زرافہ گزر گیا، چڑیا گھر اداس ہے

انتظار حسین  جمعـء 17 اپريل 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

یہ اپریل کا ظالم مہینہ ہے۔ ارے اب سے پہلے ہم اس مہینے سے کہاں واقف تھے۔ ہمارے لیے بسنت کا مہینہ ہی بہت تھا۔ بسنت کا مہینہ نہ کہئے‘ بسنت رت کہئے۔ اس رت کے اثر آثار ابھی تک جاری ہیں۔ گل پھول کی بہار ہنوز اپنے جوبن پر ہے۔ اور پھول دوچار گلابی ہیں تو دو چار بسنتی۔ اس پر مستزاد اودی اودی پنکھڑیاں۔ لو اب اس تقریب سے امانت کا ایک شعر سن لیجیے ؎

ہے شور حسینوں کی دو رنگی کا امانت
دو چار گلابی ہیں تو دو چار بسنتی

مگر قیامت خیز وہ رنگ ہے جسے بسنتی کہتے ہیں۔ تب ہی تو میر نے کہا ہے کہ ؎

بسنتی قبا پر تری مر گیا ہوں
کفن دیجیو میر کو زعفرانی

اور اس بھری بہار میں ایک زرافہ کی موت۔ افسوس‘ صد افسوس۔ لاہور کے چڑیا گھر میں وہ کب سے تنہائی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ اس کے جو گنے چنے ہم جنس اس چڑیا گھر میں تھے وہ پہلے ہی داغ مفارقت دے چکے تھے۔ یہ افسوسناک خبر دیتے ہوئے رپورٹر نے بتایا ہے کہ لاہور کے چڑیا گھر کی فضا زرافوں کو راس نہیں آئی۔

جتنے بھی یہاں زرافے تھے وہ باری باری اس عالم فانی کے چڑیا گھر سے کوچ کر گئے کسی نہ کسی بہانے موت آئی اور اچھا بھلا چلتا پھرتا زرافہ دم کے دم میں دم توڑ گیا۔ ایک زرافہ سے بس اتنی چوک ہوئی کہ اس نے ایک پلاسٹک بیگ پر منہ مارا۔ اسے چباتا چباتا اسے نگل گیا۔

بس موت نے اسے نگل لیا۔ ایک مادہ زرافہ کے ساتھ یہ ہوا کہ اس کی گردن میں بل پڑ گیا۔ زرافہ کی گردن اللہ کی پناہ۔ اونٹ کی گردن اس کے سامنے کیا بیچتی ہے۔ اس بل میں پیچ پڑتے ہی چلے گئے۔ بالآخر اس نے دم توڑ دیا۔

ہم نے پوچھا کہ اب جو زرافہ اللہ کو پیارا ہوا ہے اس کے ساتھ کیا واقعہ گزرا۔ بتایا یہ گیا ہے کہ وہ اچھا بھلا چل پھر رہا تھا۔ بس دیکھتے دیکھتے چٹ پٹ ہو گیا مگر کیسے؟ جواب ملا کہ ہارٹ اٹیک۔ دل کا دورہ پڑا اور وہ گزر گیا۔ ہم نے یہ سنا تو بس دل پکڑ کر بیٹھ گئے۔ ارے صاحب یہ کیا ہمیں سنا رہے ہو۔ دل کی ہر بیماری مرض عشق سے لے کر ہارٹ اٹیک تک بنی نوع انسان کے نام لکھی گئی ہے۔ جانور دل کے چونچلوں کو کیا جانیں۔ انھیں دل کی بیماری کہاں ستاتی ہے۔

ادھر سے جواب آیا کہ زرافہ جانور بھی تو نرالا ہے۔ لمبا لگ لگ۔ بالکل عوج بنونق۔ آپ پوچھیں گے کہ یہ عوج بنونق کون تھا۔ ارے صاحب لغت میں تو عوج بن عنق لکھا ہے۔ خلقت نے اسے عوج بنونق بنا دیا۔ کہتے ہیں کہ یہ حضرت آدم کا نواسا تھا۔

اتنا لمبا تڑنگا کہ جب طوفان نوح امنڈا تو بس وہ اس کی کمر تک آیا۔ جب حضرت موسیٰ اپنے بارہ قبیلوں کے ساتھ جنگل بیابان میں بھٹکتے پھر رہے تھے تو اس ظالم نے ایک پہاڑ سر پہ اٹھایا اور حضرت موسیٰ کے قبیلوں پر دے مارنا چاہتا تھا۔ مگر ہوا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہد ہد کو بھیجا۔ ہد ہد بیچاری چہ پدی چہ پدی کا شوربہ۔ مگر اس نے کھٹ کھٹ کر کے پہاڑ میں ایسا بڑا سوراخ کیا کہ وہ عوج بنونق کی گردن میں آ کر اٹک گیا۔ ادھر حضرت موسیٰ نے اس کے ٹخنوں پر اپنا عصا مارا۔ بس وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔

مگر جس زرافے نے اب ہمیں داغ مفارقت دیا ہے تو اس نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی تھی۔ بھلا اسے اس بیماری نے جو اولاد آدم کے نام لکھی گئی تھی کیوں ستایا۔ بہر حال جانوروں میں ایک ہی ایسا جناور تھا جو درد دل لے کر پیدا ہوا تھا۔ اب وہ گزر گیا ہے تو ہمیں اس نقصان کا احساس ہونا چاہیے کہ حیوانی مخلوقات میں یہ ایک مخلوق تھی جس سے ہماری رشتہ داری تھی۔ اب ہم اس دنیا جہاں میں اکیلے ہیں۔ اور ہمارے چڑیا گھر کا احوال اب یہ ہے کہ ع

مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے

سب سے بڑھ کر بچے اداس ہیں۔ اس زرافے سے اصل میں تو ان بچوں کی دوستی تھی بہر حال متعلقہ حکام نے ہمیں دلاسہ دیا ہے کہ جہاں کہیں سے بندوبست ہو سکا وہاں سے زرافہ منگوائیں گے اور اپنے چڑیا گھر کو آباد کریں گے۔

لیجیے ایک اور بری خبر سنئے۔ ابھی ہم زرافہ کی موت کے غم سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ خبر آئی کہ ادھر ڈینگی مچھر بھی پر پرزے نکال رہا ہے۔ پچھلا برس تو خیریت سے گزرا تھا۔ اور اس برس کے متعلق بھی ڈاکٹروں کے ایک حلقہ کی طرف سے یہ بیان اخبارات میں آیا تھا کہ اس موسم میں جن مچھروں کی پیدائش متوقع ہے ان میں ڈینگی مچھر شامل نہیں ہے۔

لیکن تازہ خبر یہ ہے کہ یہ جو خلاف توقع بارشیں ہوئی ہیں ان کی وجہ سے ڈینگی کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ متعلقہ افسروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اکیلے لاہور میں اس سال یکم مارچ سے لے کر اپریل تک دو ہزار ایسے مقامات کا صفایا کیا گیا ہے جہاں ڈینگی کے اثرات نشوونما کر رہے تھے۔

اس جائزے کے مطابق مارچ‘ اپریل اور مئی کے مہینوں میں ڈینگی کا خطرہ زیادہ نہیں ہوتا۔ یہ خطرہ اگست ستمبر اور اکتوبر میں زیادہ ہوتا ہے لیکن اب کے جو بے وقت کی بارشوں سے موسم میں غیر متوقع خرابیاں پیدا ہوئیں ان کی وجہ سے مارچ‘ اپریل مئی کے مہینوں میں ڈینگی کے پھیلنے کے امکانات پیدا ہو گئے۔

تو لیجیے خبردار ہو جائیے۔ ان مہینوں میں جنھیں ہم بارشوں کی وجہ سے بہت خوشگوار سمجھ رہے تھے اور خوش تھے، ڈینگی کا خطرہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔

بہر حال ڈینگی کی سرگرمیاں اپنی جگہ اور ہماری سرگرمیاں اپنی جگہ۔ ویسے تو سیاسی اعتبار سے بھی فضا ان دنوں گرم ہے مگر ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس مہینے میں ادبی ثقافتی سرگرمیوں نے بھی اچھا خاصا زور پکڑ لیا ہے۔

دو فیسٹیول ہمارے سر پہ کھڑے ہیں۔ بک فیسٹیول اور لٹریچر فیسٹیول۔ اردو میں یوں سمجھئے کہ کتابوں کا جشن اور ادب کا جشن یا میلہ جو بھی آپ کہنا چاہیں۔ دونوں میلے اسی مہینے کے بیچ اسلام آباد میں ہونے ہیں۔ پہلے میلہ کی تیاریاں وہ سرکاری ادارہ کر رہا ہے جو نیشنل بک فاؤنڈیشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ادھر آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے اپنے لٹریچر فیسٹیول کے کاروبار کو اسلام آباد تک پھیلا دیا ہے۔ سو ادھر اس شہر میں او یو پی کی طرف سے لٹریچر فیسٹیول کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ گویا چپڑی اور دو دو۔ ایک میلہ سے نکلو‘ دوسرے میلہ کی بہار دیکھو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔