یمن کی صورتحال۔۔۔۔ پاکستان کو مصالحتی کردار ادا کرنا چاہیئے

احسن کامرے  جمعـء 10 اپريل 2015
سیاسی و عسکری تجزیہ نگاروں کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: وسیم نیاز/ایکسپریس

سیاسی و عسکری تجزیہ نگاروں کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: وسیم نیاز/ایکسپریس

سعودیہ عرب کے ہمسایہ ملک یمن میں حوثی قبائل اور حکومت کے درمیان خانہ جنگی عروج پر ہے۔

سعودیہ عرب نے یمنی صدر ہادی کی درخواست پر اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر یمن کے حوثی قبائلیوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کر رکھی ہے، وہاں بمباری کی جارہی اور یمن کا فضائی کنٹرول بھی سعودیہ عرب نے سنبھال لیا ہے۔ یمن اور سعودیہ عرب میں کشیدگی کی یہ صورتحال پوری مسلم دنیاکے لیے پریشانی کا باعث ہے کیونکہ اگر یہی صورتحال رہی تو مشرق وسطیٰ کے حالات مزید کشیدہ ہوجائیں گے اور یہ خطہ میدان جنگ بن سکتا ہے۔ یہ مسلم دنیا کا مسئلہ ہے جبکہ سعودیہ عرب ہمارا برادر ملک ہے اور اس نے پاکستان سے مدد کی درخواست بھی کردی ہے لہٰذااس صورتحال میںپاکستان کے لیے خود کوالگ رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔

اس حوالے سے حکومت نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جس میں یمن جنگ میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے بحث جاری ہے اور اس اجلاس کی کارروائی گزشتہ چند دنوں سے مسلسل جاری ہے جبکہ دوسری طرف اس مسئلے کے حل کے لیے سفارتی کوششیں بھی جاری ہیں اور اس سلسلے میں ترکی اور ایران کایمن جنگ روکنے اور اس مسئلے کا سیاسی حل نکالنے پراتفاق ہوا ہے جبکہ پاکستان نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔ ’’مشرق وسطیٰ کی صورتحال‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی و عسکری تجزیہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

جنرل(ر) نشاط احمد (عسکری تجزیہ نگار)

فوج بھیجنے کا فیصلہ ابھی حکومت نے کرنا ہے اوراس کے لیے اسے تمام سیاسی جماعتوں کی رائے بھی لینا پڑے گی۔ فوج نے کسی حد تک یہ اشارہ دے دیا ہے کہ وہ مصروف ہے لہٰذا اسے کسی اور ملک نہ بھیجا جائے۔ میرے نزدیک یہ ہمارے لیے بہتر ہوگاکہ ہم اس جنگ میں شامل نہ ہوں ۔ اگر سعودیہ عرب فوج بھیجنے کا مطالبہ کرتا ہے تو تب بھی پاکستان کے لیے ایسا کرنا مشکل ہوگا کیونکہ یہ فرقہ واریت کا مسئلہ چل رہا ہے اور میرے نزدیک اس کے پیچھے ایران کاہاتھ ہے۔ یمن کی حکومت ایران کی مدد نہیں چاہتی بلکہ وہ سعودیہ عرب سے مدد مانگ رہی ہے تاہم یمن میں جوحکومت مخالف جماعت ہے وہ شیعہ اکثریت رکھتی ہے جسے ایران کا تعاون حاصل ہوسکتا ہے۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/04/111.jpg

اس کے علاوہ عبداللہ صالح جسے اقتدار سے ہٹا دیا گیا وہ کوشش کررہا ہے کہ ان میں جھگڑا کرواکر واپس اقتدار میں آجائے لہٰذا ایک آدمی کی ذاتی خواہش پوری اسلامی دنیا کے لیے ایک معمہ بن رہی ہے۔ میرے نزدیک پاکستان کو فوجی کارروائی کی بجائے اس مسئلے کو صلح صفائی سے حل کروانے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اس وقت ہماری فوج ضرب عضب و دیگر کارروائیوں میں مصروف ہے اور فوج کو وہاں سے نکالنا کسی صورت بھی بہتر نہیں ہوگا۔ سعودیہ عرب میں بہت بڑی تعداد میں یمن کے لوگ کام کرتے ہیں اس لڑائی کا ایک مقصد سعودیہ عرب کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ ایرانی حکومت صلح پسند نظر آتی ہے لیکن وہ اسلامی ممالک کے ساتھ صلح صفائی کی کوشش نہیں کررہی لہٰذاایران کو چاہیے کہ فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔

پروفیسر ڈاکٹر فاروق حسنات (سیاسی تجزیہ نگار)

یہ مسئلہ فرقہ واریت کا نہیں ہے لیکن مغرب جان بوجھ کر اسے فرقہ واریت کا نام دے رہا ہے۔ مصر مشرق وسطیٰ کا بہت بڑا ملک ہے، کچھ عرصہ قبل وہاں آزاد انتخابات ہوئے ، ’’مسلم برادر ہڈ‘‘ کے صدر مرسی کو کامیابی ہوئی اور حسنی مبارک کی فوج انہیں اقتدار دینے پر مجبور ہوگئی تھی۔ سعودیہ عرب نے پہلے دن سے ہی ان کے خلاف محاظ کھول دیاحالانکہ ’’مسلم برادر ہڈ‘‘ سنی جماعت ہے اور اس میں کوئی شیعہ نہیں تھا۔ بعدازاں اس منتخب حکومت کو ہٹایا گیااور اس جماعت کو دہشت گرد قراردے دیاگیا۔ ایسی بہت سی مثالیں ہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ لڑائی فرقہ وارنہ نہیں بلکہ مفادات پر مبنی ہے۔ یمن میں اس وقت پانچ فریق ہیں جن میں زیدی، حوثی ، صالح کے علاوہ القاعدہ ہے جس پر امریکہ ڈرون حملے کررہا ہے اور اب داعش بھی وہاں آچکی ہے۔

داعش اور القاعدہ کا سب سے بڑا دشمن حوثی ہیں، اگر حوثی کو ختم کردیا گیا تو خلاء پیدا ہوجائے گا اور پھر القاعدہ اور داعش وہاں قبضہ کرلیں گے جس سے سعودیہ عرب کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہ عرب سپرنگ تھا جس میں عوام اٹھ کھڑے ہوئے ، انہوں نے اپنے حقوق کا مطالبہ کیااور وہ کسی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوئے ۔ انڈونیشیاء میں جب عوام نے زین العابدین کو نکالا تو سعودیہ عرب نے اسے پناہ دی ، اسی طرح حسنی مبارک کے خلاف جب عوام اٹھ کھڑے ہوئے تو سعودیہ عرب نے اسے بھی سپورٹ کیا اور ہمارے ملک میں بھی تباہی سعودیہ عرب لایا ہے۔ جب بحرین میں عرب سپرنگ کے سلسلے میں عوامی تحریک چلی تو سعودیہ عرب نے ’’گلف کوآپریشن کونسل‘‘ کی آڑ میں وہاں فوج بھیجی اور پھر وہاں لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/04/24.jpg

90ء میں گیارہ ہزار پاکستانی فوج سعودیہ عرب بھیجی گئی جن میں سے پانچ ہزار فوج تبوک جبکہ چھ ہزارفوج یمنی بارڈر پر تعینات کی گئی، اس کے علاوہ عراق نے جب کویت پر حملہ کیا تو یمن اوراردن نے اس کا ساتھ دیاجس کے بعد سعودیہ عرب نے اپنے ملک میں کام کرنے والے ہزاروں یمنی مزدوروں کو نکال دیا اور انہیں اس بات پر بھی سعودیہ عرب سے نفرت ہے۔ اس کے علاوہ نجران کے علاقہ پر سعودیہ عرب نے قبضہ کیا ہوا ہے اور یمنی یہ مسئلہ بھی اٹھاتے رہتے ہیں ۔ایک ہفتہ قبل ریاض میں میٹنگ بلائی گئی جس میں حوثی اور صالح کو بھی بلایا گیا لیکن پھر سعودیہ عرب نے اچانک یمن پر حملہ کردیا میرے نزدیک سعودیہ عرب کوان دونوں گروپوں میں صلح کروانی چاہیے تھی اور بات چیت سے معاملہ حل کرنا چاہیے تھا کیونکہ اسی میں سعودیہ عرب کا فائدہ ہے۔ اس وقت دنیا میں سافٹ پاور زیادہ کامیاب ہے ، سعودیہ عرب کے پاس مکہ اور مدینہ ہے اور اس سے بڑی سافٹ پاورکوئی ہو نہیں سکتی لہٰذااسے چاہیے کہ اپنی سافٹ پاور استعمال کرے۔

اس کے علاوہ سعودیہ عرب نے اربوں ڈالرکا اسلحہ امریکہ سے خریدا ہے تو پھر اسے کس بات کا ڈر ہے۔ سعودیہ عرب یمن میں بمباری کررہا ہے جس کے نتیجہ میں بچے اور خواتین بہت بڑی تعداد میں ہلاک ہورہے ہیں جبکہ حوثی اب ان علاقوں میں نہیں ہیں۔ جب اس طرح کی کارروئیاں کی جاتی ہیں تو قوم پرستی کی سوچ کو فروغ دیا جاتا ہے اور پھرسب اپنے ملک کی سالمیت کے لیے فرقہ و نسل سے بالا تر ہوکراپنے دشمن کے خلاف متحد ہوجاتے ہیں ۔افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں دشمن کے خلاف تمام قبائل اکٹھے ہوگئے اور انہوں نے مل کر انگریزوں کا مقابلہ کیا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ عراق، اومان ، چین اور روس نے یمن کے خلاف اس جنگ کی مخالفت کی ہے جبکہ ترکی اس پر خاموش ہے۔میرے نزدیک پاکستان کوفوج نہیں بھیجنی چاہیے بلکہ ترکی و دیگر اسلامی ممالک کو ساتھ ملا کر اس معاملے کوبات چیت سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

ڈاکٹر اعجاز بٹ (سیاسی تجزیہ نگار)

مجموعی طور پر مسلم دنیا میں انتشار بڑھتا جارہا ہے اور پاکستان ان ممالک میں سے ہے جہاں فرقہ واریت ایک بڑامسئلہ ہے۔ سعودیہ عرب کا یمن کے ساتھ 1800 کلومیٹر کا بارڈر ہے اور دونوں ہمسایہ ملک ہیں۔بظاہر تو یمن میں دو متحرک گروپوں کے درمیان لڑائی نظر آتی ہے جس میں سنی گروپ سابق صدر عبداللہ صالح کا حمایتی ہے جبکہ شیعہ گروپ موجودہ صدر منصور ہادی کو سپورٹ کررہا ہے لیکن فرقہ واریت نے اس وقت پوری مسلم دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ،مصر،عراق،لیبیا اورخود پاکستان میں بھی فرقہ واریت ہے جس میں ایک طرف سعودیہ عرب جبکہ دوسری طرف ایران ہے۔ ایران وسطی ایشیاء میں ہرجگہ شیعہ فرقہ کے ساتھ تعاون کررہا ہے جبکہ سعودیہ عرب سنی فرقہ کو سپورٹ کررہا ہے۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اس فرقہ واریت سے مسلم دنیا کے وسائل ضائع ہورہے ہیں جس کا کا فائدہ صرف امریکہ کو ہورہا ہے کیونکہ وہ مسلم دنیا کو اپنا اسلحہ بیچ رہا ہے اوراس طرح اس کی معیشت بہتر ہورہی ہے۔

اس کے علاوہ اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا ہمیشہ سے یہودیوں کی اولین ترجیح رہی ہے اور اس سلسلے میں مشرق وسطیٰ کی دوبارہ سے نقشہ بندی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کا مقصد مسلم ممالک کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرکے انہیں کمزورکرنا ہے تاکہ کوئی بھی اسلامی ملک اسرائیل کیلئے چیلنج نہ بن سکے۔ تاریخ میں دیکھیں تو ہمیشہ مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان شیعہ سنی فسادات سے ہوا ہے اور بدقسمتی سے اس وقت ایسی کوئی لیڈر شپ نظر نہیں آرہی جو مسلم دنیا کے ممالک کو اس سازش کا احساس دلائے کہ اس سے ہمارے اپنے ہی لوگوں کا خون بہہ رہا ہے اور ہمارے وسائل ضائع ہورہے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ مسلم دنیا میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے، ذوالفقار علی بھٹو نے مسلم دنیا کو لیڈر شپ فراہم کی، انہوں نے سب کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کوشش کی اور اس حوالے سے ان کی کوششیں بڑی اہم تھیں۔

ماضی میں جب ایران اور عراق میں جنگ ہوئی جس کے پیچھے بھی مغربی سازشیں کارفرما تھیں اور جنہوں نے سنی اور شیعہ ریاست کے درمیان تنازعہ کھڑا کردیااور پھر8سے 10سال تک مسلمانوں کا خون بہتا رہا جبکہ مغرب کی اسلحہ کی فیکٹریاں چلتی رہیں اور دونوں تیل پیدا کرنے والے مسلم ممالک اپنی دولت کا بڑا حصہ ان سے اسلحہ خریدنے پر لگاتے رہے۔ اس جنگ کے خاتمے کیلئے پاکستان نے ’’او آئی سی ‘‘ کا پلیٹ فارم استعمال کیا اور جنرل ضیاء الحق سفارتی کردار ادا کرتے ہوئے متعدد مرتبہ ایران گئے تاکہ ایران اور عراق کی لیڈر شپ کو ایک میز پر لایا جاسکے گو کہ اس وقت افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے ایران حکومت کو تحفظات تھے اور وہ جنرل ضیاء الحق کو پسند نہیں کرتی تھی لیکن انہوں نے 8سال تک اس مسئلے کے حل کیلئے کوشش کی۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/04/32.jpg

اسی طرح جب ’’کیمپ ڈیوڈ اکارڈ‘‘ ہوئی جس کے بعد ’’او آئی سی‘‘ سے مصر کی رکنیت معطل کردی گئی، پھر کاسابلانکا میں جوکانفرنس ہوئی اس میں جنرل ضیاء الحق نے کہا کہ مغربی طاقتیں مسلم دنیا کو تقسیم کرنا چاہتی ہیں لہٰذا ہمیں ان کی اس سازش کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور اس کے بعد ’’اوآئی سی‘‘ میں مصر کی رکنیت بحال کردی گئی جس کا کریڈٹ پاکستان کو جاتا ہے کہ اس نے مسلم دنیا کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے اور اس لحاظ سے اس کی اہمیت بھی زیادہ ہے۔

اس وقت پاکستان کو بڑی نازک صورتحال کا سامنا ہے کیونکہ ایک طرف ایران ہے جس کے ساتھ ہمارا بارڈر لگتا ہے اور ہم اس سے ناراضگی کے متحمل نہیں ہوسکتے جبکہ دوسری طرف سعودیہ عرب ہے جس کے ساتھ ہمارے تعلقات کی دو جہتیں ہیں، اول یہ کہ ہمارا روحانی تعلق ہے، ہر پاکستانی کے لیے سعودیہ عرب (مکہ، مدینہ) کی سرزمین کی بہت اہمیت ہے اور کوئی شخص بھی نہیں چاہے گا کہ کوئی قوت مقدس مقامات کی طرف آئے۔دوسرا یہ کہ سعودیہ عرب کے ساتھ ہمارادوستی کا تعلق بھی ہے۔ جب ہم ایٹمی طاقت بنے تو سعودیہ نے ہمیں کئی سالوں تک مفت تیل فراہم کیا، پھر کئی سالوں تک آدھی قیمت پر تیل دیتا رہا، 65ء اور 71ء کی جنگ میں اس نے ہماری مدد کی اوراس کے علاوہ ہر مشکل میں ہمارا ساتھ دیا لہٰذا سعودیہ عرب یہ سمجھتا ہے کہ جب بھی اسے کوئی خطرہ ہوگا تو پاکستان اس کا ساتھ دے گا۔

اس وقت ایران اور سعودیہ عرب پراکسی وار میں ہیں اور دونوں متحرک گروپوں کی مدد کررہے ہیں۔ ان دونوں ممالک کے اختلاف سے پوری اسلامی دنیا کو نقصان ہورہا ہے جبکہ اس کا فائدہ اسرائیل اور امریکہ اٹھا رہا ہے۔ میرے نزدیک اسلامی دنیا کو اس کا ادراک کرنا ہوگا اور اس میں پاکستان سیاسی اور سفارتی کرادر ادا کرسکتا ہے۔ میرے نزدیک فوج بھیجنا دانشمندی نہیں ہوگی، اس معاملے کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اگر فرقہ واریت کی نئی لہر آئی تو اس سے بہت نقصان ہوگا اور اس کے اثرات ہماری اندرونی حالت پر ہوں گے۔ اس وقت حالات اس چیز کی اجازت نہیں دیتے کہ ہم اپنی فوج کو باہر بھیجیں اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج ضرب عضب میں مصروف ہے اور اس میں کامیابی کے لیے ابھی وقت لگے گا اور اگر ایسی صورتحال میں ایک اور محاظ کھولا گیا تو اس سے پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں گے جبکہ ماضی کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے کہ ہم نے پراکسی وار میں شامل ہوکر بہت نقصان اٹھایا۔

میرے نزدیک اس وقت پاکستان کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنے میں اپنا کردار ادا کرے، اس کے علاوہ فوری طور پر ’’او آئی سی ‘‘ کی میٹنگ بلائی جائے کیونکہ ایران بھی اس کا فریق ہے اور عرب لیگ کے حوالے سے بھی پاکستان کو کوشش کرنی چاہیے تاکہ یہ معاملہ سیاسی و سفارتی طریقے سے حل ہوجائے تاہم اگر سعودیہ عرب پاکستان سے براہ راست مدد مانگے اور فوج بھیجنے کی اپیل کرے تو پاکستان کو پارلیمنٹ کے مشترکہ فیصلے پر عمل کرنا چاہیے لیکن اگر ایسا نہ کیا گیا تو فرقہ واریت کے ساتھ ساتھ یہ سیاسی مسئلہ بھی بن سکتا ہے جو کسی لحاظ سے بھی ملکی سلامتی کے لیے بہتر نہیں ہوگا۔

پروفیسر شبیراحمد خان (سیاسی تجزیہ نگار)

مشرق وسطیٰ کی دوبارہ سے نقشہ بندی ہونے جارہی ہے جو تیونس سے شروع ہوئی اور اب یہاں بھی ایساہورہاہے ۔ یمن پر شیعہ حکومت کی تاریخ ایک ہزار سال پرانی ہے۔پہلے یمن سلطنت عثمانیہ میں تقسیم ہوگیااورکچھ حصہ برطانیہ کے پاس تھا ۔ اب کچھ عرصہ قبل ہی انہیں آزادی ملی جس کے بعد دونوں حصے اکٹھے ہوگئے لہٰذا یہ جو ہزار وںسال کا جھگڑاہے اسے ختم ہونے میں وقت لگے گا۔ میرے نزدیک اسے شیعہ سنی کی لڑائی نہ کہا جائے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ایران اور عراق دونوں شیعہ ممالک تھے لیکن ان کے درمیان بھی کافی عرصہ جنگ رہی لہٰذا یہ سیاسی مسئلہ ہے اور مشرق وسطیٰ میں ابھی تک جمہوریت نہیں آسکی۔ یمن میں گزشتہ دو دہائیوں سے شیعہ اقلیت اور سنی اکثریت کے درمیان سیاسی طور پر مسئلہ حل کروانے کی کوشش کی جارہی ہے لہٰذا جہاں بھی سیاسی ڈویلپمنٹ کی کوشش ہورہی ہو وہاں فرقہ واریت نہیں دیکھی جاتی۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/04/42.jpg

مشرق وسطیٰ میں سیاسی ڈویلپمنٹ نہیں ہوسکی جس کی وجہ سے یہ مسائل سامنے آرہے ہیں۔ یمن کے مغرب اور شمال کے لوگوں کو احساس محرومی ہوا کہ وہ بہت پیچھے رہ گئے ہیںا ور ان کا استحصال ہورہا ہے جس کے بعد انہوں نے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا جس کے پیچھے اقتصادی محرکات بھی شامل ہیں۔یہ مسئلہ جب شروع ہوا تو ملازمت، گورننس و دیگر مسائل کے حوالے سے تھا لیکن اب اسے فرقہ واریت کا نام دیا جارہا ہے۔ ایران میں جب انقلاب شروع ہوا تووہ مذہبی نہیں تھا اس کے پیچھے کمیونٹیز، ٹریڈرزاور کسان تھے لیکن بعدازاں یہ اسلامی انقلاب بن گیا۔ سعودیہ عرب میں بھی جمہوریت نہیں ہے وہاں بادشاہت کا نظام ہے ،اگر ان کے پڑوسی ملک میں سیاسی ڈویلپمنٹ ہوجاتی ہے تو سعودی نظام حکومت کو خطرہ ہے لہٰذا وہ اس مسئلے کو سیاسی اور سکیورٹی کے حوالے سے لے رہے ہیں اور ہمیں بھی اسے سیاسی منظر نامے میں ہی دیکھنا چاہیے۔

میرے نزدیک اس مسئلے کو سیاسی طریقے سے حل کرنا چاہیے اور ان ممالک میں جمہوری نظام قائم کرنا چاہیے۔ سعودیہ عرب کے پاس جدید ٹیکنالوجی اور وہ سارا اسلحہ موجود ہے جو امریکہ کے پاس ہے اس لئے یہ واضح نہیں ہے کہ وہ پاکستان سے کس قسم کی مدد چاہتا ہے۔ سعودیہ عرب کے ساتھ 10ممالک کا الائنس ہے لہٰذا یمن کا مسئلہ بین الاقوامی بن جائے گا اور ایران، روس اور چین بھی اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔ سعودیہ عرب ہمیشہ سے ہماری مدد کرتا آیا ہے ، ہماری حکومت نے بھی کہا ہے کہ سعودیہ عرب کی سالمیت کے لیے ساتھ دیں گے لیکن وہ یہ بھی سمجھتی ہے کہ اس میں مخالفت ہوسکتی ہے۔ میرے نزدیک سعودیہ عرب جب بھی مطالبہ کرے گا پاکستان اسے مدد فراہم کرے گاکیونکہ سعودیہ عرب اکیلا نہیں ہے اس کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔