تیسری عالم گیر جنگ مسلمانوں کے خلاف لڑی جانے والی ہے؟

غلام محی الدین  اتوار 12 اپريل 2015
 سوشلسٹ قوت کے خاتمے کے بعد اب ان استعماری عالمی قوتوں کا اگلا ہدف مسلمان ممالک اور ان کی عسکری قوت اور دفاعی تنصیبات کا خاتمہ ہے۔فوٹو : فائل

سوشلسٹ قوت کے خاتمے کے بعد اب ان استعماری عالمی قوتوں کا اگلا ہدف مسلمان ممالک اور ان کی عسکری قوت اور دفاعی تنصیبات کا خاتمہ ہے۔فوٹو : فائل

اسلام آباد:  گذشتہ مئی میں تیسری عالمی جنگ سے متعلق ایک بین الااقوامی سروے سامنے آیاتھا، ذرا تفصیل ملاحظہ ہو! 

٭ کیا، امریکا تیسری عالمی جنگ چھیڑ سکتا ہے؟
ہاں! 23.6 فی صد کا جواب ۔
٭ امریکا تیسری عالمی جنگ نہیں چھیڑے گا؟
ہاں! 66 فی صد کا جواب۔
٭ امریکا نے اپنی پالیسی تبدیل نہ کی تو تیسری عالمی جنگ ضرور چھڑ جائے گی؟
ہاں! 10.4 فی صد کا جواب۔

ان سوالات کے حقیقی جوابات دینا تو مشکل ہے لیکن اس سروے نے عالمی طاقتوں کے سوچنے کے انداز کی البتہ وضاحت ضرور کر دی۔ اس رائے شماری میں 106 افراد نے حصہ لیا تھا، جو امریکا میں رہتے تھے۔

اب ستمبر 2013 کی سنیے! خبر آئی تھی کہ شام کے نائب وزیرخارجہ فیصل مقداد نے امریکا کے حملے کی صورت میں اسد حکومت کی تیاریاں مکمل ہونے کا دعویٰ کیااور کہا کہ شامی حکومت اپنا موقف تبدیل نہیں کرے گی، اگر تیسری عالمی جنگ چھڑتی ہے تو چھڑجائے۔

انھوں نے فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا تھا کہ شامی حکومت ممکنہ فوجی مداخلت کو روکے گی کیوں کہ کوئی بھی شامی اپنے ملک کی آزادی قربان نہیں کرسکتا۔ انھوں نے کہا کہ شام نے کسی بھی جارحیت کا بدلہ چکانے کے لیے ہر اقدام کر لیا ہے تاہم انھوں نے اس حوالے سے کوئی تفصیل بتانے سے گریز کیا تھا۔

دریں اثنا امریکی صدر براک اوباما نے اس کے ردعمل میں کہا تھاکہ امریکا نے شام کے خلاف جنگ کا فیصلہ کر لیاہے اور اس کے بعد تردد میں مبتلا کانگریس کے اراکین کو کھلا چیلنج کیا کہ وہ شام کے خلاف فوجی کارروائی کے منصوبے کی منظوری دیں ورنہ دوسری صورت میں امریکا کی بین الاقوامی آن بان کے علاوہ اس کا اعتبار بھی داؤ پر لگ جائے گا۔

اس سے قبل سویڈن کے دورے کے موقع پر صحافیوں سے گفت گو کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ عالمی برادری شام میں بربریت کے بعد خاموش تماشائی نہیں بنی رہ سکتی، اس وقت میری ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے بل کہ یہ عالمی برادری ہی ہے، جس کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔

انھوں نے روس کے شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں بھی جی 20 سربراہ اجلاس سے ایک روز قبل اس امید کا اظہار کیا تھا کہ روسی صدر ولادی میر پیوتن اب اپنے اتحادی بشارالاسد کی حمایت ترک کردیں گے۔ امریکی صدر کے اس بیان سے قبل ولادی میر پوتین نے کہا تھاکہ اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر شام کے خلاف کوئی بھی فوجی کارروائی غیر قانونی ہوگی ، انھوں نے امریکا کا یہ دعویِٰ تسلیم کرنے سے انکار کیا کہ شامی حکومت نے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے۔

اوباما کے اس موقف ایک روسی رکن پارلیمنٹ نے کہا تھا کہ امریکا تیسری عالمی جنگ چاہتا ہے۔ روسی پارلیمنٹ دوما کے رکن یوگینی فیودوروف کا کہنا تھا کہ امریکا دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے لیے تیار کر رہا ہے، اس کا منصوبہ ہے کہ تمام مقامی جنگوں کو یک جا کر دیا جائے، مثلاً امریکا جب دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بات کرتا ہے۔

تو درحقیقت وہ شدت پسندی اور دہشت گردی کا بہانہ بنا رہا ہوتا ہے مگر اپنی اور اپنے حلیفوں کی دو رُخی بھول جاتا ہے، اسی لیے دنیا تیزی سے عدم استحکام کی طرف جا رہی ہے، جس کا انجام تیسری عالمی جنگ پر ہی ہوگا۔ ماضی میں سوویت یونین نے افغانستان میں امریکا کی پراکسی وار سے نمٹنے کے بجائے اپنی توجہ مجاہدین اور اسامہ بن لادن پر مرکوز رکھی۔

جس کے نتیجے میں سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ سوویت یونین کو انجام تک پہنچانے کے بعد اب امریکا ایک نئی عالمی جنگ کی تیاری کے سلسلے میں تمام مقامی تنازعات اور جنگوں کو یک جا کرنے اور مطلوبہ ممالک کو عدم استحکام کی صورت حال سے دوچار کرنے پر توجہ دے رہا ہے۔ امریکا نے ڈرامائی انداز میں دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف فنڈنگ میں اضافہ کر دیا ہے، اب امریکی بغیر کسی تفریق کے سرگرم ہو چکے ہیں۔

وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ اتحادی ہیں یا مخالف؛ وہ اپنے اہداف کے لیے دل کھول کر فنڈنگ کررہے ہیں۔ آج پوری دنیا کے شوریدہ حالات تیسری عالمی جنگ کا عندیہ دے رہے ہیں۔

اب بھی اگر پاکستان ، انڈیا، افغانستان ، ایران، سعودی عرب، اسرائیل، امریکا اور یورپی دنیا نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو کسی بھی وقت تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہوسکتا ہے۔ تمام ممالک کوفی الفور زمینی حقائق کی روشنی میں مشاورت سے کام لے کر مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ اس جنگ سے بچنے کے لیے دنیا کے ہرذی شعور فرد کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہونا چاہیے کہ ’’عقل وشعور سے کام لو ، دنیا کو تیسری عالمی جنگ سے بچاو‘‘۔

گذشتہ سال ہی متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے لندن کی یونی ورسٹیوں اورکالجوں کے طلبا وطالبات سے جنوری 2013 میں گفت گو کرتے ہوئے ، پاکستان سمیت دنیا بھر کی چھوٹی بڑی قوتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اس صدی میں اپنی طاقت پر زعم اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی بچکانہ حرکت چھوڑ دیں۔

الطاف حسین نے بین الاقومی حالات اور شام کے ساحلی علاقوں میں پانچ جدید طرز کے جنگی جہازوں کی تعیناتی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا، ’’اگر ہم نے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا طرزعمل اختیار نہ کیا اورایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں لگے رہے، تو میں متنبہ کرتا ہوں کہ طاقت کے زور پرکیے جانے والے فیصلوں سے تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہوسکتا ہے‘‘۔

پھر 2015 شروع ہوا تو فرانس میں توہین آمیز خاکے شائع کرنے والے جریدے پر حملے کے بعد تیسری عالمی جنگ کی باتیں اب پھر زور و شور سے شروع ہو چکی ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے فرانسیسی میگزین میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کا عمل کرکے نہ صرف مسلمانوں کواشتعال دلانے کی کوشش کی جارہی ہے بل کہ دنیا کوتیسری عالمی جنگ کی طرف دھکیلاجارہاہے۔

اگر اس طرح کی گستاخیاں جاری رہیں اور قوموں کے جذبات قابوسے باہرہوگئے توکہیں تیسری عالمی جنگ شروع نہ ہو جائے لہٰذا ملت اسلامیہ اس معاملے پر ہوش مندی کامظاہرہ کرے اور اپنی کم زوریوں کا جائزہ لے کر اپنے اندر اتحاد پیدا کرے۔ دہشت گردی کرنے والوں اور گستاخانہ کارٹون شائع کرنے والوں میں کوئی فرق نہیں، توہین آمیز اور گستاخانہ خاکوں کی اشاعت قابل مذمت ہے اس کی پرامن طریقے سے جلسے جلوس اور احتجاجی مظاہروں سے جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔

ایک مغربی لطیفہ سُنیے اور ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کیجیے کہ ایسا کیوں ہے؟ ’’ بْش اور اوباما ایک ریسٹورینٹ میں بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے، ایک شخص نے پوچھا ’’آپ لوگ یہاںکیا کر رہے ہیں؟ بْش: ہم دونوں تیسری عالمی جنگ کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

اس نے حیرت سے کہا: اچھا مگر اس جنگ کا انجام کیا ہوگا؟ بْش: اس جنگ میں ہم 140 ملین مسلمانوں کے علاوہ ایک خوب صورت لڑکی کو بھی مار دیں گے۔ اس شخص نے پھر حیرت سے کہا: لیکن اس میں ایک خوبصورت لڑکی کو مارنے کیا ضرورت ہے؟ بْش اوباما کی طرف مْڑا اور بولا: دیکھا! میں نہ کہتا تھا، 140 ملین مسلمانوں کے مرنے کی پرواہ کسی کو بھی نہیں ہوگی‘‘۔

مگر کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ تیسری عالمی جنگ کی شروعات تو اسی دن ہوگئی تھیں جب 1988 میں جینیوا میں روس نے معاہدے پر دست خط کرکے چالیس سالہ سرد جنگ میں اپنی شکست اور امریکا کی کام یابی کا اعلان کر دیا تھا۔ روس کے اس اعتراف شکست کے ساتھ ہی دنیا دو طاقتی نظام کے توازن سے محروم ہوکر امریکا کے انگوٹھے تلے آگئی تھی۔

 

امریکا کو عالمی سپر پاور کے طور پر نئی استعماری حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت تھی، جو تین امریکی اداروں (نیشنل سیکیورٹی کونسل، پینٹا گون اور سی آئی اے) نے مل کر مرتب کی اور اکتوبر 1990 میں صدر جارج بش نے اپنے خطاب میں اس کا اعلان بھی کیا ۔ اس اعلان میں امریکی صدر نے پوری دنیا کے لیے نئی فوجی، سیاسی اور اقتصادی حکمت عملی کے خطوط کا تعین کیا ۔

نیو ورلڈ آرڈر نامی اس اعلان کو بظاہر تو اعلان قیام امن، اقتصادی ترقی اور جمہوری حکومتوں کے قیام جیسے خوبصورت الفاظ پر مشتمل قرار دیا گیا تھا مگر ہاتھی کے یہ دانت محض دکھانے کے تھے۔ بعد ازاں مارچ 1991 میں امریکن نیشنل سیکیوریٹی کونسل کی سفارشات سامنے آئیں، جسے دنیا کے کئی اخبارات نے شائع کیا۔ ان تفصیلی سفارشات میں واضح طور پر امریکا نے اپنے اتحادیوں اور حریفوں کی نشان دہی کردی تھی۔

نیو ورلڈ آرڈر کی ان سفارشات میں دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا گیا تھا کہ خلیجی مسلمان ریاستوں میں وہ حکومتیں تبدیل ہوں گی، جو امریکی مفادات کے خلاف ہیں نیز مشرق وسطیٰ کی ثقافت کو خاطر خواہ تبدیل کرکے مغربی سانچے میں ڈھالنے کا عندیہ دیا گیا اور اس اعلان میں اسلامی ممالک کے نام لے کر قابل قبول تبدیلیوں کا تذکرہ کیا گیاتھا۔

یہ تبدیلیاں سیاسی اور ثقافتی سطح پر کی جانی ہیں اور اصل میں ان کے ذریعے اسرائیل کے لیے خطے میں نرم گوشہ تلاش کرنے اور اس کی چودھراہٹ کا اعلان مقصود تھا، یہ ہی گریٹر اسرائیل کا منصوبہ بھی ہے۔گریٹر اسرائیل کے دیرینہ نقشے میں سعودی عرب سمیت اکثر مسلم خلیجی ریاستیں شامل ہیں۔

اس منصوبے کو کام یاب کرنے کے لیے جو روڈ میپ طے کیا تھا، اس میں شدت پسند اسلامی تحریکوں کا خاتمہ اور ان کے درمیان پھوٹ ڈالنا اور خانہ جنگی کا پروگرام بھی شامل تھا۔ گذشتہ دو سال میں جو زمینی حقائق تبدیل ہوئے، وہ یہ ہی ہیں مگر ہوا یہ کہ مصر، لیبیا، عراق اور مغرب سمیت عرب ممالک میں امریکی مخالفت محدود ہونے کے بجائے قوت پکڑ رہی ہے اور امریکہ کی مخالفت ایمان کا حصہ بنتی نظر آرہی ہے۔

بعض تجزیہ نگار ان ممالک میں القاعدہ کے اثر و رسوخ کو امریکی حکمت عملی کا حصہ قرار دیتے ہیں جب کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ شام کی شورش میں جن باغیوں کو سرکاری طاقت کے ساتھ لڑنے کے لیے اسلحہ ملا، وہ براہ راست اسرائیل اور امریکا کی طرف سے آیا جب کہ افغانستان اور پاکستان سمیت پوری دنیا میں امریکا جن بنیاد پرستوں اور انتہا پسندوں کے ساتھ آج لڑ رہا ہے، وہ بھی شامی باغیوں کی طرح ایک خاص عقیدے کے لوگ ہیں۔ امریکا کہیں تو انہیں اسلحہ دے رہا ہے اور کہیں ان پر بم برسا رہا ہے‘‘۔

یہ کیا کھیل ہے؟ آیے! دیکھتے ہیں۔
شام وہ واحد ملک ہے جو ایران کے بعد خطے میں اسرائیل کے لیے ناقابل قبول ہے۔ اس نے ہمیشہ حماس اور حزب اللہ جیسی اسرائیل مخالف جہادی تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی۔ اس وقت خلیجی ممالک میں ایک طرف بادشاہتوں کے خلاف تحریک بپا ہے تو اس تحریک کے نتیجے میں بھی اب تک امریکا کو حسب خواہش کوئی کام یابی نہیں مل سکی۔

مصر کی مثال سب کے سامنے ہے، جہاں نئے صدر نے امریکی توقعات کے برعکس اسرائیل اور امریکا کی تمام پالیسیوں کو ملک کی حکومتی پالیسیوں سے خارج کرنا شروع کردیا تھا۔ شام میں بھی امریکا کے لیے اب بڑی مشکل یہ بن رہی ہے کہ اسے عراق کی موجودہ قیادت کی طرح کسی کٹھ پتلی کی حکومت کی تلاش ہے۔

شام کو عراق کی سطح پر لاکر امریکا، اسرائیل کے راستے کی ایک اور رکاوٹ کو ختم کرنا چاہتا ہے تو دوسری طرف اس کے لیے ایران پر حملہ بھی آسان ہوجائے گا، جس کی تیاریاں گذشتہ کئی سال سے جاری ہیں مگر ایرانی قومی اتحاد اور اس کی مؤثر جنگی تیاریوں نے امریکا کو بار بار اپنا ارادہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔

ایران کی جوہری صلاحیت کو نشانہ بنانے کے لیے امریکا اور اسرائیل کئی مشترکہ جنگی مشقیں بھی کرچکے ہیں۔ ایرانی حکومت اور قوم میں یک جہتی ہے، وہ اپنے دفاع سے غافل نہیں۔ اس کے پاس 200 سے لے کر 1500 کلومیٹر تک تباہی پھیلانے والے میزائل وافر مقدار میں موجود ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ امریکی عسکری ماہرین اس جنگ میں کودنے سے امریکا کو مسلسل باز رکھ رہے ہیں۔

اب ایک تھیوری یہ بھی سامنے آئی ہے کہ جس دن ایران اور اسرائیل کی باہمی جنگ میں امریکا کود پڑے گا، اسی دن تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہوجائے گا۔ امکانات اس لیے واضح ہیں کہ امریکا اس سے قبل نیو ورلڈ آرڈر سے اس کی شروعات کرچکا ہے اور اس نے عراق اور افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام سے اس عالمی جنگ کی طرف عملاً پیش رفت کردی ہے۔ پاکستانی علاقوں پر شمالی علاقوں میں ڈرون حملوں کا تسلسل، فوج اور طالبان کی باہمی لڑائی اور پورے ملک میں بدامنی کی افسوس ناک صورت حال بھی اسی تیسری عالمی جنگ کی شروعات کا ایک حصہ ہیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تیسری عالم گیر جنگ کے بجائے چوتھی عالم گیر جنگ کی چاپ سنائی دے رہی ہے۔ اگر وہ حالات پر نظر رکھتے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تیسری عالمی جنگ تو روس کے ٹوٹ جانے کے بعد ختم بھی ہو چکی، جسے امریکی سربراہی میں مغرب نے روس پر فتح حاصل کر کے جیت لیاتھا۔ اس فتح میں اسے تین مرکزی کردار افغانستان ، پاکستان اور ایران کے لوگوں کی مدد حاصل رہی اور روس اپنے خطرناک ہتھیاروں کے باوجود شکست سے دوچار ہو گیا، جسے اس نے نہ صرف تسلم کیا بل کہ اس پر خوشی سے دست خط کرتے ہوئے صہیونی بالادستی کو تسلیم بھی کر لیا گیا تھا۔

اس قوت کے خاتمے کے فوری بعد مغرب نے امریکی سربراہی میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر چوتھی جنگ شروع کر دی، جو دراصل مسلمان قوت کے خاتمے کے لیے ہے، جو اب شروع ہو چکی ہے اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ وسعت آتی جا رہی ہے، اس جنگ کے خفیہ عزائم کی تکمیل بھی جاری ہے۔

اب آئیے اس بیان کی جانب کہ روس عالمی جنگ چاہتا ہے۔ کیا یہ بھی سچ ہے ؟
یوکرائن کے وزیراعظم آرسینی یاٹسین یْک نے اپنے ایک بیان میں روس پر الزام عائد کیا تھاکہ وہ تیسری عالمی جنگ شروع کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری سے مدد طلب کی تھی کہ یوکرائن کو روسی جارحیت سے بچایا جائے۔

یوکرائن کے وزیراعظم آرسینی یاٹسین یْک نے کہا کہ روس کی جانب سے یوکرائن میں فوجی مداخلت، یورپ بھر میں فوجی مداخلت بن سکتی ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ماسکو حکومت یوکرائن میں دہشت گردوں کی مدد کر رہی ہے، جو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور عالمی برادری کو مل کر روسی جارحیت کا راستہ روکنا چاہیے۔

اب ذہنوں میں سوال اُٹھتا ہے کہ نئی عالمی جنگ کے ممکنہ مقاصد کیا ہوں گے۔ اس کا سیدھا سا جواب ایک ہی ہے کہ سوشلسٹ قوت کے خاتمے کے بعد اب ان استعماری عالمی قوتوں کا اگلا ہدف مسلمان ممالک اور ان کی عسکری قوت اور دفاعی تنصیبات کا خاتمہ ہے تاکہ دنیا پرمکمل اجارہ داری قائم کی جاسکے۔

اب کسی بھی من گھڑت اقدام کی اُوٹ میں جھوٹے الزامات پر راست کارروائی کے تحت شدید بمباری کر کے ان ممالک کو برباد کرنا ہی اس جنگ کا ہدف ہو گا۔ اب جو بھی ان مقاصد کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے یا بننے والے ہوں گے، اُن سے اب جنگ ہوگی۔آپ خود اندازہ کر لیں کہ مسلم ریاستوں میں حالات روز بہ روز خرابی کی طرف جا رہے ہیں اس کے درپردہ مقاصد کیا ہیں؟ تو بس یہ سجھ لیجے کہ طے کرلیا گیا ہے کہ مسلم ممالک کے خلاف ہی تیسری عالمی جنگ لڑی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔