ہائے کمبخت کو کس وقت خدا یاد آیا

رئیس فاطمہ  اتوار 12 اپريل 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

چند دن قبل اپنی مخصوص اور منفرد سرگرمیوں کی بدولت خبروں کا مرکز بننے والی ماڈل آیان علی کے حوالے سے ایک خبر نظروں سے گزری کہ موصوفہ نے جیل میں تلاوت، نماز اور تسبیح شروع کردی ہے۔ پینٹ اور شرٹ کے بجائے شلوار قمیض جیسا شریفانہ لباس بھی پہننا شروع کردیا ہے۔ خبر کے ساتھ سر پہ سبز دوپٹہ لیے تصویر بھی لگی ہے۔

خبر کے مندرجات پڑھ کر نہ جانے کیوں مجھے نواب مرزا داغ دہلوی کا یہ مصرعہ بہت یاد آیا۔ جو آج کے کالم کا عنوان بھی ہے۔ بزرگان دین کا کہنا ہے کہ جب بندہ دنیاوی نعمتیں حاصل کرنے کے بعد خود کو بہت اونچا اور دوسروں سے الگ سمجھنے لگتا ہے، خدا کو بھول جاتا ہے، تو اسے خدا ایک جھٹکا ایسا ضرور دیتا ہے جس سے اس کو اپنی اوقات یاد آجاتی ہے، اور وہ برے وقت میں خدا کو یاد کرنے پہ مجبور ہوجاتا ہے۔

مصیبت کی گھڑی میں انسان خدا کو کیوں یاد کرتا ہے؟ اور عیش میں کیوں بھول جاتا ہے؟ پھر کبھی ناک میں مچھر گھس جاتا ہے، کبھی اسی فرعونیت کے سبب بدنامی، جلاوطنی اور اقتدار سے محرومی بھی مقدر ہوتی ہے۔ مزاروں پہ منتیں مانی جاتی ہیں، توبہ بھی کی جاتی ہے۔ لیکن جونہی انسان مصیبت سے نجات پاتا ہے۔ دوبارہ اپنی پرانی روش پہ لوٹ آتا ہے۔ خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے والوں کے لیے خدا مختلف عذاب بھیجتا ہے۔ قوموں پر بھی اور لوگوں پر بھی۔

البتہ ایان علی کا معاملہ کچھ الگ ہے۔ یہ جیل؟ یہ نظربندی؟ یہ ٹیلی ویژن پہ جلوہ نمائی۔ ماڈل آیان کی بدنامی دراصل شہرت کا ایک نیا باب کھول رہی ہے۔ ماڈلز تو ہزاروں ہیں، لیکن اپنا اپنا کام کیا، معاوضہ لیا اور بس۔ لیکن موصوفہ کی تو گویا لاٹری نکل آئی۔ جیل یاترا کے بعد جب وہ اپنے ’’محسنوں‘‘ کی مہربانی سے باہر آئیں گی تو ان کی ڈیمانڈ بہت بڑھ جائے گی۔ آیان علی تو ابھی صرف ملزمہ ہے، اس لیے وہ بھی خود کو ’’معصوم‘‘ کہہ سکتی ہے۔

البتہ اس نے ایک بڑا کام کردکھایا۔ ایسا کام جو جیل کے بااختیار حکام بھی نہ کرسکے، وہ ماڈل ایان کی موجودگی نے خودبخود کردیا۔ 17 اپریل کی خبر کے مطابق اڈیالہ جیل میں موصوفہ کی موجودگی نے جیل کے ماحول کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ انتظامیہ اور قیدیوں کے رویے میں خوش گوار تبدیلی آگئی ہے، وہ خوش مزاج ہوگئے ہیں۔

پولیس اہلکار اپنی یونیفارم کی صفائی اور ذاتی صحت کا بھی خیال رکھنے لگے ہیں۔ مختلف جرائم میں بند قیدیوں کا منفی رویہ بھی خبر کے مطابق خاصا اچھا ہوگیا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ اطلاع جیل انتظامیہ نے دی ہے کہ ماڈل ایان علی کے آنے کے بعد اڈیالہ جیل کا مٹیالہ ماحول رنگین ہوگیا ہے۔ چلیے ایک فائدہ تو ہوا۔ البتہ خبروں میں یہ نہیں بتایا گیا کہ قیدیوں کے کھانے کے معیار میں بھی کوئی فرق پڑا ہے؟ ان کی کال کوٹھڑیوں کی صفائی ستھرائی کی طرف بھی توجہ دی گئی ہے یا نہیں؟

میری طرح آپ بھی یقیناً یہ سوچ رہے ہوں گے کہ کیوں نہ ماڈل ایان کا قیام جیل میں بڑھا دیا جائے اور یہ سب خدمت خلق اور انسانی ہمدردی کی بنا پر کیا جائے۔

اگر وہ بے قصور بھی ثابت ہوجائے تو بطور مہمان خصوصی چند دن قیام میں توسیع کردی جائے۔ میں یہ بات مذاقاً نہیں کہہ رہی، بلکہ حکام بالا کی توجہ اس جانب دلانا چاہتی ہوں کہ قیدی معاشرے کے ٹھکرائے اور مسترد کردہ وہ انسان ہوتے ہیں، جو حالات، ماحول اور سماجی پس منظر کی بنا پر جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، بعض دفعہ جھوٹی گواہیاں اور خاندانی دشمنیاں بھی بے قصور انسانوں کو سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیتی ہیں۔

اگر مہذب معاشروں کی طرح ترجیحی بنیادوں پر کچھ این جی اوز اور وزیر جیل خانہ جات قیدیوں کی اصلاح اور ماحول میں مثبت تبدیلی کے لیے اگر ٹیلی ویژن سے وابستہ خواتین و حضرات، ڈراموں کی اداکاراؤں اور مختلف ماڈل گرلز کو مختلف شہروں کی جیلوں میں بہ طور مہمان اور اصلاح کار کے چند دن گزارنے کی درخواست کریں اور انھیں احساس دلائیں کہ مرنے کے بعد صرف اعمال ہی آپ کی بخشش کا باعث ہوں گے تو مجھے پورا یقین ہے کہ کم ازکم پانچ فی صد ایسی ماڈلز اور خواتین اداکارائیں ضرور ہوں گی جو دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی عاقبت بھی سدھارنا چاہیں گی، اور کسی حد تک ان بدنصیبوں سے ہمدردی بھی رکھتی ہوں گی جو جیلوں میں بند اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔

سارا عذاب ان کے لیے ہے جن کا کوئی والی وارث نہیں اور نہ ہی ان کے پاس مطلوبہ رقم ہے جو وہ جیل کے حکام کو دے کر کچھ سہولیات حاصل کرلیں۔ پھر جیل میں اگر مہینے میں ایک بار کچھ سماجی اور شوبز سے تعلق رکھنے والی شخصیات دورہ کرلیا کریں تو نتائج بہتر نکل سکتے ہیں۔

اڈیالہ جیل والے خود کو کراچی، لاہور اور پشاور کی جیلوں کے مقابلے میں خود کو بہت اہم سمجھ رہے ہوں گے کہ ان کے پاس ایان علی ہے۔ اور بے چارے دیگر شہروں والے زبردست احساس محرومی کا شکار ہو رہے ہوں گے، کراچی جیل والے گلہ کر رہے ہوں گے کہ جب ملک کا 65 فیصد ریونیو کراچی دیتا ہے تو ایان کو کچھ عرصے کے لیے کراچی جیل کا مہمان بھی بنایا جائے۔ یہاں عدم تشدد اور قوت برداشت کی زیادہ ضرورت ہے۔

اسی طرح سبزہ و گل کے شہر کی جیل بھی گلہ کرتی نظر آتی ہے کہ اس کا بھی حق بنتا ہے کہ اپنے قیدیوں کی اصلاح اور خوش کلامی کے لیے ایان کی خدمات حاصل کرے۔ ہونا یہ چاہیے کہ موجودہ نتائج دیکھ کر مختلف ماڈلز کو جیلوں کا سماجی کارکن بنادیا جائے۔

مجھے یقین ہے کہ بقیہ 95 فیصد ماڈلز اور شوبز کی شخصیات برضا و رغبت راضی ہوجائیں گی، کیونکہ ’’ہلدی لگے نہ پھٹکری، رنگ چوکھا آئے‘‘ کے مصداق مفت میں ملک گیر شہرت حاصل ہوجائے گی۔ عام طور پر ماڈلز کے چہروں سے تو ناظرین واقف ہوتے ہیں، مگر ان کے نام عام آدمی نہیں جانتا۔ لیکن ایان علی کو اب ایک عام آدمی بھی اس کے نام سے جاننے لگا ہے۔ ہوسکتا ہے آئندہ الیکشن میں کوئی پارٹی اسے اپنا ٹکٹ دے کر ایم این اے منتخب کروالے۔ بالکل پھولن دیوی کی طرح وہ بھی پارلیمنٹ کی ممبر بن جائے، کہ یہ دور بہت مختلف ہے۔

جو باتیں کبھی معیوب سمجھی جاتی تھیں، آج وہی باعث افتخار ہیں۔ بدنامی بھی اب سرخاب کا پر ہے، جو شہرت کے تاج میں لگایا جاتا ہے۔ آج شوبز ہو یا سیاسی تھیٹر ہر جگہ یہی طرۂ امتیاز ہے۔ دوسری ماڈلز یقیناً ایان علی کو رشک و حسد سے دیکھتی ہوں گی اور سوچتی ہوں گی کہ کاش اس جیسا نصیب ہمارا بھی ہو، لمحہ بھر میں سارے میڈیا کی زینت۔ واقعی:

بدنام اگر نہ ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔