ہزارہا ہزار میل کی مسافت میں اس کا ڈنکا بجنے لگا۔‘‘ ہر دور میں اسلام نے اپنی تعلیمات کی جامعیت اور اپنے پیغام کی آفاقیت سے یہ ثابت کیا کہ وہ کسی مخصوص وقت اور قوم کی حدود سے ماورا ایک آفاقی اور ابدی پیغام کا حامل ہے۔

اس بات کا اعتراف کفار بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ فرانس کے طالع آزما سکندر زمانہ نپولین بونا پارٹ کا کہنا ہے: ’’مجھے امید ہے کہ وہ دن دور نہیں، جب میں سارے ممالک کے سمجھدار اور تعلیم یافتہ لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کروں گا اور قرآنی اصولوں کی بنیاد پر متحدہ حکومت قائم کروں گا۔ قرآن کے یہی اصول ہی صحیح اور سچے ہیں اور یہی اصول انسانیت کو سعادت سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔‘‘

یہ اسلام کا اعجاز، سیرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی کشش اور اس آفاقی پیغام کا اثر ہے کہ جس نے بڑے بڑے اسلام دشمنوں کو بھی اسلام کے دامن رحمت میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ انیسویں اور بیسویں صدی کے نصف اول میں یہ تصور بھی مشکل تھا کہ مسلمان کبھی پورے اسلامی تشخص و امتیاز کے ساتھ امریکا یا یورپ میں نہ صرف آباد ہوں گے۔

بلکہ مساجد و اسلامی مراکز بنا کر یورپ و امریکا کی ترقی یافتہ قوموں کو اپنا مدعو بنائیں گے، لیکن یہ صورتحال کس قدر تبدیل ہوئی، مشہور انگریزی مفکر اور فلسفی جارج برنارڈ شا کے اعتراف سے اس حقیقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ’’جینئن اسلام‘‘ میں وہ لکھتے ہیں: ’’آیندہ سو برسوں میں اگر کوئی مذہب انگلینڈ، بلکہ پورے یورپ پر حکومت کرنے کا موقع پا سکتا ہے تو وہ مذہب ’’اسلام‘‘ ہی ہو سکتا ہے۔ میں نے اسلام کو اس کی حیرت انگیز حرکت و نمو کی وجہ سے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔

یہی صرف ایک ایسا مذہب ہے جو زندگی کے بدلتے ہوئے حالات سے ہم آہنگ ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے، جو اس کو ہر زمانے میں قابلِ توجہ بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

میں نے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کے مذہب کے بارے میں پیشین گوئی کی ہے کہ وہ کل کے یورپ کو قابلِ قبول ہو گا، جیسا کہ وہ آج کے یورپ کو قابلِ قبول ہونا شروع ہو گیا ہے۔‘‘ یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر کی اسلام دشمن قوتوں نے اللہ کے دین متین کو ختم کرنے کے لیے ہر قسم کا حربہ آزمایا، لیکن اسلام تمام تر رکاوٹوں کے باوجود ہر دور میں پوری قوت سے پھیلا ہے اور انشاء اللہ قیامت تک پھیلتا رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔