امت مسلمہ کے خلاف سازش

نسیم انجم  اتوار 12 اپريل 2015
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

مسلمانوں کے زوال کا یہ عالم ہے کہ پچپن اسلامی ممالک اور ایک ارب مسلمانوں کی تعداد سپر طاقتوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور ان کا حکم ماننے پر مجبور ہیں، ہر دوسرے تیسرے سال بعد کسی ایک اسلامی ملک پر سازش کے تحت حملہ کرتے اور اس ملک کے معصوم نہتے باشندوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، اس کی وجہ مسلم امہ کا اتحاد پارہ پارہ ہوچکا ہے.

مذہب و ملت کے تحفظ سے بے فکر ہوکر تعیشات زندگی کو اپنا نصب العین بنا لیا ہے، دولت پیسے کی کمی نہیں ہے اور جو اسلامی ممالک غریب ہیں انھیں امداد میسر آجاتی ہے اور وہ غیروں سے مدد حاصل ہونے کے بعد مغرب و ناانصافی کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ آج سعودی عرب کا حال سب کے سامنے ہے۔

اسے پاکستان سے تعاون کی امید ہے کہ پاکستان فوجی طاقت کے ذریعے سعودی عرب کی امداد کو ضرور آئے گا، پاکستان نے اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ وہ ان حالات میں ہر قیمت پر سعودی عرب کا ساتھ دے گا۔تاہم پارلیمنٹ نے متفقہ قرارداد  منظور کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان یمن تنازع  میں غیر جانبدار رہے۔

مسلمانوں کے لیے سعودی عرب کی اہمیت مسلم ہے، یہ ملک اور اس کا شہر مکہ اور مدینہ وہ مقدس و معطر مقامات ہیں جہاں دونوں جہاں کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی ہے۔ اور جہاں آپؐ کو نبوت کا تاج پہنایا گیا۔ جہاں ساری زندگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مصائب کے باوجود صبر و شکر کے ساتھ گزاری اور اللہ کا پیغام عام کرکے زمانہ جاہلیت کو علم و تمدن میں بدل دیا۔

تمام مسلمان آپؐ کے ہی امتی ہیں، چاہنے والے ہیں، جانیں قربان کرنیوالے ہیں، پھر بھلا سعودی عرب کی مدد کے لیے مثبت جواب کیوں نہیں دیں گے لیکن سیاسی مدبرین اور دانشوروں کی رائے کے مطابق ایک میز پر بیٹھ کر یمن اور سعودی عرب کے مسائل کو حل کیا جائے تاکہ مزید قتل و غارت نہ ہو، مسلمانوں کا خون نہ بہایا جائے چونکہ مسلمانوں کے دشمنوں کی یہی خواہش تھی اور ہے کہ مسلمان کو مسلمان سے لڑایا جائے اور شیعہ و سنی تفرقہ پیدا کیا جائے، پاکستان میں اہل تشیع کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور سنی بھی اس پاک دھرتی پر آباد ہیں، لیکن الحمد للہ اس طرح کی کبھی خانہ جنگی نہ ہوئی اور نہ انشا اللہ ہوگی۔

کوئی دوسری قوت عبادت گاہوں پر حملے کردے وہ ایک علیحدہ بات ہے لیکن آپس میں دونوں فرقے کبھی دست و گریباں نہ ہوئے اور یہ یقیناً اچھی بات ہے اور اس طرح کے واقعات و سانحات ہونے بھی نہیں چاہئیں کہ تحفظ اسلام اور حکمت عملی کا یہی تقاضا ہے، ورنہ نہ صرف یہ کہ ملک کمزور ہوگا بلکہ تاک لگا کر بیٹھنے والے بھی پورا پورا فائدہ اٹھائیں گے جیساکہ ہوتا آرہا ہے تاریخ عالم ایسے بے شمار واقعات سے بھری ہوئی ہے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زمانہ تھا اور شام و فلسطین پر رومیوں کا قبضہ تھا، اس وقت حضرت عمر فاروقؓ کو جنگ کا اعلان مجبوراً کرنا پڑا، جب رومی مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر چھیڑ خانی کرنے لگے، مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے لیے سازشوں کا جال بننا شروع کردیا، مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمرؓ نہایت دور اندیش اور حالات پر ان کی گہری نگاہ تھی اسی لیے فتنہ پیدا ہونے سے پہلے ہی اس کا خاتمہ کردیا اور شام و فلسطین فتح ہوگئے اور یہ دونوں ممالک پانچویں صدی تک اسلامی حکومت میں شامل رہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ مسلم حکمرانوں نے غیر مسلموں کا ہر طرح سے خیال رکھا، رواداری، مذہبی حقوق اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز کرنے کے لیے منافرت اور مذہبی تعصب سے بالاتر ہوکر ان کے حقوق کی ادائیگی میں پیش پیش رہے، حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں بھی انھیں ہر قسم کی آزادی دی گئی حتیٰ کہ انھیں مقامات مقدسہ کی زیارت کی بھی مکمل اجازت تھی۔

اسی طرح مصر کی فاطمی حکومت نے بھی عیسائیوں کو تمام سہولتوں سے نوازا تھا، عیسائیوں کی تجارتی سرگرمیوں کو پروان چڑھانے کے لیے ان کی مدد کرنے میں کسر اٹھا نہ رکھی۔ عیسائی زائرین دنیا کے مختلف ممالک سے بیت المقدس آتے اور مسلمانوں کی مہمان نوازی کو سراہتے اور خوش ہوتے لیکن افسوس، وہی معاملہ ہمیشہ درپیش رہا کہ ’’دلوں میں کفر رکھتے ہیں اور بظاہر دوستی کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہیں‘‘ یہاں بھی یہی ہوا۔

مسلمانوں کا اچھا سلوک بھی ان کے تعصب کے خاتمے کا باعث نہ بن سکا اور مسلمانوں کو شام و فلسطین سے نکالنے اور بیت المقدس پر قبضہ کرنے کے بارے میں منصوبے بناتے، آخر انھوں نے صلیب مقدس اور اپنے دین کی حفاظت کے نام پر جنگیں لڑنا شروع کردیں جو سو سال تک جاری رہیں، یہی صلیبی جنگیں کہلائیں، انھیں تین بڑے حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد ان جنگوں کا نام پہلی صلیبی جنگ اور دوسری و تیسری صلیبی جنگ کا نام دیا گیا، بظاہر تو یہ جنگیں مذہب کے نام پر لڑی گئی تھیں لیکن اگر حقیقت پر نظر رکھی جائے تو ان جنگوں میں معاشی معاشرتی و اقتصادی فوائد اور اغراض نظر آتے ہیں۔

صلیبی جنگوں کی ابتدا حضرت محمدﷺکے عہد رسالت میں اس وقت ہوئی جب 7ء میں آنحضرت محمد ﷺ کے ایلچی حضرت حارثؓ کو موتہ کے عیسائی حاکم نے شہید کرکے گویا اعلان جنگ کردیا، اس کی خواہش پوری ہوئی اور جنگ شروع ہوگئی جو ’’جنگ موتہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔

اسلام دشمنی کی ابتدا موجودہ زمانے یا گزشتہ صدی سے ہر گز نہیں ہے بلکہ طلوع اسلام سے قبل ہی عیسائیت، شام، عراق اور یمن میں تیزی سے پھیل رہی تھی دو حکومتیں ایک بازنطینی اور دوسری حکومت تھی حبش کی، یہ دونوں قوتیں عیسائیت کے پھیلاؤ کے لیے اہم کردار ادا کر رہی تھیں لیکن بعثت نبویﷺ  کے بعد عرب اور اس کے اطراف کے علاقوں میں اسلام کی روشنی نے دوسرے مذاہب کے نقوش کو دھندلا دیا اور لوگوں کی اکثریت اسلام کی حقانیت پر یقین کرنے لگی۔

اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے غیر مسلم حاکموں کو دشمنی اور جنگ پر آمادہ کردیا اور نفرت و تعصب کی آگ بڑھتی ہی چلی گئی اور آج بھی مذہبی نفرت مسلمانوں اور ان کی نسلوں کو نقصان پہنچانے میں پیش پیش ہے۔ افغانستان، عراق، شام، یمن، فلسطین، کشمیر اور دوسرے بے شمار ممالک کو نقصان پہنچانے انھیں برباد کرنے میں اسلام مخالف قوتوں کا ہاتھ ہے۔

امریکا اور اسرائیل ہرگز نہیں چاہتے ہیں کہ مسلمان دوبارہ سر اٹھا کر چلیں اور اپنے ملک کے تمام امت مسلمہ میں اتفاق و اتحاد ہوجائے تو سب کچھ ممکن ہے پھر کوئی سپر طاقت مسلمانوں پر اپنا حکم نہیں چلا سکتی ہے، لیکن دکھ کا مقام یہ ہے کہ مسلم ممالک امریکا کا دم بھرتے ہیں اور اپنی بے پناہ دولت امریکی بینکوں میں جمع کراکے امریکا کو امیر ترین ملک بنا چکے ہیں، ان کی مصنوعات خریدنا ان کی تجارت کو فروغ دینے میں مسلم ممالک کا پورا پورا ہاتھ ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ اسلام کے دشمن ہیں۔

ہمارے دشمن ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے زندگی کو عیش و طرب کا مقصد جان لیا گیا ہے اور موت کو یکسر فراموش کرکے وقتی مفاد کی طلب ہر شخص میں پیدا ہوگئی ہے۔ اور اسی خواہش کی تکمیل نے مسلمانوں کو دنیا بھر میں رسوا کردیا ہے، نہ شرافت رہی، نہ دیانت، نہ قومی غیرت اور نہ مذہبی تقاضے۔ مغرب کی تعلیم اور طرز معاشرت کو اپناکر محض خسارے کا ہی سودا کیا گیا ہے۔

آج عالمی جنگ کے بادل سروں پر منڈلا رہے ہیں، قرب قیامت بھی قریب سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے لیکن مسلم امہ کی بے حسی کہ ان کے ہی رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے وہ بھی اپنے ہاتھوں سے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔