کوڑھی آرہے ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 11 اپريل 2015

ہمیں جو کا م کرنے چاہیں ہم کبھی نہیں کرتے ہمیشہ وہ کام کرتے ہیں جو ہمیں نہیں کرنے چاہیں ظا ہر ہے کہ آپ وہ ہی کام کریں گے جس کی آپ کو ضرورت ہے اور جس کی آپ میں صلاحیت موجود ہے اگر آپ وہ کام کریں گے جس کی آپ کو کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی آپ میں اسے کرنے کی سر ے ہی سے صلا حیت موجو د نہیں ہے تو پھر اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ بتانے کی ضرورت نہیں ہے آج جو نتیجہ ہمارے سامنے منہ پھاڑے کھڑا ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم اپنا کام چھوڑ کر دوسروں کے کام کرنے کی غلطی کر بیٹھے ہیں اور آج منہ لٹکائے حیرت زدہ ایک دوسرے کو تک رہے ہیں ہم اپنے قاتل خود ہی نکلے ہم وہ شہید ہیں جسے تعصب ، نفرت ، نااہلی، ناسمجھی نے مل کر قتل کیا۔

ایک دفعہ نہیں ہزار دفعہ لفظوں، دلائل، ہندسوں اور نقشوں سے یہ ثابت کیا گیا ہے اور دنیا اسے قبول کرتی ہے کہ پاکستان تمام مہذب ممالک میں آج کل سب سے زیادہ مفلس ہے۔ ہماری ساری تدبیریں الٹی پڑ گئی ہیں ہم اپنی نااہلی اور کم عقلی کی وجہ سے دنیا بھر میں مشکوک نمبر 1 بن کے رہ گئے ہیں۔ ہماری پہچان دنیا بھر میں ایک انتہائی رجعت ، بنیاد اور قدامت پرست اور دہشت گردی Export کرنے والے ملک کی حیثیت سے ہوچکی ہے ہم دنیا بھر میں جانے پہچانے لوگ ہیں اوراس پر ہمیں فخر کرنا چاہیے کہ آخر کار سالوں کی انتھک محنت اور مسلسل جدوجہد کے بعد ہم دنیا بھر میں وہ مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو کبھی ہمارا خواب ہوا کرتا تھا ہمارے کوتاہ اندیشوں نے ملک کو ایک ایسی بند گلی میں دھکیل دیا ہے جہاں سے باہر نکلنے کے تمام راستے بند ہیں۔ اپنے آپ کو اس وقت پیٹنے کو دل چاہتا ہے جب ہم بضد ہوتے ہیں کہ ہمارا جیسا دور اندیش، دانش مند اور عقل مند کوئی دوسرا نہیں۔

ہم مسلسل اس خوش فہمی میں جی رہے ہیں کہ اپنے علاوہ دنیا بھر کے تمام مسائل کا حل ہمارے پاس موجود ہے ہم ہر وقت ہر جگہ اپنی ٹانگ اڑانے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اپنے ملک میں جاری جنگ جو خود ہمارے اپنے لیے لڑی جا رہی ہے اس کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور دوسروں کی جنگ میں کودنے کے لیے بیتاب ہیں اپنے گھر میں لگی آگ بجھانے کے لیے ہمارے پاس فرصت نہیں ہے اور دوسروں کی آگ بجھانے کے لیے مرے جارہے ہیں جو اپنے کام کرنے ضروری ہیں ان کی طرف دھیان اورتوجہ دینے کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہے اور بین الاقوامی الجھے مسائل کو سلجھانے کے لیے ہمارے پاس فرصت ہی فرصت ہے۔

ٹی ، ایس ایلیٹ اپنے ایک مضمون ’’شاعری کا سماجی منصب ‘‘ میں کہتا ہے کہ ’’ ہمارا شعوروادراک جیسے جیسے گردو پیش کی دنیا بدلتا ہے خود بھی بدلتا رہتا ہے مثلاً ہمارا شعور و ادراک وہ نہیں ہے جو چینیوں کا ہندوؤں کا تھا بلکہ وہ اب ویسا بھی نہیں ہے جیسا کئی سوسال قبل ہمارے اجداد کا تھا یہ ویسا بھی نہیں جیسا ہمارے باپ دادا کا تھا بلکہ ہم خود بھی وہ شخص نہیں ہیں جو ایک سال پہلے تھے۔ ‘‘

آئیں ہم ذرا ایک لمحے کو رک کر اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ہمارا شعور پستی کے کیچڑ میں کیوں دھنس چکا ہے ۔ آج ہم جیسے ہیں کیا سالوں پہلے بھی ہم ایسے ہی تھے یا اس سے مختلف تھے جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں تو ہم پر یہ حیرت انگیز راز کھلتا ہے کہ ہم سالوں پہلے ایک باشعور ، عقل مند ، دانش مند اور سوجھ بوجھ رکھنے والی قوم تھے جو غوروفکر کرتے تھے سوچتے تھے تو پھر یہ کیا ہوا کہ ہم کیا سے کیا بن گئے، آیا اس کے پیچھے بھی کوئی بین الاقوامی سازش تھی کیا یہ بھی کام غیر مسلموں نے ایک بڑی پلاننگ کے ساتھ سر انجام دیا یا اس کارخیر کے ہم خود ہی ذمے دار ہیں ۔مارکس نے کہا تھا ’’ چونکہ انسان اپنے ماحول سے تشکیل پاتا ہے اس لیے اس کے ماحول کو انسانیت پر مبنی ہونا چاہیے وحشت پر مبنی سماج وحشی ہی تخلیق کرتا ہے۔ ‘‘

اصل میں ہم نے سالوں پہلے روشن خیالی اورخرد افروزی کو دیس بدرکردیا تھا فکر اور تدبر کی روشنی کو دیس کے لیے نقصان دہ قرار دے دیا تھا۔ عقل وفہم پر پہرے بٹھا دیے تھے فکر کرنے اور سوچنے والوں پرکفر و الحاد کے فتو ے جاری ہوجایا کرتے تھے علم، عقل ودانش کو ہم نے ایسا شجر ممنوعہ قرار دے دیا تھا کہ جس کا پھل کھاتے ہی انسان دین سے خارج ہوجایا کرتا تھا جب کہ پورے ملک میں صرف جہل اور جہالت کی بیلوں کو پروان چڑھانے کی اجازت حاصل تھی اور جب سے ہم سب آج تک صرف جہالت کی مسحورکن دھنوں پر ناچ رہے ہیں اور جب تھک کر خستہ و درماندہ ہوکر ہانپنے لگتے ہیں تو گر پڑتے ہیں پھر اٹھتے ہیں اور پھر ناچنے لگتے ہیں ہم وہ کنویں کے مینڈک ہوگئے ہیں جن کے لیے بس اتنا ہی آسمان ہے جتنا کنویں کے اندر سے نظر آتا ہے اب اس صورتحال میں اپنے آپ پر غصہ کریں یا ترس کھائیں اپنے آپ کو ماریں یا اپنے آپ پر روئیں کیا کریں آپ ہی بتائیں اصل میں ہم سب کو جہالت، تنگ نظری، وحشت، نفرت، تعصب، وہم، توہمات کا کوڑھ لگ چکا ہے ہم سب کوڑھی بن چکے ہیں اور سارا وقت اپنے اپنے کوڑھ کو نوچتے رہتے ہیں۔ اور یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ہم مریض بن چکے ہیں۔

ایسے مریض جن سب کے گلوں میں گھنٹی بندھی ہوئی ہیں جس کی آواز سن کر پوری دنیا جان جاتی ہے کہ کوڑھی آرہے ہیں۔ میرے ہم وطنو میر ے بھائیوں یہ وقت رونے کا ہے چیخنے کا چلانے کا ہے خدا سے معافی مانگنے کا ہے تاکہ خدا ہم پر رحم فرمائے اورہمارے گناہ معاف فرمائے تاکہ ہمیں اس کوڑھ سے نجات حاصل ہو جائے اور ہم سب ایک خوشحال ، صحت مند زندگی گذار سکیں ایک ایسے سماج میں رہ سکیں جہاں عقل و فہم پر پہرے بیٹھے ہوئے نہ ہوں جہاں علم و دانش کا راج ہو جہاں لوگ ایک دوسرے سے نفرت نہیں بلکہ پیار کریں جہاں سوچنے اور فکر کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہو اور ہر شخص اپنے عقیدے کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کرسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔