سندھ سب سے آگے

جاوید قاضی  ہفتہ 11 اپريل 2015
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

خیر سے خان صاحب حلقہ 246 سے بخیر وعافیت گزرگئے، اس سے پہلے ایسی روایت نہ تھی۔ مگر ضروری نہیں کہ وہ اس حلقے سے جیت بھی جائیں یہ اور بات ہے کہ متحدہ کو اب کی بار بہت شفاف الیکشن کا سامنا ہے۔ اور اگر جماعت اسلامی سے تحریک انصاف کا کوئی الحاق ہوتا ہے تو پھر مقابلہ کانٹے کا ہوگا۔ دینے والوں نے ایک طرف ہماری بھابی کو سونے کا سیٹ دیا تو ادھر ہی دوسری طرف ان کے کارکنوں کی چھترول بھی کی۔ یہ وہی حلقہ ہے کہ جہاں ان کا نائن زیرو کے نام سے مرکزی دفتر ہے۔ جناح کے نام سے ایک پارک بھی ہے جوکہ سچ تو یہ ہے کہ متحدہ کا اپنا آنگن ہے۔

پچھلی بار جب خان صاحب لاڑکانہ گئے تو گڑھی خدا بخش کے گڑھ میں جاکر جلسہ کرنے کی بساط نہ پاسکے اس کے برعکس اس جگہ جلسہ کیا جو شروع سے بھٹوؤں کا کوفہ رہا ہے۔ وہ انڑ خاندان والے جو دہائیوں سے بھٹوؤں کے مخالف کھڑے ہوتے ہیں اور ایک دو مرتبہ صوبائی الیکشن وغیرہ جیتے بھی ہیں لیکن پھر بھی عمران خان نے اپنے اسٹیج پر نہ ممتاز بھٹو کو بٹھانا گوارا کیا نہ لیاقت جتوئی کو پاس لائے اور نہ ہی بھٹوؤں کے خلاف بولے، باقی زرداری صاحب کو خوب سنائیں۔ اور بے چارے قائم علی شاہ کو خوامخواہ سننے کو ملا۔

کراچی آنے سے پہلے خان صاحب حیدرآباد آئے اور وہی سندھی ٹوپی پہن کر بھٹائی جو سندھ کے قومی دھارے کی روح سمجھے جاتے ہیں ان کے مزار پر حاضری دی اور آج کل سندھ کے وڈیروں سے کم فوٹو سیشن کروانا پسند کرتے ہیں۔ اس کے برعکس سول سوسائٹی یا سندھی دانشوروں کو اپنے گرد چاہتے ہیں۔ خیر وہ اس حوالے سے کتنے کامیاب جاتے ہیں وہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن مجموعی طور پر اس بات کے قوی امکانات ہیں جو خلا دیہی سندھ اور شہری سندھ میں ہیں وہ خلا اگر کوئی ختم یا کم کرسکتا ہے وہ خان صاحب ہیں۔

ایک سال میں سندھ کے اندر خصوصاً دیہی سندھ کے اندر بہت تبدیلی ہوئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ زرداری صاحب سے بلاول بھٹو ناراض ہے۔ جب لاڑکانہ میں خان صاحب نے جلسہ کیا تھا تو اس کا جواب دینے کے لیے زرداری صاحب نے بلاول بھٹو کو مہرے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس کا جلسہ کراچی میں رکھا تھا، یوں لاڑکانہ کا خان صاحب والا اثرکچھ ماند پڑگیا۔ مسلسل آٹھ سال سے قائم علی شاہ کو وزیر اعلیٰ کے عہدے پر رکھنا جن کی عمر اٹھاسی برس ہے۔ جس کی وجہ سے پوری بیوروکریسی کو چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ اور سارے وزرا وسیکریٹری، پولیس افسران وغیرہ بلاول ہاؤس سے ہدایات لیتے ہیں۔ تعلیم کا شعبہ جس زبوں حالی پر پہنچا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔

حال ہی میں قائم علی شاہ نے مظفر شجرہ کی سربراہی میں ایک کمیشن بنایا تھا کہ تعلیم کے شعبے میں جو بے قاعدگیاں ہوئی ہیں ان کی نشاندہی کرے، کمیشن نے رپورٹ پیش کی جس میں پتا چلا کہ تیرہ ہزار سے زائد اسامیاں شعبہ تعلیم میں پیپلز پارٹی کے پچھلے دور میں (جب پیر مظہر الحق تعلیم کے وزیر تھے) سات سے دس لاکھ روپوں میں بیچی گئیں۔ جوکہ تیرہ ارب روپے سے اوپرکا غبن تھا۔ ساتھ ساتھ مظفر شجرہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس میں اس وقت کے وزیر تعلیم ملوث نہیں بلکہ ضلع سطح کے تعلیم کھاتے کے اعلیٰ افسران شامل ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ہر ضلع کا جو بھی ادارہ ہے وہ اس وڈیرے کی ملکیت ہے وہاں بھرتی، تبادلہ اس کی مرضی کے بغیر ہونا ممکن نہیں۔اب کی بار ایک اور جگہ بھی انھوں نے پیسے کمانے کی ڈھونڈ لی ہے وہ ہے اسپتالوں کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے تبادلے۔ ان افسران کے پاس لوگوں کو دوائیاں اور وارڈ میں مریضوں کو کھانا فراہم کرنے کے لیے لاکھوں سے کروڑوں روپے کا بجٹ ہوتا ہے۔ وہ یہ اس افسر سے مل کر ہڑپ کر جاتے ہیں۔ ان سرکاری اسپتالوں میں اور ان سرکاری اسکولوں میں ان کے بچے نہیں جاتے وہ زمانے گئے۔

تھرکے اس بحران میں جس نے ایک سال میں پانچ سو بچوں کی جان لے لی اس کے پیچھے بھی وہ کروڑوں روپے کے بجٹ والے میڈیکل سپرنٹنڈنٹوں کی پوسٹیں تھیں جس نے لاکھوں روپے رشوت دے کر وہ پوسٹ حاصل کی تھی توکیوں دے وہ مفت میں دوائیاں ان تھریوں کو۔ آج وہ وہاں پر ہیلتھ فیسٹیول کروا رہے ہیں۔ بس کوئی بھی آسان سا کام ہو،میڈیا کو مائل بہ کرم کرنا ہو یہ وہ کام خوب جانتے ہیں۔

بچوں کی اموات کے حوالے سے آج سندھ سب سے آگے ہے۔ Diarrheaکے کیس میں بھی سندھ سب سے آگے ہے۔ یہ تو خود محکمہ صحت کی 2013 والی رپورٹ کہتی ہے۔ اس بیماری سے 2013 کو اسپتالوں میں46000 مریض داخل ہوئے۔کراچی اس بیماری کے پانی پانے میں سب سے آخر میں آتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کراچی میں پھر بھی سندھ کے دوسرے علاقوں کے حوالے سے نکاسی کا نظام بہتر ہے اور KWSB پانی کو Chloritization و فلٹریشن دوسرے اضلاع کی نسبت بہتر انداز میں کرتی ہے۔ حیدرآباد اور میرپور کے شہروں کا تو حال بہت ہی اس حوالے سے برا ہے۔ سوائے کراچی کے کسی اور سندھ بھر کی سرکاری اسپتالوں میں Ventilator والی مشینیں اول تو ہیں ہی نہیں اور اگر ہیں تو خراب پڑی ہیں۔

پاکستان میں بچوں کی اموات کے حوالے سے سب سے بڑا سبب Diarrheaہے اور اس میں سندھ سب سے آگے ہے۔ یہ آغا خان اسپتال کی رپورٹ ہے کہ سندھ میں 1000 بچوں میں سے 20 بچے Diarrhea کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ سندھ میں عورتوں کے لیے جو مروج پیمانہ ہے یہ دیکھنے کا کہ ان کو Reproductive Health کی سہولتیں میسر ہیں۔ اس لحاظ سے پاکستان دنیا میں 174 ممالک میں سے 135 نمبر پر آتا ہے اور اگر سندھ کا تخمینہ لگایا جائے تو سب سے بدترین دوسرے صوبوں کی نسبت سندھ ہے۔

اگر یومیہ دو ڈالر کو پیمانہ بنایا جائے Below Poverty Line کا تو دیہی سندھ کے 70 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے رہتے ہیں۔ 38 فیصد ویسے افراد ہیں جو 1700 سے لے کر 2100 کیلورویز (Calories) کھاتے ہیں۔ جس سے ان کا Immunityسسٹم کمزور پڑ جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ جلدی بیماریوں کے شکار ہوتے ہیں اور جلدی مر جاتے ہیں۔

ورلڈ بینک 2013 کی رپورٹ جس کا عنوان ہے ’’سندھ کے مستقبل کا تحفظ‘‘ میں یہ کہا گیا ہے کہ کل ایک فیصد آبادی ایسی ہے جس کے پاس سو ایکڑ سے زائد زمین ہے اور دیہی سندھ کی 62 فیصد آبادی ایسی ہے جس کے پاس مشکل سے پانچ ایکڑ زمین یا اس سے کم زمین ہے۔ دیہی سندھ کی 31 فیصد آبادی کو ڈرینج سسٹم کی سہولت نہیں۔ سندھ کے 55 فیصد بنیادی تعلیم کے اسکولوں کے Toilets میں پانی میسر نہیں۔اس لیے بھی دیہی غربت کے حوالے سے سندھ پاکستان میں سب سے آگے ہے۔ بیس لاکھ افراد سندھ میں یرقان کے مرض میں مبتلا ہیں۔ 20,000 افراد سندھ میں گردوں کی بیماری کی وجہ سے اموات کا شکار ہوتے ہیں۔

دوسری طرف تعلیم کا حال بھی اس سے بدتر ہے۔ آدھے سے زیادہ سرکاری اسکول بند پڑے ہیں۔ ایک لاکھ سے زائد اساتذہ سرکاری اسکولوں میں بھرتی ہیں اور آدھے اساتذہ ڈیوٹی پر نہیں آتے وہ اپنی آدھی تنخواہ سپروائزر کو رشوت میں دے دیتے ہیں اور اس طرح سپروائزر ایسی اسامی چاہنے کے لیے وڈیرے کو کمیشن دیتا ہے۔ اور پچاس لاکھ بچے اسکولوں میں رجسٹرڈ ہیں۔

صحیح کہتے ہیں زرداری صاحب کہ بلاول میں ابھی Maturity نہیں آئی اور اگر یہ Maturity کا پیمانہ آپ خود ہیں یا قائم علی شاہ ہیں تو خدا کرے ایسی Maturity نہ آئے ورنہ وہ بھی ان 18 شوگر ملز کو 36 کردیں گے دو لاکھ ایکڑ زمین کو چار لاکھ کردیں، سرے محل سے لے کر پانچ چھ اور محل بنائیں گے اور غربت سندھ میں آج کی نسبت دگنی ہوجائے گی۔ یہ ہے وہ Vaccum جو نکلتا ہوا نظر آرہا ہے لیکن کیا عمران خان خود اس Vaccum کو بھر سکیں گے کیونکہ لوگوں کے پاس ایسی کوئی مثال نہیں جس سے یہ تاثر ملے۔ خیبرپختونخوا میں ایسا نہیں۔ لیکن پھر بھی تعلیم اور صحت کے اعتبار سے خیبرپختونخوا دوسرے صوبوں سے بہتر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔