آئیں اپنے حصے کی شمع جلائیں

عابد محمود عزام  جمعرات 16 اپريل 2015

معلوم ہوتا ہے کہ حالات پر تبصرہ کرنا، حکمرانوں اور سیاستدانوں کو برا بھلا کہنا اور معاشرے کی خامیوں اور محرومیوں پر بحث مباحثہ کرنا بحیثیت مجموعی پاکستانی قوم کا محبوب مشغلہ بن چکا ہے۔ ایک بڑی تعداد ڈرائینگ رومز، چائے خانوں، دفاتر، تقریبات اور سوشل میڈیا پر گھنٹوں گھنٹوں اجتماعی المیوں اور بے حسی کی داستانیں دہراتے ہوئے گزار دیتی ہے۔ خود کو ایک کاہل، بے حس اور ناکام قوم کا فرد ثابت کرنے کے لیے سر توڑ کوشش کی جاتی ہے۔

معاشرے کی اکثریت ایک عرصے سے اپنی صلاحیتوں کو اسی طرح خرچ کرنے میں مصروف ہے، لیکن اس کے باوجود معاشرے کے شب و روز جوں کے توں ہیں، ان میں رتی بھر بہتری نہیں آئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کی گفتگو کا اختتام مایوسی، بے حسی یا مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی کیفیات پر ہوتا ہے۔ معاشرے کی خامیوں اور محرومیوں پر بحث و مباحثے کے نتیجے میں رفتہ رفتہ نا امیدی دلوں میں گھر کرلیتی ہے اور پھر یہی نا امیدی بے حسی کا روپ دھار لیتی ہے۔

حالانکہ دوسروں کی خامیوں، غلطیوں اور کوتاہیوں کو موضوع بحث بنا کر سارا دن اپنا دماغ کھپانے سے کہیں بہتر ہے کہ ہر فرد اپنی ذمے داری کو پورا کرے، جس سے کم از کم ایک شخص کی حد تک تو معاشرے میں بہتری آسکتی ہے۔ اگر ہم محض مسائل پر تبصرہ کر کے اپنا وقت ضایع کرنے کی بجائے سچی لگن کے ساتھ اپنی سوسائٹی کو کچھ لوٹانے کی کوشش کریں تو بعید نہیں کہ معاشرے کو بہت کچھ دے پائیں، کیونکہ سچی تڑپ اور لگن کے ساتھ کی گئی جدوجہد کبھی رائیگاں نہیں جاتی اور جو کوئی معاشرے کو سنوارنے کی تگ و دو کرتا ہے، کامیابی ضرور اس کے قدموں کی دھول بنتی ہے۔

دنیا ایسے بہت سے لوگوں کو جانتی ہے جنہوں نے اپنا وقت محض تبصروں، تجزیوں اور دوسروں کی خامیوں اور غلطیوں پر بحث مباحثہ کرتے ہوئے گزارنے کے بجائے اپنی ذات کو ذمے دار سمجھتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو معاشرے کے لیے وقف کیا، آج دنیا ان کی خدمات کی بدولت ان کو سلام پیش کرتی ہے۔

آپ چین کے عظیم لیڈر ماؤزے تنگ کی مثال لے سکتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ چینی قوم بہت سے مسائل میں گھری ہوئی تھی، دور دور تک امید کی کرن دکھائی نہیں دیتی تھی۔ چینی قوم کی خوش قسمتی کہ ان حالات میں انھیں ماؤزے تنگ جیسا لیڈر ملا، جس نے محض تبصروں میں وقت صرف کرنے کے بجائے اپنی ذمے داری کو سمجھتے ہوئے اپنی قوم کو کچھ دینے کی ٹھانی اور اپنی قوم کی مخلصانہ قیادت کی اور قوم کو اس مقام تک پہنچایا، جہاں سے اس کو اپنی منزل صاف نظر آنے لگی۔ ماؤزے تنگ چینی قوم کو ایک کامیاب قوم بنانے میں کامران ہوا اور آج چین کا شمار دنیا کے سرفہرست ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔

مارٹن لوتھر ایسی ہی ایک قابل تقلید شخصیت ہے، جس نے امریکا میں اپنی سیاہ فام قوم کو گوروں کی غلامی سے نجات دلانے کا عزم کیا اور فاتح ہوا۔ مارٹن لوتھر نے ایک بار تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’میرا اک خواب ہے کہ جارجیا کی سرخ پہاڑیوں پر ایک دن سفید فام آقاؤں اور سیاہ فام غلاموں کے وارث ایک دوسرے سے گلے ملیں۔ میرا اک خواب ہے کہ میرے بچے اپنے رنگ کے بجائے اپنے کردار سے پہچانے جائیں۔‘‘

دنیا نے دیکھا کہ مارٹن لوتھر نے اپنا خواب پورا کیا۔ اسی طرح نیلسن منڈیلا کو بھی سامنے رکھا جا سکتا ہے۔ جنوبی افریقہ ایک طویل عرصہ سفید فاموں کی غلامی میں رہا۔ سفید فاموں نے سیاہ فام افریقی باشندوں کو جانوروں کی طرح رکھا ہوا تھا۔ ان پر بے انتہا تشدد کیا جاتا تھا۔ ایسے میں نیلسن منڈیلا نے اپنا وقت بحث مباحثے پر ضایع نہیں کیا، بلکہ اپنی ذمے داری کو پہچانا اور اپنی قوم کو اس ظلم و ستم سے چھٹکارا دلانے کی ٹھانی۔ ایک بار عدالت میں تقریر کرتے ہوئے نیلسن منڈیلا نے کہا: ’’میں نے ایک خواب دیکھا ہے۔

جس میں ایک مثالی ریاست ہو اور وہاں تمام لوگ مل جل کر رہ رہے ہوں، بغیر کسی امتیاز کے انھیں انصاف مل سکے اور مساوی حقوق حاصل ہوں۔ یہ ایک آئیڈیل معاشرہ ہو گا۔‘‘ نیلسن منڈیلا نے اپنی جدوجہد کو جاری رکھا اور سیاہ فاموں کو سفید فاموں کے برسوں پرانے جبرو استبداد سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوا۔ ہم بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی مثال بھی پیش کرسکتے ہیں، جنہوں نے حالات کا رونا رونے پر حالات کا رخ موڑنے کو ترجیح دی اور اپنے حصے کا کام کرتے ہوئے جہد مسلسل سے مسلمانوں کو انگریز اور ہندو بنیے کی غلامی سے چھٹکارہ دلا کر ایک نئے ملک کا خواب پورا کر دکھایا۔

اگر عبدالستار ایدھی کی کاوش پر نظر ڈالی جائے تو بھی بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے فضول میں اپنا وقت ضایع کرنے کے بجائے حالات میں بہتری لانے کی کوشش کی۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی فلاحی سرگرمیوں کا آغاز صرف پانچ ہزار روپے سے ہوا اور آج ان کے کاموں کا دائرہ نہ صرف پاکستان بھر میں پھیلا ہوا ہے، بلکہ بعض دیگر ممالک میں بھی ان کے فلاحی کام جاری ہیں اور ان کے سیکڑوں مراکز میں ہزاروں کارکن ہر وقت انسانیت کی خدمت کے لیے موجود ہوتے ہیں۔

اگر ہم بھی سارا دن ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر حالات کا رونا رونے کے بجائے اپنی ذمے داری ادا کرتے ہوئے انھیں کامیاب شخصیات کے نقش قدم پر چلیں تو بعید نہیں کہ اپنی قوم کو مسائل سے نکالنے میں آسانی سے کامیاب ہوجائیں۔ اگرچہ ہر شخص کے لیے کوئی بڑا قدم اٹھانا ممکن نہیں ہے، لیکن ہر فرد کم از کم اپنی سطح تک تو معاشرے کو کچھ دینے کی کوشش کرسکتا ہے۔ اگر اکیلا بھی کچھ نہیں کرسکتا تو کم از کم دو چار دوستوں کے ساتھ مل کر ہی اپنے علاقے، اپنے محلے اور اپنے گاؤں کی سطح پر ہی ناداروں، ضرورت مندوں اور معاشرے کی خدمت کے لیے کوئی ایسا سیٹ اپ بنایا جاسکتا ہے۔

رضاکارانہ طور پر خدمات سرانجام دینا یورپ و امریکا وغیرہ میں کوئی نئی اور حیرت انگیز چیز نہیں ہے، کیونکہ اہل یورپ کو اس بات پر یقین ہے کہ رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دینے سے ہر فرد کو معاشرے کا ایک اچھا شہری بننے میں مدد ملتی ہے۔ وہاں محلوں، علاقوں، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں چند افراد پر مشتمل رضاکار گروپ حادثات و آفات میں ڈیوٹی سے لے کر مقامی پارک، کمیونٹی سینٹر، اسکول کے ڈائننگ ہال، مقامی چرچ، چائلڈ کیئر سینٹر اور ٹاؤن ہال میں ڈیوٹی تک تمام ذمے داریاں سرانجام دیتے ہیں۔

اس کے برعکس پاکستان میں جب بھی کوئی سانحہ پیش آتا ہے، تو کل آبادی کا تقریباً 66 فیصد نوجوان طبقہ سوشل میڈیا پر لمبی لمبی بحثیں کرتا نظر آتا ہے۔ اگر ان میں سے ہر فرد اپنی ذمے داری کو سمجھتے ہوئے مارٹن لوتھر، نیلسن منڈیلا، ماؤزے تنگ، قائد اعظم اور عبدالستار ایدھی کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرے تو بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم سب اپنی مدد آپ کریں تو مجھے یقین ہے کہ ہمیں حالات کا رونا رونے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ شرط یہ ہے کہ ہر فرد اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے معاشرے میں بہتری لانے کی کوشش کرے، کیونکہ ہر فرد کو اپنی ذمے داری نبھانی ہے اور اپنے حصے کی شمع جلانی ہے۔

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلا تے جاتے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔