کاش آپ کا واسطہ پڑے!!!

شیریں حیدر  اتوار 12 اپريل 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

چند برس پہلے میرا وہاں جانا اس وقت ہوا جب میری ایک عزیزہ وہاں ہاؤس جاب کر رہی تھی، اس کے دفتر میں جا کر تھوڑی دیر بیٹھی کیونکہ اس نے مجھے چائے پلائے بغیر نہیں جانے دینا تھا، اس کے دفتر میں باتوں کے دوران ایسی بے دھیانی رہی کہ ارد گرد کا جائزہ تک نہ لے سکی تھی سو مجھے  وفاقی دارالحکومت کے اس اہم ترین اسپتال کی حالت زار کا علم نہ تھا۔

اس روز چچی جان ایسے وقت پر غسل خانے میں گریں جب ہمارے علاوہ باقی سارا خاندان گاؤں میں ایک شادی پر تھا،  ان کے کان سے لہو کا اخراج ہو رہا تھا جو اس قدر تھا کہ دیکھا نہ جا رہا تھا ۔خون روکنے کی کوئی تدبیر کام نہ آئی، ان کاکان گرنے سے کسی چیز سے ٹکرا کر اوپر سے کٹ گیا تھا، بیٹے نے کال کر کے ایمبولینس منگوائی تو اس کے ساتھ کوئی ایسا عملہ نہ تھا جو کہ متاثرہ کو کوئی طبی امداد دے سکتا۔

اس نے ان کے کان سے بے تحاشہ بہتے ہوئے خون کو روکنے کے لیے ان کے سر کے گرد کس کر پٹی باندھی،  مریضہ کو چلا کر گیٹ کے پاس کھڑی ایمبولینس تک لے جایا گیا کیونکہ اسٹریچر تو تھا مگر اس سڑیچر کو اٹھانے کو چار لوگ نہ تھے۔ ایمبولینس کی حالت ایسی کہ اگر کسی کی ہڈی ذرا سی تڑخی ہو توباقی ماندہ کسر وہاں پوری ہو جائے گی، اللہ کا شکر ہے کہ ہماری مریضہ کے ساتھ ایسا معاملہ نہ تھا۔اسپتال میں داخل ہوتے ہی استقبالیہ کاؤنٹر پر موجود صاحب خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔

کہاں جانا ہے؟ اب کوئی نہ تھا جس سے پوچھتے سو ایمبولینس میں ساتھ آئے ہوئے لڑکے نے ہی کسی سے پوچھا اور ہمیں اشارہ ملا کہ ہمیں ایمرجنسی کے کمرہ نمبر تین میں جانا تھا، کمرہ نمبر تین میں پہنچے، راہداریاں بھی اسٹریچروں سے بھری ہوئی تھیں جن پر مریض تھے اوران مریضوں کا بلا شبہ کوئی پرسان حال نہ تھا، ایک  میل اور ایک خاتون نرس تھے، ہم پہنچے تو ہمیں کہا گیا کہ ابھی ڈاکٹر کو کال کرتے ہیں،  چند منٹوں میں ڈاکٹر آگیا۔

ایمبولینس والا اٹینڈنٹ اپنا اسٹریچر واپس مانگ رہا تھا،  اسی کے مشورے پر باہر جا کر کہیں سے ایک اور اسٹریچر ڈھونڈ کر لایا گیا، وہ اسٹریچر اسٹیل کا بنا ہوا تھا۔ چچی تو پہلے ہی سردی اور زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے ٹھٹھر رہی تھیں۔ وفاقی دارالحکومت کا یہ واحد اسپتال ہے جہاں پر شنید ہے کہ ایمرجنسی سے نمٹنے کا بہترین انتظام ہے، زلزلہ ہو یا سیلاب یا بم دھماکے ہر طرح کے حالات میں اس اسپتال میں صلاحیت ہے۔

سو میں باہر نکلی کہ کوئی اور بہتر اسٹریچر یا وہیل چئیر مل جائے۔  باہر نکلی تو پہلے جس نظارے سے نظرچوک گئی تھی وہ یہ تھا کہ استقبالیہ کے علاقہ میں دو دیواروں کے ساتھ کرسیوں کی قطاریں تھیں اور ان کے عین اوپر دیواروں میں لگی ہوئی ٹونٹیوں سے لگ بھگ دس دس آکسیجن ماسک نیچے لٹک رہے تھے، جن پر لوگ بیٹھے آکسیجن لے بھی رہے تھے، جانے ڈاکٹر نے یہ ماسک لگائے تھے یا انھوں نے خود ۔ جانے کس کس نوعیت کے مریض آتے ہیں اور ایک شخص کا استعمال شدہ ماسک بغیر تطہیری عمل سے گزارے کوئی دوسرا کیسے استعمال کر سکتا ہے۔

نہ صرف یہ بلکہ جو ماسک استعمال میں نہیں تھے وہ ہوا میں معلق تھے اور کثیر مقدار میں بیکٹیریا اپنے اندر جذب کر رہے تھے، فرشوں پر جا بجا تازہ اور جمے ہوئے لہو کے نشانات واضح تھے۔وہیل چئیر تو ندارد تھی، تاہم ایک بڑا سا اسٹریچر ملا جسے خود ہی گھسیٹ کر لانا پڑا، یہ نوار سے بنا ہوا تھا سو اسٹیل کی سطح  والے اسٹریچر سے بہتر تھا۔ میرے واپس آنے تک ڈاکٹر آ چکا تھا،  مریضہ کا بلڈ پریشر اور شوگر وغیرہ چیک کی جا چکی تھی، اور ڈاکٹر ان کا معائنہ کر رہا تھا، میں باقی مریضوں کو دیکھنے لگی، اس وقت اس چودہ بائی چودہ فٹ کے کمرے میں ہمارے مریض سمیت نو مریض تھے اور سبھی اسٹریچروں پر تھے، سب کے ساتھ ہماری طرح چار چار اٹینڈنٹ بھی تھے سو کمرے میں کھڑے ہونے کو جگہ بھی تنگ تھی۔

اسٹریچر سے مریضہ کر منتقل کرنے میں اسپتال کی طرف سے کوئی مدد نہ تھی ہم اپنے ہی ناقص طریقوں سے انھیں ایک سے دوسرے اسٹریچر پر، ایکسرے کے لیے ایکسرے کی میز پر اور پھر واپس اسٹریچر پر، سی ٹی سکین کے لیے اسٹریچر سے سی ٹی سکین مشین پراور پھر واپس۔ ہر منتقلی پر ان کی کراہیں اور سسکیاں نکلتیں، ہم سب اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ برداشت کی کن منزلوں سے گزر رہی ہوں گی۔

استقبالیہ میں ایک اسٹریچر کے ساتھ لگی ہوئی زنجیر اور تالے کو دیکھ کر میں سوچ رہی تھی کہ کیا یہاں سے اسٹریچر بھی چوری ہو سکتا ہے!! شاید ہمارے ہاں سب کچھ ہو سکتا ہے، فرشوں پر ہر طرف خون کے چھینٹے اور پرانے نشانات دیکھ کر خیال آیا کہ کیا یہاں صفائی کا عملہ موجود ہے!!!

ڈاکٹر نے مریضہ کا معائنہ کر کے کچھ ٹیسٹ لکھے، میں اس اثنا میں باقی اسٹریچروں پر موجود مریضوں کو دیکھ رہی تھی،  ایک اور اسٹریچر پر چوبیس پچیس برس کا وہ نوجوان جو تکلیف سے لوٹ پوٹ ہو رہا تھا، اس کے نزدیک کوئی ڈاکٹر میں نے جاتے دیکھا نہ نرس، اس کیساتھ دو تین اور نوجوان تھے جو اسے بوتل سے پانی پلارہے تھے، تکلیف سے وہ لوٹ پوٹ ہوتا  اور درد سے کراہتا تو وہ اس کے ساتھ معانقہ کر کے اس کی پسلیوں کو ہلکے ہلکے دباتے اور اس کی تکلیف کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کرتے، کیا معلوم اس کی پسلیاں ٹوٹی ہوئی ہوں؟ جانے اسے پانی بھی پینا چاہیے کہ نہیں؟ میں خود ہی اندازے لگا رہی تھی، ڈاکٹر تو جب بھی انھیں کوئی دیکھے گا تو دیکھے گا !!

اپنی کراہتی ہوئی مریضہ کو ہم لے کر وہاں سے روانہ ہوئے۔ آپریشن تھیٹرڈھونڈتے ہوئے اندر گئے تو وہاں ایک نوجوان اپنے فون پر ’’ مصروف ‘‘ تھا، ہمیں دیکھ کر اس نے فون میز پر رکھا اور چار میں سے تین لوگوں کو باہر بھیج دیا۔ میرے جو کزن اندر تھے وہ تھوڑی دیر کے بعد باہر آئے اور کہا کہ باہر کسی میڈیکل اسٹور سے ’’ پولی فیکس‘‘ منگوا لیں، زخم کو سی دیا گیا تھا اور اس پر دوا لگانا تھی۔ ’’ کیا اتنے بڑے اسپتال میں اتنی عام سی دوا بھی دستیاب نہ تھی؟ جتنی دیر باہر گزری، میں اپنے اس فیصلے پر پچھتا رہی تھی کہ انھیں اس اسپتال کیوں لائے ہم، میرے ذہن پر اس اسپتال کا بڑا اچھا تاثر تھا جو کہ اب زائل ہو گیا تھا۔

کسی پرائیویٹ اسپتال میں ہم لے جاتے تو… مگر عام آدمی کی دسترس میں تو پرائیویٹ اسپتالوں سے علاج کروانا نہیں ہے،  کیا وہ سب اسی طرح کے سرکاری اسپتالوں میں ، اسی طرح خوار ہوتے ہیں؟ ملک میں ہر لحاظ سے دو بڑے نمایاں طبقات بن گئے ہیں، امیر اورغریب… ان کے بین بین اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے میں کوشاں، متوسط طبقہ ناپید ہو گیا ہے۔ جو امیر ہے ، وہ اتنا امیرہے کہ اس کے کتے کو بھی اس ملک کے غریب سے کئی درجے بہتر خوراک اور علاج معالجے کی سہولیات میسر ہیں۔

ایک طبقہ تو وہ ہے جس میں انسان اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور دواؤں کے بغیر رل کر زندگی کی بازی ہار جاتا ہے اور دوسرا طبقہ وہ ہے جسے چھینک بھی آئے تو وہ اگلی پرواز سے لندن جا پہنچتا ہے۔ناکافی سہولیات، دواؤں کی عدم دستیابی، صفائی کے ناقص انتظام، کم عملے اور بہت سے معاملات میں غفلت کے باعث، یہاں زندگی بچانے کے لیے آنے کے متمنی، تھوڑی دیر میں جانے کیسے کیسے جراثیم یہاں سے مفت میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔

میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ آپ اس اسپتال کے کسی بھی کمرے میںکسی وزیر یا مشیر سے کہیں کہ چند منٹ کسی جگہ پر لیٹ کر دکھائے ، خواہ وہ  چولیں ہلی ہوئی سرکاری ایمبولینس ہو، مکھیوں مچھروں کا گڑھ ایمرجنسی کا کمرہ ، سرد اور غلیظ اسٹریچر ، آپریشن تھیٹر کی آلودہ میز، سرجیکل وارڈ کا  بیس برس سے پڑاکوئی بیڈ یا سی ٹی سکین کی زنگ اور لہو میں اٹی ہوئی مشین ، کارخانہ  قدرت میں تو سب ممکن ہے، کاش ہمارے حکمران طبقے میں سے کسی کا واسطہ کسی بھی سرکاری اسپتال سے پڑے اور انھیں اندازہ ہو کہ وفاقی دارالحکومت تک میں موجود سرکاری اسپتال کی طرح یہ سب اسپتال ان کے انتظامیface  پر طمانچے کی طرح ہیں!!!

( اس کالم میں زیب داستان کے لیے کوئی مبالغہ آرائی نہیں کی گئی، اس اسپتال کی حالت زار کا احاطہ الفاظ میں کرنا ممکن ہی نہیں… seeing is believing  )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔