- ’’کرکٹرز پر کوئی سختی نہیں کی! ڈریسنگ روم میں سونے سے روکا‘‘
- وزیرداخلہ کا غیرموثر، زائد المیعاد شناختی کارڈز پر جاری سمزبند کرنے کا حکم
- راولپنڈی میں روٹی کی قیمت کے مسئلے پر نان بائیوں کی مکمل ہڑتال
- اخلاقی زوال
- کراچی میں گھر کے زیر زمین پانی کے ٹینک سے خاتون کی لاش ملی
- سندھ میں گیس کا ایک اور ذخیرہ دریافت
- لنکن ویمنز ٹیم نے ون ڈے کرکٹ میں تاریخ رقم کردی
- ٹیم ڈائریکٹر کے عہدے سے کیوں ہٹایا گیا؟ حفیظ نے لب کشائی کردی
- بشریٰ بی بی کی بنی گالہ سب جیل سے اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست بحال
- کمر درد کے اسباب اور احتیاطی تدابیر
- پھل، قدرت کا فرحت بخش تحفہ
- بابراعظم کی دوبارہ کپتانی؛ حفیظ کو ٹیم میں گروپنگ کا خدشہ ستانے لگا
- پاک نیوزی لینڈ سیریز؛ ٹرافی کی رونمائی کردی گئی
- اپنے دفاع کیلیے جو ضروری ہوا کریں گے ، اسرائیل
- ہر 5 میں سے 1 فرد جگر کی چربی سے متعلقہ بیماری میں مبتلا ہے، تحقیق
- واٹس ایپ نے چیٹ فلٹر نامی نیا فیچر متعارف کرادیا
- خاتون کا 40 دن تک صرف اورنج جوس پر گزارا کرنے کا تجربہ
- ملیر میں ڈکیتی مزاحمت پر خاتون قتل، شہریوں کے تشدد سے ڈاکو بھی ہلاک
- افغانستان میں طوفانی بارش سے ہلاکتوں کی تعداد 70 ہوگئی
- فوج نے جنرل (ر) فیض حمید کیخلاف الزامات پر انکوائری کمیٹی بنادی
لڑکیوں کی پیدائش پر شجرکاری!
بھارتی باشندوں کی اکثریت بیٹیوں پر بیٹوں کو ترجیح دیتی ہے۔ یہاں سالانہ لاکھوں لڑکیاں رحم مادر ہی میں زندگی سے محروم کردی جاتی ہیں۔ اسی لیے حکومت نے بچے کی جنس کا پیشگی تعین کرنے کے عمل کو غیرقانونی قرار دے کر اس پر پابندی لگا رکھی ہے، تاہم یہ پابندی مؤثر ثابت نہیں ہوسکی اور لڑکیوں کا قتل عام اسی طرح جاری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بھارت میں لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے بڑھ گئی ہے۔ بھارتی باشندوں کی بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو بیٹیوں کو قتل نہیں کرتے مگر ان کی پیدائش کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لڑکیوں کی قبل از پیدائش یا بعد از پیدائش ہلاکتوں کی وجہ سے اقوام متحدہ نے بھارت کو بچیوں کے لیے سب سے خطرناک ملک قرار دے رکھا ہے۔
بیٹیوں کو زندہ درگور کردینے والے بھارت میں ایک گاؤں ایسا بھی ہے جہاں ان کی پیدائش پر خوشیاں منائی جاتی ہیں! پپلانتری نامی یہ گاؤں ریاست راجستھان کے ضلع راجسمند میں واقع ہے۔ جب کسی گھر میں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اس کے والدین اور اہل خانہ خوشی سے پُھولے نہیں سماتے۔ بیٹی کی پیدائش پر وہ مٹھائی تقسیم کرتے ہیں اور پھر سب کے سب ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے پودے اٹھائے جنگل کی طرف چل پڑتے ہیں، کیوں کہ وہاں بیٹی پیدا ہونے پر 111 درخت لگانے کی روایت بھی پائی جاتی ہے!
8000 نفوس پر مشتمل گاؤں میں، سال میں اوسطاً 60 لڑکیاں پیدا ہوتی ہے۔ یوں گاؤں کے باسی سالانہ ساڑھے چھے ہزار سے زیادہ پودے لگاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس روایت کی ابتدا کے بعد سے اب تک یہاں ڈھائی لاکھ سے زیادہ درخت لگائے جا چکے ہیں۔ ان میں نیم، آم اور پیپل کے درخت شامل ہیں۔ پودے لگانے کے بعد ان کی دیکھ بھال بھی کی جاتی ہے۔ لڑکیوں کی پیدائش پر خوشی کے اظہار کے طور پر درخت لگانے کی روایت گاؤں کے سابق سَرپنچ شیام سندر نے کئی برس پہلے اپنی بیٹی کی موت کے بعد شروع کی تھی۔
گاؤں میں چند ایک ایسے گھرانے بھی ہیں جو بیٹی کی پیدائش پر فکرمند ہوجاتے ہیں۔ ان گھرانوں کی نشان دہی اور مالی امداد کے لیے گاؤں کے سرکردہ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی موجود ہے۔ کمیٹی گاؤں کے باسیوں سے اکیس ہزار روپے اور بچی کے باپ سے دس ہزار روپے لے کر اس رقم کو سرکاری اسکیم میں لگادیتی ہے۔ بیس سال کے بعد یہ رقم کئی گنا ہوکر لڑکی کے باپ کو ملتی ہے، یوں وہ بیٹی کے جہیز اور شادی کے دیگر اخراجات کی طرف سے بے فکر ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ بچی کے والدین سے ایک حلف نامے پر بھی دستخط کروائے جاتے ہیں جس کے تحت وہ اس بات کے پابند ہوجاتے ہیں کہ قانونی عمر تک پہنچنے سے پہلے بچی کی شادی نہیں کریں گے، اسے باقاعدگی سے اسکول بھیجیں گے اور اس کے نام پر لگائے گئے درختوں کی دیکھ بھال کریں گے۔
لڑکیوں کی پیدائش پر لگائے گئے درختوں کے لیے گاؤں کے باسیوں نے وسیع قطعہ اراضی مختص کر رکھا ہے جو جنگل کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ یادگاری درختوں کو کیڑے مکوڑوں اور دیمک سے بچانے کے لیے ان کے اطراف ڈھائی لاکھ سے زائد گوارپاٹھا ( ایلوویرا) کے پودے لگائے گئے ہیں۔ یہ درخت اور گوارپاٹھا کے پودے گاؤں کی باشندوں کی آمدنی کا اہم ذریعہ بھی بن گئے ہیں۔ خواتین گھروں پر ہی ایلوویرا کے پودوں سے مختلف مصنوعات مثلاً جل، اچار وغیرہ تیار کرتی ہیں، جنھیں مرد فروخت کرنے کے لیے شہر لے جاتے ہیں۔
پپلانتری اس لحاظ سے بھی ایک منفرد گاؤں ہے کہ اس کی اپنی ویب سائٹ اور ترانہ موجود ہے۔ یہاں شراب، جانوروں کے جنگل میں چَرنے اور درخت کاٹنے پر بھی پابندی عائد ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔