شیطان بزرگ سے دوستی‘ مرگ بر امریکا کی رخصتی (2)

اوریا مقبول جان  پير 13 اپريل 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

آیت اللہ خمینی کی قیادت بہت جاندار، معاملہ فہم، دور بین اور اسلامی تصورات ریاست و حکومت کی امین تھی۔ انھوں نے اپنے روایتی فقہی پس منظر سے بلند ہو کر حکومتی کاروبار کو چلانے کی کوشش کی۔ ان کے کچھ اقدامات تو ایسے تھے کہ جن کی مثال ہماری ایک ہزار سال کی فقہی اختلافات کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ہماری تاریخ تو یہ ہے کہ خانہ کعبہ میں چار مختلف مسالک کے چار مصلے بچھائے گئے تھے اور حنفی،مالکی، شافعی اور حنبلی امام علیحدہ علیحدہ جماعت کرواتے تھے۔

ان چاروں کو ایک امام پر شاہ فیصل مرحوم نے متفق کیا۔ لیکن آیت اللہ خمینی کا یہ فتویٰ کہ کسی بھی مسلک کے امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے، ایک بہت بڑا قدم تھا، یہی وجہ ہے کہ آج آپ کو سنی مسلک کے کچھ لوگ تو حرم میں علیحدہ نماز پڑھتے نظر آئیں گے لیکن شیعہ مسلک کا کوئی فرد اس اتحاد امت کا وہاں تماشہ نہیں بناتا البتہ بوہری اپنی نماز علیحدہ کرواتے ہیں۔ ایران کے آئین کی ترتیب و تدوین کے لیے بھی مختلف ممالک اور مختلف مسالک کے علماء سے مشاورت کی گئی۔ آیت اللہ خمینی نے تین نعرے ایرانی عوام کو دیے۔ دو نعرے عالمی سیاست پر مشتمل تھے۔ مرگ بر امریکا، مرگ بر اسرائیل اور تیسرا نعرہ مسلکی تھا، مرگ بر ضد ولایت فقہیہ۔

عالمی سیاست کے یہ دونوں نعرے آیت اللہ خمینی کی دور بین نگاہوں اور اسلامی فکر سے جنم لینے والی بصیرت کا نتیجہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو جہاں پاکستان وہاں کے مہاجرین کا میزبان بنا، وہیں ایران بھی افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کرتا رہا۔ افغان مجاہدین کی قیادت بیک وقت پاکستان اور ایران سے رابطے میں رہتی۔ روس کے جانے کے بعد اور پھر سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد جب آزاد ہونے والی چھ مسلمان ریاستوں، پاکستان، ترکی، افغانستان اور ایران پر مشتمل ایک تنظیم ای سی او بنی تو ایران اس میں سب سے زیادہ متحرک تھا، بلکہ اس کا ہیڈ کوارٹر بھی تہران میں تھا۔

امریکا اور اسرائیل سے دشمنی ایرانی سیاست پر چھائی ہوئی تھی۔ ایرانی انقلاب، ایرانی قوم کی اسلامی شناخت بنانے کی طرف گامزن تھا۔ اس میں پہلی رکاوٹ وہ مجاہدین خلق کے کمیونسٹ تھے جو صرف شاہ ایران اور امریکی دشمنی کے تحت ملاؤں سے آن ملے تھے۔ وہ حکومت میں بھی شامل تھے اور پارلیمنٹ میں بھی۔ امریکا کو آیت اللہ خمینی نے پورے ایران میں ایک گالی بنا دیا تھا۔ مجاہدین خلق سے جان چھڑانا مقصود تھی۔ ان کے بارے میں یہ پراپیگنڈہ کیا گیا کہ ان کے روابط امریکا اور عراق سے ہیں۔ پھر ایک دن فتویٰ آ گیا کہ یہ سب منافقین اور واجب القتل ہیں۔ ہزاروں قتل کر دیے گئے۔ مسعود رجادی کو عراق نے پناہ دے دی۔ بالکل اسی طرح جیسے بیس سال قبل اس نے آیت اللہ خمینی کو پناہ دی تھی۔

ایران نے اپنے انقلاب کو دوسرے اسلامی ممالک میں پھیلانے کی کوشش کی لیکن تھوڑے عرصے بعد اسے احساس ہو گیا کہ صدیوں سے قائم مسلک کی دیواریں کس قدر مضبوط ہیں۔ ایران، عراق جنگ شروع ہوئی تو اس آٹھ سالہ جنگ نے صدیوں پرانی عرب و عجم کی عصبیت کو زندہ کر دیا۔ ایران چونکہ یہ جنگ بالکل اکیلے لڑ رہا تھا، اس لیے ایرانیوں کے اندر اس جذبے نے شدت اختیار کر لی کہ عرب ایک دفعہ پھرہم پر حملہ آور ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ دوسرے ملکوں سے کچھ رضا کار یہ جنگ لڑنے گئے جنھیں ایران کے ساتھ مسلک کی عقیدت تھی۔ لیکن جنگ میں مارے جانے کے بعد انھیں علیحدہ قبرستانوں میں دفن کیا جاتا۔ جھنگ کا ایک شخص اپنے بیٹوں کو جو عراق جنگ میں جاں بحق ہوئے تھے تہران کے قریب بہشت زہرا قبرستان میں دفن کرنا چاہتا تھا، اسے اس کی اجازت نہ دی گئی کہ تمہارے لیے وہ خارجی قبرستان ہے۔

وہ اپنے دونوں بیٹوں کی نعشیں پاکستان لے آیا۔ ایرانیت غالب آنے لگی۔ بلکہ مکمل طور پر سر اٹھا چکی تھی لیکن چونکہ قیادت مذہبی اور مسلکی تھی، اس لیے ایران کے اثرونفوذ کو مسلک کے راستے بڑھانے کی طرف توجہ دی جانے لگی۔ آیت اللہ خمینی کے زمانے میں ہونے والی تمام عالمی کانفرنسیں،سفارت خانوں کی تقریبات میں تمام مسالک کے افراد مدعو ہوتے، لیکن اب یہ اپنے مسلک تک محدود ہونے لگے۔ افغانستان میں مجاہدین کے درمیان خانہ جنگی کا آغاز ہوا،کئی سال خونریزی میں گزرے۔ اس خونریزی کے ردعمل میں طالبان نے عروج پکڑا۔ ملا محمد عمر نے نوے فیصد افغانستان بغیر لڑائی لڑے اپنے امن کے جھنڈے تلے جمع کرلیا۔ پاکستان نے طالبان کی حمایت کی، بلکہ ان کی حکومت کو تسلیم کرلیا۔

ایسے میں ایران نے اپنے اثرونفوذ کو قائم رکھنے کے لیے شمالی اتحاد کی ہر طرح سے مدد کی بلکہ شمالی اتحاد کی تمام قیادت ایران اور تاجکستان کے توسط سے بھارت کے ساتھ رابطے میں رہی۔ شمالی اتحاد سے تعلق کی جڑیں اسقدر مضبوط تھیں کہ گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد جہاں ہر پڑوسی ملک نے امریکا کی حمایت کا اعلان کیا، وہاں ایران نے درپردہ شمالی اتحاد کے ذریعے اپنے اثرونفوذ کو قائم رکھنے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہاں پاکستان یہ چاہ رہا تھا کہ شمالی اتحاد کی پاکستان مخالف حکومت نہ بنے، ایران نے پوری کوشش سے اس حکومت کے قیام کو ممکن بنایا۔ افغانستان صدیوں ایران کا حصہ رہا ہے اور پاکستان اس کا مستقل پڑوسی، لیکن خالصتاً ایرانی مفاد کے مطابق فیصلہ کیا گیا۔ اس دوران پاکستان گوادر بندر گاہ پر کام شروع کر چکا تھا تاکہ وسط ایشیا تک رسائی کا اہتمام ہو سکے۔ ایسے میں بھارت کو کئی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے چاہ بہار بندر گاہ سے افغانستان کے صوبے ہلمند تک سڑک بنانے کی اجازت دی گئی تاکہ گوادر ایک بے معنی حیثیت اختیار کر جائے۔

ایرانی غلبے اور ایرانیت کے اثرونفوذ کو اگلی رسائی اس وقت ملی جب امریکا کے ہاتھوں صدام حسین کی شامت آئی۔ صدام کی فوج تو پل بھر میں غائب ہو گئی، لیکن عراقی عوام امریکا کے خلاف لڑنے لگے۔ ایسے میں اپنے زیراثر افراد کو اس جنگ سے دورکرنے کے لیے ایران نے مقتدیٰ صدر کو امریکا مخالفت سے دور کر دیا۔ عراق میں امریکا کے خلاف کسی جہاد کا اعلان نہ ہوا۔ یوں ساری جنگ سنی مسلک کے چند شہروں تک محدود ہو کر رہ گئی جنھیں امریکا نے القاعدہ کہہ کر تباہ و برباد کر دیا۔ صدام کے زمانے میں ایران اور عراق کی فوجی طاقت برابر تھی۔ عراق تباہ ہوا، آئین رکھا گیا، نئی حکومت آئی جو ایران کی دست نگر تھی۔ اب تو ان کی فوج کے پاس چند ٹینک رہ گئے تھے اور ایئر فورس کے پاس تو ایک جہاز تک نہ تھا۔

یوں عراق میں ایرانی اثرونفوذ بالکل اسی مقام پر آ گیا جیسا یزدگرد کے زمانے میں تھا یعنی دجلہ و فرات کے درمیان کا علاقہ اسے کے محلات پر مشتمل تھا۔ ایران کو شام، لبنان، بحرین اور کویت تک ایک محفوظ راستہ مل گیا جو عراق سے ہو کر جاتا تھا۔ یہ گزشتہ دس سالوں میں اس کے امریکا کے ساتھ درپردہ رابطوں کا نتیجہ تھا جسے ایرانی اسلامی انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی نے شیطان بزرگ کہا تھا۔لیکن اس ساری کشمکش میں جو عرب و عجم کی لڑائی کے طور پر پیدا ہوئی تھی شیطان بزرگ امریکا کا ایک بہت بڑا خواب پورا ہو رہا تھا۔ شیعہ سنی لڑائی۔ یہ خواب شیطان بزرگ امریکا گزشتہ پچیس سال سے دیکھ رہا ہے۔ اس کشمکش کے نتیجے میں عراق کی سنی اقلیت سے دولت اسلامیہ نے جنم لیااور یمن کی زیدی اقلیت نے حوثی بغاوت کا راستہ اختیار کیا۔

دو ملک ایسے تھے جہاں اقلیت واضح اکثریت پر حکمران تھی، بحرین اور شام۔ دونوں جگہ اقلیت کی حکومت کے خلاف لوگ اٹھ کھڑے ہوئے، اس ساری کشمکش اور لڑائی میں جہاں مسلم امہ کا خون بہہ رہا تھا، دنیا کی پانچ بڑی طاقتیں اور امریکا مل کر ایران کے ساتھ مذاکرات کر رہی تھیں۔ یہ مذاکرات ایران کے ایٹمی پروگرام کو عالمی ضابطوں کے ماتحت کرنا تھا جس کے بدلے میں ایران کو پرامن توانائی کی ضروریات کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی کا حصول آسان ہوجائے گا لیکن اصل مسئلہ وہ پابندیاں ہیں جو ایران سے اٹھیں گی تو وہ اپنی معیشت کو مضبوط کر سکے گا۔ یوں 38 سال بعد ایران، امریکا اور مغربی قوتیں، مشرق وسطیٰ میں شانہ بشانہ کھڑی ہوں گی۔ یہ دراصل گزشتہ دس سالوں کا خفیہ معاشقہ تھا جو واضح اعلان کی صورت سامنے آیا ہے۔ اوباما کی تقریر کی سرخوشی بہت کچھ بتا رہی ہے۔

ایران کی قیادت محتاط ہے۔ یہ احتیاط اس لیے کہ گزشتہ چالیس سال سے ایرانیوں کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا ’’مرگ بر امریکا،، چار نسلیں اس نعرے کے سائے میں پل کر جوان ہوئیں ہیں۔ انھیں اس بات کا احساس دلایا گیا کہ دنیا میں سب سے بڑا شیطان امریکا ہے اور اس سے شدید نفرت کی جائے۔ امریکی دوستی مشرق وسطیٰ میں ایرانی اثرونفوذ بڑھانے میں مدد تو دے گی لیکن اندرون ایران، عام آدمی کے جذبات کیا ہوں گے اسے ایران کی مذہبی قیادت خوب جانتی ہے۔ انھیں خوف ہی اس بات کا ہے کہ وہ مرگ بر امریکا کا نعرہ جو کل شاہ کے خلاف استعمال کرتے تھے، آنے والے کل یہ ان کے خلاف استعمال نہ ہونے لگے۔ ایرانیوں کو انقلاب کا تجربہ تو ہے۔       (ختم شُد)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔