سندھ حکومت فوجی عدالتوں میں مقدمات کی منتقلی میں ناکام

اصغر عمر  جمعرات 9 اپريل 2015
مذکورہ مقدمات میں تمام مفرور ملزمان کو اشتہاری قر ار دیا جا چکا ہے،  ذرائع۔ فوٹو: فائل

مذکورہ مقدمات میں تمام مفرور ملزمان کو اشتہاری قر ار دیا جا چکا ہے، ذرائع۔ فوٹو: فائل

کراچی: سندھ حکومت دہشت گردوں کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں منتقل کرنے کے بارے میں گومگو کا شکار ہے اور حکومت سندھ کے اس رویے کی وجہ سے سندھ میں قائم فوجی عدالتیں تاحال کام شروع نہیں کرسکیں جبکہ افسران معاملے کو طول دینے کے لیے خط و کتابت میں مصروف ہیں۔

ذرائع کے مطابق2 ماہ قبل حکومت سندھ نے64 مقدمات کی اسکروٹنی کرکے کالعدم تحریک طالبان کے دہشت گردوں کے خلاف 3 مقدمات فوجی عدالت منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس وقت کے ہوم سیکریٹری عبدالکبیر قاضی نے اس امر کی تصدیق بھی کی تھی لیکن تاحال عملدرآمد نہیں ہوسکا اور سیکشن آفیسر (LE-I) نے یکم اپریل کو ایک بار پھر اس سلسلے میں ان مقدمات کی فہرست تیارکرکے ہیڈ کوارٹر فائیو کور، وزیر اعلیٰ سندھ کے ڈپٹی سیکریٹری اسٹاف، چیف سیکریٹری کے ڈپٹی سیکریٹری اسٹاف اور پی ایس او برائے سیکریٹری ہوم ڈپارٹمنٹ کو نقول ارسال کی ہیں تاہم حکومت سندھ کی بدانتظامی اور نااہلی کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ3 مقدمات میں صرف 2 مقدمات کے پولیس اسٹیشنز کی تفصیلات درج کی گئی ہیں۔

سب سے اہم مقدمے 369/2013 کے بارے میں نہیں بتایا گیاکہ یہ مقدمہ کس پولیس اسٹیشن سے تعلق رکھتا ہے حالانکہ اس مقدمے کو انتہائی اہم سمجھتے ہوئے22اپریل 2013 کو ہونیوالے قتل کے اس مقدمے کے ملزمان کے خلاف غیر قانونی اسلحہ اور دھماکاخیز مواد رکھنے کے ضمن میں2 ذیلی مقدمات بھی درج کیے گئے۔ مقدمہ نمبر808/2011اور30/2013کے بارے میں بتایا گیاہے کہ یہ مقدمات بالترتیب سچل اور قائد آباد پولیس اسٹیشن میں درج کیے گئے تھے۔

ذرائع کے مطابق انسداد دہشت گردی ایکٹ مجریہ 1997کی دفعہ 23کے تحت انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کوخود مقدمہ دوسری عدالت منتقل کرنے کا اختیار ہے لیکن سندھ حکومت کی وزارت قانون اور پراسیکیوٹر جنرل آفس ہر معاملے میں ہائیکورٹ کو ملوث کرنا چاہتا ہے، حکومت سندھ نے فوجی عدالتوں کے لیے ملزمان کے ریمانڈ اور شناختی پریڈ اور اقبالی بیانات قلمبند کرنے کے سلسلے میں جوڈیشل مجسٹریٹس کی خدمات کے لیے بھی سندھ ہائیکورٹ سے براہ راست رجوع کیا تھاجبکہ سندھ ہائیکورٹ نے حکومت کو بتایاکہ یہ اختیار ڈسٹرکٹ و سیشن ججز کو حاصل ہے اس لیے ان سے رجوع کیا جائے۔

باوثوق ذرائع کے مطابق سندھ حکومت نے 64مقدمات فوجی عدالتوں کو منتقل کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو ارسال کیے تھے جس پر وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد محکمہ پراسیکویشن سندھ نے 5 مقدمات کو اسکرونٹی کے بعد فوجی عدالتوں میں منتقل کرنے کے لیے حتمی طور پر کلیئر قرار دے دیا تھا۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق مذکورہ مقدمات رینجرز اور پولیس پر حملوں کے ہیں جن میں دہشت گردوں نے متعدد رینجرز اور پولیس اہلکاروں کو شہید و زخمی کر دیا تھا۔ مقدمات کی تفصیلا ت کے مطابق مقدمہ 30/2013تھانہ قائد آباد میں درج ہے جس میں کالعدم تحریک طالبان کے دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے ڈی ایس پی کمال، اے ایس آئی اکبر اور ہیڈ کانسٹیبل فضل کو شہید کردیا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں زیر سماعت مقدمے میں دہشت گرد اسد عرف بھائی جان گرفتار جبکہ مصطفیٰ بہاری، سجاد لنگڑا، طارق، یاسر و دیگر اشتہاری ہیں جبکہ ایک مقدمہ رینجرز پر حملے کا بھی ہے جس میں کالعدم تحریک طالبان کے دہشت گردوں نے تھانہ سچل کی حدود میں فائرنگ کرکے3رینجرز اہلکار محمد راشد، اعجاز اور ابراہیم کو شہید کر دیا تھا جس کے الزام میں دہشت گرد فرحان خان اور عطاالرحمن گرفتار ہیں یہ مقدمہ حیدرآباد کی انسداددہشت گردی کی خصوصی عدالت میں زیر سماعت ہے۔

اس کے علاوہ تیسرا مقدمہ ایف آئی آر نمبر 369/2013تھانہ گارڈن سی آئی ڈی میں درج ہے جس میں کالعدم تحریک طالبان فضل اللہ گروپ سے تعلق رکھنے والے ملزمان اسدعلی عرف بھائی جان گرفتار جبکہ طارق، یاسر، سجاد لنگڑا اور مصطفیٰ عرف جہادی عرف اسکول دادا اشتہاری قرار دیے جاچکے ہیں جبکہ مذکورہ مقدمہ جیل کمپلیکس میں زیر سماعت ہے۔ ذرائع کے مطابق مذکورہ مقدمات میں تمام مفرور ملزمان کو اشتہاری قر ار دیا جا چکا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔