پارلیمانی قرارداد اور ثالثی کردار

ایم جے گوہر  جمعرات 16 اپريل 2015
 قرارداد میں موجود ہے کہ سعودی عرب کی سالمیت کو خطرہ ہوا تو پاکستان دامے، درمے، سخنے، قدمے یعنی ہر طرح سے سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہو گا۔فوٹو:فائل

قرارداد میں موجود ہے کہ سعودی عرب کی سالمیت کو خطرہ ہوا تو پاکستان دامے، درمے، سخنے، قدمے یعنی ہر طرح سے سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہو گا۔فوٹو:فائل

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یمن تنازعہ کے ضمن میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے جو 12 نکاتی متفقہ قرارداد منظور کی گئی ہے اس کےمطابق سعودی عرب کی سالمیت کو اگر خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان اس کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گا جب کہ یمن بحران میں پاکستان غیر جانبدار رہے گا، البتہ اقوام متحدہ اور او آئی سی میں حکومت کے فعال و سرگرم کردار ادا کرنے کی بات کی گئی ہے، پارلیمنٹ کی مذکورہ قرارداد کے دو نکات اہم ہیں۔

اول یہ کہ سعودی عرب کی سربراہی میں عرب اتحادی ممالک جس طرح باہم مربوط ہو کر یمن کی سرزمین پر حوثی باغیوں کے خلاف صف آرا ہیں کیا پاکستان بھی عرب اتحاد میں شامل ہو کر اپنی بری، بحری اور فضائی فورس کو سعودی عرب روانہ کرنے پر آمادہ ہے؟ جس کی سعودی عرب نے باقاعدہ درخواست کی ہے اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں پالیسی بیان میں اس کا کھل کر اظہار کیا ہے تو جواب اس کا واضح نفی میں ہے کیوں کہ قرارداد کے متن میں واضح طور پر درج ہے کہ پاکستان یمن تنازعہ میں غیر جانبدار کردار ادا کرے گا۔دوئم یہ کہ اگر حوثی باغیوں نے سعودی سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے حرمین شریفین کی طرف بڑھنے کی کوشش کی (جس کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا) تو پاکستان کیا کرے گا تو اس کا جواب واضح طور پر قرارداد میں موجود ہے کہ سعودی عرب کی سالمیت کو خطرہ ہوا تو پاکستان دامے، درمے، سخنے، قدمے یعنی ہر طرح سے سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہو گا۔

یہ تو ہے پارلیمنٹ کی منظور کردہ متفقہ قرارداد کی روح اب اس کے پس منظر اور پیش منظر پر نظر ڈالیے تو معلوم ہو گا کہ قرارداد کی اس انداز اور متن کے ساتھ منظوری میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی قوتوں نے بھی ایک کردار ادا کیا ہے واقفان حال کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے دو شرائط کے تحت قرارداد کے حق میں ووٹ دینے کا عندیہ دیا تھا اول یہ قرارداد وزیر دفاع خواجہ آصف پیش نہیں کریں گے اور اس کی وجہ خواجہ صاحب کی مشترکہ اجلاس میں کی گئی وہ تقریر تھی جس میں انھوں نے پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کو استعفے دینے کے بعد پارلیمنٹ آنے پر آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے شدید ترین تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اپنے دل کا غبار شرم کرو، حیا کرو جیسے غیر شائستہ الفاظ ادا کر کے نکالا تھا۔

بدلے میں پی ٹی آئی نے شرط رکھ دی کہ خواجہ آصف نے قرارداد پیش کی تو وہ واک آؤٹ کر جائیں گے ان کی دوسری شرط یہ تھی کہ حکومت قرارداد میں غیر جانبدار رہنے کے عزم کا اظہار کرے، چونکہ حکومت کی خواہش تھی کہ قرارداد متفقہ طور پر منظور ہو اور کوئی پارلیمانی فریق واک آؤٹ کا راستہ اختیار نہ کرے لہٰذا ’’غیر جانبدار قرارداد‘‘ منظور کرائی گئی جس سے عرب دنیا نے یہ تاثر لیا کہ پاکستان یمن کی جنگ میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے موقف کی تائید و حمایت نہیں کرتا اور نہ ہی ان کے اتحاد میں براہ راست شامل ہو کر جنگ یمن کا حصہ بننا چاہتا ہے۔

اس تاثر کو اماراتی وزیر کے بیان نے مزید گہرا کر دیا یو اے ای کے وزیر امور خارجہ ڈاکٹر انور محمد قرقاش نے بڑے سخت الفاظ اور انداز میں پارلیمنٹ کی منظور کردہ قرارداد کے حوالے سے پاکستانی موقف کی مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ متفقہ قرارداد کی منظوری کے بعد پاکستانی پارلیمنٹ نے بے وقوف بنایا خلیج عرب خطرناک محاذ آرائی میں ہے اس کی تزویراتی سلامتی کو شدید خطرہ لاحق ہے اور عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کی بنیاد پر ان کی حمایت میں پاکستان کی طرف سے واضح موقف اختیار کیا جانا چاہیے تھا لیکن پاکستان نے اس سنگین معاملے پر مبہم اور متضاد موقف کا اظہار کیا ہے جس کی اسے بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔

امارتی وزیر نے یہاں بس نہیں کیا بلکہ ترکی اور ایران کی بھی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے کہ اسلام آباد اور انقرہ کے لیے خلیجی ممالک کی بجائے تہران زیادہ اہم ہے یہاں ان کا اشارہ قرارداد کے اس حصے کی جانب تھا کہ جس میں کہا گیا کہ یمن میں جاری جنگ فرقہ وارانہ نہیں لیکن اس کے فرقہ وارانہ تنازعے میں تبدیل ہونے کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا اور اگر ایسا ہوا تو اس کے پاکستان سمیت خطے میں سنگین نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے کہا ہے کہ جب تک مصدقہ ذرایع اطلاع نہ دیں پاکستان اماراتی وزیر کے بیان پر باقاعدہ رد عمل نہیں رہے گا۔

تاہم پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی جو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بجھے بجھے سے نظر آئے نے امارتی وزیر کے بیان پر شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے سفارتی آداب کے منافی قرار دیا ہے اور کہا کہ ان کا بیان پاکستانی عوام کے متفقہ فیصلے کی توہین کے مترادف ہے۔

خلیجی ممالک سے بالعموم اور سعودی عرب سے بالخصوص پاکستان کے انتہائی خوشگوار، برادرانہ، مخلصانہ اور پر اعتماد تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ ہو یا ایٹمی  دھماکوں کے بعد پاکستان پر لگنے والی پابندیاں یا پاکستان کی معاشی تباہ حالی سعودی عرب نے ہر مشکل اور کڑے وقت میں پاکستان کا کھل کر غیر معمولی انداز میں ایک قدم آگے بڑھ کر بھرپور ساتھ دیا ہے۔

قطع نظر اس بات کے کہ یہاں جمہوریت ہے یا آمریت ہر پاکستانی حکمران سعودی بادشاہوں کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب رہا یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے تازہ صورت حال میں سعودی عرب کی ہر ممکن مدد کرنے میں قطعاً کوئی اختلاف نہیں تاہم صورتحال کی نزاکت، پڑوسی ملکوں سے قابل اعتماد تعلقات کے فروغ، خطے میں امن کے قیام اور واحد اسلامی ایٹمی قوت ہونے کے ناتے اپنے مدبرانہ، مصالحانہ کردار کے پیش نظر ملک کے تمام قابل ذکر سیاسی، صحافتی، سماجی اور عوامی حلقے یہ محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان ضرورت پڑنے پر سعودی عرب کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنے تمام وسائل اور عسکری قوت کو پوری طرح متحرک کرے تاہم یمن کی سرزمین پر جاری خانہ جنگی میں براہ راست مداخلت سے گریز کرے، بلکہ سفارتی و حکومتی سطح پر ایک مصالحانہ و مدبرانہ کردار ادا کرے کہ فریقین کے درمیان جاری محاذ آرائی بند ہو جائے۔ اسی پس منظر میں قرارداد منظور کی گئی ہے تاہم اس سے جو منفی تاثر پیدا ہوا ہے۔

اس کا زائل ہونا اور خلیجی ملکوں بالخصوص سعودی عرب کے اعتماد کو بحال کرنا از بس ضروری ہے اس نازک مرحلے پر مناسب ہو گا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف از خود سعودی عرب جائیں اور شاہ سلمان سے براہ راست ملاقات کر کے غلط فہمیوں کو دور کرنے اور یمن جنگ میں پاکستان کے قابل قبول کردار کے حوالے سے انھیں تفصیلات سے آگاہ کریں۔ معاملہ چونکہ عسکری تعاون کی فراہمی کا ہے تو زیادہ بہتر یہ ہو گا کہ سعودی عرب روانگی سے قبل عسکری قیادت سے تفصیلی مشاورت کر لی جائے اور اے پی سی بلا کر تازہ صورتحال پر بحث کر کے ایک متفقہ لائحہ عمل طے کر لیا جائے وزیراعظم اعلیٰ سطحی وفد جس میں عسکری قیادت بھی شامل ہوں ساتھ لے کر جائیں پاکستان کے ’’ثالثی کردار‘‘ کے حوالے سے سعودی عرب کا اعتماد بحال کرنا ضروری ہے۔

سعودی وزیر ڈاکٹر عبدالعزیز بن عبداﷲ العمار نے یمن پر ’’ثالثی کو مذاق قرار دے کر صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے تازہ صورتحال میں قرارداد پر من و عن عمل کرنا حکومت کے لیے مشکل چیلنج ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔