جوڈیشل کمیشن کا قیام اور مستقبل کا سیاسی منظر نامہ

احسن کامرے / اجمل ستار ملک  ہفتہ 18 اپريل 2015
جوڈیشل کمیشن 45روز کے اندر اندر تحقیقات مکمل کرے گا۔  فوٹو : شہباز ملک

جوڈیشل کمیشن 45روز کے اندر اندر تحقیقات مکمل کرے گا۔ فوٹو : شہباز ملک

حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان 2013ء کے انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے نتیجے میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے جوڈیشل کمیشن قائم ہوگیا۔

یہ کمیشن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں قائم کیا گیا جبکہ دیگر اراکین میں جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس اعجاز افضل خان شامل ہیں۔ یہ کمیشن 45روز کے اندر اندر تحقیقات مکمل کرے گا۔ حکومت اور تحریک انصاف نے جوڈیشل کمیشن کے معاملے پر دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔

اس سے ملک میں سیاسی مسائل اور تنازعات کو بات چیت سے حل کرنے کی روایت قائم ہوگی جو نہ صرف جمہوری عمل کی بہتری بلکہ انتخابی نظام کے نقائص کو دور کرنے اور شفافیت کو اجاگر کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔’’ جوڈیشل کمیشن کا قیام اور مستقبل کا سیاسی منظر نامہ‘‘ کے حوالے سے گزشتہ دنوں ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں قانونی و سیاسی ماہرین نے شرکت کی۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

اعظم نذیر تارڑ
(وائس چیئرمین پاکستان بارکونسل )
جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ اس میں آئین سے روگردانی محسوس ہورہی ہے کیونکہ آرٹیکل 225میں آئین نے ایک طریقہ کار وضع کردیا ہے کہ الیکشن کا ٹرائل الیکشن ٹربیونل میں ہوگا۔

جوڈیشل کمیشن کو آئینی حیثیت نہ دے کر میرے نزدیک حکومت نے چالاکی کی ہے تاکہ اس آئینی شق کو استعمال کرکے اس معاملے سے نکلا جاسکے ۔ اگر حکومت ا س معاملے میں سنجیدہ ہوتی تو پارلیمنٹ کے ذریعے آرٹیکل 225میں ترمیم لاکر اس کمیشن کو آئینی دائرہ کار میں لایا جاتا ۔ ماضی میں فوجی عدالتوں کے حوالے سے حکومت کی نیت صاف تھی اس لئے اس نے آئین میں ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کو آئینی حیثیت دی گوکہ اس سے آئین کا بنیادی ڈھانچہ بگڑ گیا جو ایک الگ بحث ہے۔

قانون کے طالبعلم کی حیثیت سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ بہتر ہوتا کہ آرٹیکل 225 میں ترمیم کردی جاتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور اب ریاست کے تیسرے ستون کی بنیاد پر سوال اٹھ رہے ہیں جو ایک اہم مسئلہ ہے۔اس کمیشن کے حوالے سے بات کریں تویہ جوڈیشل کمیشن نہیں بلکہ انکوائری کمیشن ہے گو کہ اس کے سربراہ اعلیٰ عدلیہ کے لوگ ہیں لیکن اس کا کام ’’فیکٹ فائنڈنگ‘‘ ہے۔

کمیشن کا مینڈیٹ اس آرڈیننس کے سیکشن 3میں دیا گیا ہے جس کے مطابق کمیشن پہلے انکوائری کرے گا اور پھر فیصلہ کرے گا کہ آیا2013ء کے انتخابات عمومی طور پر غیر جانبدار اور شفاف تھے یا نہیں ؟ سیکشن 3کی شق 2کے تحت کمیشن کو یہ بھی جواب دینا ہے کہ جو شہادتیں موصول ہوئی ہیں ان سے کہیں ایسا محسوس تو نہیںہوا کہ باقاعدہ سازش کے تحت 2013ء کے انتخابات کو کسی شخص یا ادارے نے متاثر کیا۔

اس کے علاوہ تیسرے سوال کا جواب بھی کمیشن کو دینا ہے کہ آیا ان انتخابات کے نتائج میں عمومی طور پر عوام کی خواہشات کی صحیح عکاسی ہوئی یا نہیں۔ اس کمیشن کو فوجداری اوردیوانی سمیت لامحدود اختیارات سے نوازا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ توہین عدالت کااختیار بھی دیا گیا ہے۔ اس کمیشن کے ججوں کو سکینڈلائز کرنے، کمیشن کی کارروائی میں دخل اندازی کرنے یااس پر بیان بازی سے منع کیا گیا ہے اور ایسا کرنے والے پر توہین عدالت لاگوہوگی ۔

اس آرڈیننس کا سیکشن 4بہت اہم ہے ،اس میں کمیشن کے اختیارات کو محدود کیا گیا ہے، اس لیے اب صرف وہ چیزیں کمیشن کے سامنے آسکیں گی جو شہادت ایکٹ کے معیار پر پورا اترتی ہو گی اور جو جوڈیشل کمیشن کو بھی مطمئن کرسکے گی۔ میرے نزدیک اس کی تحقیقات میں بڑی پیچیدگیاں آئیں گی لہٰذا اگر 45دن میں تحقیقات مکمل نہ ہوسکی تو اس میں توسیع کی گنجائش موجود ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کمیشن کی حیثیت کو چیلنج کردیا گیا ہے لہٰذا یہ تلوار ساتھ ساتھ لٹکتی رہے گی۔

2013ء کا انتخاب جماعتی انتخاب تھالیکن اس آرڈیننس نے سب کے لیے دریچہ کھول دیا گیا ہے تاہم کمیشن کے سامنے ثبوت پیش کرنے کا پہلا حق ان سیاسی جماعتوں کو دیا گیا ہے جنہوں نے ان انتخابات میں حصہ لیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ کمیشن کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ اگرکوئی شخص کمیشن کے پاس آتا ہے اور کمیشن یہ سمجھتا ہے کہ اس کو اجازت دینا قرین انصاف ہے توکمیشن اسے اجازت دے سکتا ہے تاہم اگر کمیشن نے ایسا کوئی قانون بنایا ہے کہ وہ صرف سیاسی جماعت کے دیے گئے خط کی بنیاد پر اجازت دے گا تو یہ آرڈیننس کے سیکشن 5کی خلاف ورزی ہوگی۔

کمیشن سیکشن 3کی روشنی میں فیصلہ دے گا اور یہ توقع کی جارہی ہے کہ کمیشن 45دن میں کام مکمل کردے گا۔ یہ کمیشن اپنی فائنل رپورٹ دینے کے بعد سیکشن 8کے تحت تحلیل ہوجائے گا جبکہ اس کی فائنل رپورٹ تک عوام کو رسائی حاصل ہوگی اور سب کو اس پر اپنی رائے دینے کا اختیار بھی ہوگا۔ اس کے علاوہ انتخابات کی جو پٹیشن زیر التوا ہیں، جو ٹریبونلز بنے ہیں اورہائی کورٹ یاسپریم کورٹ نے جوفیصلے دیے ہیں ان پراس رپورٹ کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ میرے نزدیک اس کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد کی قانونی نہیں بلکہ اخلاقی پابندی ہوگی۔

میں قانون کے طالبعلم کی حیثیت سے ابھی تک اس بات پر مشکوک ہوں کہ آرٹیکل 225کی موجودگی میں یہ کسی نتیجے تک پہنچتا ہے یا نہیں لہٰذا اگر یہ پارلیمنٹ کے ذریعے وجود میں آتا تو اس کی قانونی اور اخلاقی قدر زیادہ ہوتی۔اس کمیشن کا مینڈیٹ صرف انتخابات کی انکوائری کرنا ہے اس لیے یہ امید رکھناکہ یہ کمیشن ملک کا مستقبل سنوار دے گایا ملک کے انتخابی نظام میں بہت بڑی اصلاحات لے آئے گا، میرے نزدیک ایسا کچھ نہیں ہوگا۔

کمیشن اپنے مینڈیٹ سے بڑھ کر کام نہیں کرے گا اور نہ ہی آئندہ انتخابات کے لیے سفارشات دے گا۔ اس کمیشن کی سفارشات کے بعد یہ تمام سٹیک ہولڈرز پر منحصر ہے کہ وہ ان کی روشنی میں کیا اقدامات کرتے ہیںتاہم اگر کمیشن یہ فیصلہ دیتا ہے کہ 2013ء کا انتخاب عمومی طور پرشفاف نہیں تھا تو اس کے بڑے سنگین نتائج ہوں گے اور پھردوبارہ انتخابات نہ کروانے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہوگا ۔

ڈاکٹر عاصم اللّٰہ بخش
(تجزیہ نگار)
جوڈیشل کمیشن کا معاملہ گزشتہ 9ماہ سے ہمارے ملک کی سیاسی فضا پر طاری ہے اوراس حوالے سے مختلف باتیں سامنے آتی رہی ہیں۔ اب اس کمیشن کی آئینی حیثیت پر بھی بات کی جارہی ہے کیونکہ یہ آئین میں درج ہے کہ انتخابات سے متعلق تمام شکایات الیکشن ٹریبونل میں جائیں گی اور شاید یہ آئین بنانے والوں کے وہم و گمان میںبھی نہیں تھاکہ پورے انتخابی عمل پربھی سوال اٹھ سکتا ہے۔

اس کمیشن کے معاہدے میں یہ طے پایا ہے کہ اگر انجینئرڈ دھاندلی ثابت ہوگئی تو چاروں صوبائی اسمبلیوں اورقومی اسمبلی کو خود وزیر اعظم تحلیل کردیں گے جو بہت بڑی بات ہے ۔ میرے نزدیک جوڈیشل کمیشن کا قیام ایک اہم فیصلہ ہے لیکن اس وقت سب ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں کیونکہ اگر انتخابات غلط قرار دے دیے جاتے ہیں تو پھر کیا ہوگا اور ایسی کیا چیز ہے جو آئندہ شفاف انتخابات کی گارنٹی دے گی۔

جب پورا الیکشن ہی چوری ہوسکتا ہے اور اس میں اداروں کے نام بھی لیے جاتے ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئندہ انتخابات کون کروائے گا اور اس پر قومی اتفاق کیسے ہوگا؟اس کمیشن کا سٹرکچر دیکھیں تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اس کے سربراہ ہیں، اس کمیشن پر لوگوں کی نگاہ ہے لہٰذا سب کو محتاط رہنا ہوگا کیونکہ عدلیہ پر سوال اٹھ سکتا ہے۔

اس کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ کمیشن ایسا کیاطریقہ کار اختیار کرے گاجس سے 45دن میں تمام حلقوں کی شکایات اور ان کے ثبوت کی جانچ پڑتال ہوگی اور یہ فرق کیا جائے گا کہ انجینئرڈ دھاندلی ہوئی ہے یا نہیں۔ میرے نزدیک یہ بہت بڑا کام ہے اور شاید 90دن میں بھی اس کی تحقیقات مکمل کرنا مشکل ہوگا لہٰذااب دیکھنا یہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن اس سے کیسے عہدہ برآ ہوتا ہے۔

میرے نزدیک اگر مسلم لیگ (ن) پر دھاندلی کا الزام ثابت ہوتا ہے تو پھر اس کے چیف سمیت تمام لوگوں کو جیل بھیجنا چاہیے اور اس جماعت کو کالعدم کردینا چاہیے لیکن اگر ان پر الزام غلط ثابت ہوتا ہے توپھر تحریک انصاف کے لیے یہ بہت خطرناک صورتحال ہوگی کیونکہ اس نے تو انتخابات سے ابھی تک صرف اسی بات پر لوگوں کو اکٹھا رکھا ہوا ہے لہٰذا دونوں کے لیے یہ بہت نازک صورتحال ہے اس لیے میرے نزدیک سب کو باعزت راستہ ملنا چاہیے اور آئندہ انتخابات کے لیے ریفارمز کرنی چاہئیں تاکہ آئندہ دھاندلی کے الزامات نہ لگیں اور شفاف انتخابات کروائے جاسکیں۔

ہمارے ہاں جب بھی انتخابات ہوئے صرف انہیں ہی شفاف کہا گیا اور ماضی کے تمام انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا گیا اور اس طرح دھاندلی زدہ انتخابات کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ شفاف انتخابات کے لیے ہمیں یہ نیت کرنے کی ضرورت ہے کہ ہر حال میں انتخابات کو شفاف بنانا ہے اور پھر عوام جسے منتخب کریں وہ اقتدار میں آئے اور اپنی مدت پوری کرے۔

ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ہم ماضی میں واپس نہیں جاسکتے لیکن یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ ہم 2018ء کے انتخابات میں پوری توجہ اس بات پر رکھیں کہ انتخابات کے عمل میں ہمارے ادارے اور سیاسی جماعتیں بہتر کردار ادا کریں تاکہ اس کے دوررس نتائج حاصل ہوں۔ اس وقت انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے حوالے سے عدالتی کمیشن بن چکا ہے، اس کمیشن کا انحصار اس ثبوت پر ہوگا جو اسے فراہم کیا جائے گا اورا س پر ہی تحقیقات ہو گی ۔

یہ صرف دھاندلی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس میں یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ انجینئرڈ دھاندلی تھی جس کے نتیجے میں کچھ لوگوں کو آگے لایا گیا اور بعض کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کمیشن کی سفارشات کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے اور کیا انہیں آئینی تحفظ دیا جائے گا۔ اس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ اس کمیشن کے سربراہ ہیں اس کے علاوہ ذمہ داری کا پریشر سب پر ہے۔

لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس پریشر کو برداشت کرتے ہوئے ایک ایسی چیز سامنے لائیں جس پر ہم اپنا سیاسی سٹرکچر بہتر طریقے سے کھڑا کرسکیں۔ ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سیاسی سٹرکچر کی بنیادیں مضبوط نہیں ہیں ، یہاں قومی و صوبائی اسمبلیاں تو ہیںلیکن لوکل گورنمٹ کا کوئی تصور نہیں ہے۔اس کے علاوہ ہم سیاسی مصلحت کو سامنے رکھتے ہیں لہٰذا ہمیں چاہیے کہ آئین کو ترجیح دیں اور صرف نظریہ ضرورت کے لیے اسے استعمال نہ کریں۔

سلمان عابد
(دانشور)
پاکستان کی انتخابی تاریخ بہت تلخ ہے۔ عمومی طور پر پاکستان میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ صرف 1970ء کے انتخابات شفاف تھے جبکہ باقی تمام انتخابات میں بے قاعدگیاں ، بے ضابطگیاں اور دھاندلی ہوئی ہے حالانکہ 70ء کا انتخاب خود بھی ایک متنازعہ انتخاب ہے اور اسے اسی تناظر میں ہی دیکھنا چاہیے۔ پاکستان میں انتخابات ہمیشہ سے متنازعہ رہے ہیں اور ہمارے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا بڑا عمل دخل رہا ہے ۔

80ء اور90ء کی دہائی میں ہم نے دیکھا کہ ایک کو اقتدار سے ہٹا کر دوسرے کو لایا جاتا رہا۔ 2013ء کا انتخاب پاکستان کی تاریخ کا وہ واحد انتخاب ہے جس میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں بشمول حکمران جماعت نے بھی کہا کہ دھاندلی ہوئی ہے، مسلم لیگ (ن) کا موقف ہے کہ صوبہ سندھ میں دھاندلی سے ان کے امیدواروں کو ہرایا گیا، پیپلز پارٹی ریٹرننگ افسران کا الیکشن کہتی ہے ، اے این پی، جے یو آئی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی ، تحریک انصاف سمیت تمام جماعتیں ہی اسے دھاندلی زدہ انتخاب کہتی ہیں۔اسی طرح تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنا ہے اور یہ عدالتی کمیشن کسی کی خواہش پر نہیں بلکہ یہ اس مزاحمتی سیاست کے نتیجے میں بنا ہے جو عمران خان نے کی۔

یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کی بقاء اور مضبوطی کے لیے انتخابات میں دھاندلی کی کڑوی گولی نگل لی اورماسوائے عمران خان کے سب نے یہ کہا کہ ہم نے جمہوریت کی خاطر یہ دھاندلی برداشت کی ہے اور ہمیں آگے کی طرف دیکھنا چاہیے لہٰذا میرے نزدیک اس جوڈیشل کمیشن کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے کیونکہ یہ ان کے مطالبے اور شاندار مزاحمت کی بنیاد پر بنا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پہلے دن سے ہی یہ کوشش تھی کہ وہ عدالتی کمیشن کی طرف نہ جائے کیونکہ اس کمیشن کے بننے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت خود اپنے لیے مسائل پیدا کرے گی لیکن جس انداز کی سیاست پاکستان میں چلی اور دھرنہ سیاست کا جو نتیجہ نکلااور جس طرح سے حکومت کمزور ہوئی اب اس کے پیچھے کوئی چارہ نہیں تھا کہ مفاہمت کی سیاست کو فروغ دیا جاتا لہٰذا حکومت تحریک انصاف کو اسمبلی میں لانا چاہتی تھی اس لیے اس نے یہ کمیشن بنا دیا۔آئین کا آرٹیکل 225 اس کمیشن کے لیے بڑی رکاوٹ ہے اور اس کمیشن کو چیلنج بھی کردیا گیا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کا کیا نتیجہ سامنے آتا ہے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے الیکشن ٹریبونل نے اب تک 15کے قریب جن انتخابی حلقوں کی چھان بین کی اس میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیںجبکہ کئی حلقوں کا ریکارڈ ہی غائب ہے۔ الیکشن ٹریبونل جس نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ 120دن کے اندر اندر ان کیسز کو نمٹائے گا وہ اس میں ناکام رہا اس لیے اب یہ معاملہ جوڈیشل کمیشن پر آکر رک گیا ہے۔

اب جب یہ کمیشن بن چکا ہے تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاانتخابی دھاندلی کوثابت کرنا صرف عمران خان کی ذمہ داری ہے یا ان تمام سیاسی جماعتوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے جو یہ کہتے رہے کہ 2013ء کے انتخابات شفاف نہیں تھے۔ یہ بات اہم ہے کہ عدالتی کمیشن صرف ثبوت کی بنیاد پر کام کرے گا لہٰذا تمام سیاسی جماعتوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کمیشن میں جائیں اور دھاندلی کے خلاف ثبوت پیش کریں لہٰذا جو جاتیں کمیشن میں گئی ہیں انہوں نے اچھا قدم اٹھایا ہے تاہم وہ جماعتیں جو دھاندلی کا کہتی رہیں اگر وہ کمیشن میں نہیں جاتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جماعتیں دوغلی اور منافقانہ پالیسی رکھتی ہیں۔

دھاندلی صرف سیاسی جماعتوں کا نہیں بلکہ عوام کا مسئلہ بھی ہے لہٰذا ہر کسی کو اس کمیشن میں جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔ میرے نزدیک یہ پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کیلئے بہت اچھی بات ہے کہ جوڈیشل کمیشن بن گیا ہے لہٰذا اب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہیے اور شفافیت کے ساتھ یہ بات ثابت ہونی چاہیے کہ 2013ء کے انتخابات کی حیثیت کیا ہے لیکن اگر 2013ء کے انتخابات کے حوالے سے سمجھوتہ کیا گیا توآئندہ کبھی شفاف انتخابات نہیں ہوں گے۔

ہمارا ریکارڈ اتنا برا ہے کہ آج تک کسی عدالتی کمیشن کا فیصلہ سامنے نہیں آسکا،اس لیے کچھ شکوک شبہات بھی پیدا ہورہے ہیں کہ کیا یہ کمیشن 45دنوں میں کوئی فیصلہ سنا سکے گا یا مزید وقت لے گا۔ الیکشن 2013ء میں عدلیہ پر بھی الزام آیا ہے کہ اس نے انتخابات میں مداخلت کی ہے لہٰذا اس کمیشن کویہ داغ بھی دھونا ہوگاورنہ عدلیہ پر بھی سوالات اٹھ سکتے ہیں۔

عمران خان کہہ رہے ہیں کہ 2015ء انتخابات کا سال ہے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ آجائے ۔ میرے مطابق جوڈیشل کمیشن کے پاس انتخابات کے حوالے سے فیصلہ دینے کا اختیار نہیں ہے ، یہ صرف انکوائری کرے گا تاہم فیصلہ بنیادی طور پر حکومت کو کرنا ہے۔ اگر کمیشن یہ کہہ دیتا ہے کہ انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے تو پھر حکومت فیصلہ کرے یا نہ کرے معاشرے میں اس انتخاب کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی لیکن اگر کمیشن یہ کہے کہ صرف چند حلقوں میں دھاندلی ہوئی ہے اور انہیں بہتر کرنے کیلئے آئندہ ہمیں یہ اقدامات کرنے چاہئیں تو یہ الگ بات ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ انفرادی دھاندلی اور ادارہ جاتی دھاندلی میں فرق کرنے والی ایک باریک لکیر ہے کیونکہ انتخابات میں دھاندلی الیکشن کے عملے کے بغیر ممکن ہی نہیں ہوسکتی۔ میرے نزدیک پاکستان میں اچھی ڈویلپمنٹ ہونے جارہی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس کے ساتھ کیا سمجھوتہ کرتے ہیں۔

اس وقت دونوں فریق جماعتیں مسئلے میں پھنس گئی ہیں، عمران خان کو یہ ثابت کرنا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے جبکہ حکومت کو اس سارے معاملے کو اس طرح سے لے کرچلنا ہے کہ یہ ثابت نہ ہو کہ انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔ میرے نزدیک اب ہماری سیاست میں بڑی سیاست ہوگی اور ہم نے عمران خان کی محبت میں اور اس کی مخالفت میں جو سیاست جنم دے دی ہے وہ اس کمیشن پر غالب ہوگی اور لوگ کس حد تک اس کمیشن کے ساتھ تعاون کریں گے یہ سوالیہ نشان ہے۔

اگر اس مسئلے کو محض صرف ایک جماعت کی انا کے لیے چھو ڑدیا گیا تویہ پاکستان کی جمہوریت اور سیاست کی خدمت نہیں ہوگی اور ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پھر کبھی اتنی بڑی تحریک پاکستان میں نہیں چل سکے گی۔

میرے نزدیک اس کمیشن کے بننے سے پاکستان کی سیاست میں میچورٹی آئی ہے، یہ ایک مثبت اقدام ہے او ر اس سے آئندہ آنے والی حکومتوں اور سیاست پر ایک پریشر ہوگااور اگر اس کمیشن سے کوئی بڑا فیصلہ سامنے آتا ہے تو میرے نزدیک اس میں بہت سی رکاوٹیں پیدا ہوجائیں گی۔ مسلم لیگ (ن) کا موقف یہ تھا کہ 2013ء کے انتخابات کی دھاندلی کے معاملے کو چھوڑدیں اور آئیں ہم 2018ء کے انتخابات کوشفاف بنانے کی بحث میں حصہ لیتے ہیں ا ورا س کے لیے 33رکنی کمیٹی بھی بنائی گئی۔ اب جوڈیشل کمیشن قائم ہوچکا ہے لہٰذا اگر ثبوت یہ ثابت کرتے ہیں کہ انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی تو ہمیں ڈرنا نہیں چاہیے کہ اس سے جمہوری نظام خراب ہوجائے گا کیونکہ معاشرے میں مرض کو ٹھیک کرنے کے لیے کڑوی گولی کھانی پڑتی ہے ۔

اگر دھاندلی کے ثبوت سامنے آجاتے ہیں اور سیاسی مصلحت کے تحت اس پر سمجھوتہ کرلیا جاتا ہے تو اس کے نتائج آئندہ انتخابات پر بھی ہوں گے۔پاکستان کا انتخابی نظام اسٹیبلشمنٹ نے یرغمال بنایا ہوا ہے اور شفاف انتخابات میں جہاں اور بہت سی رکاوٹیں ہیں وہاں اسٹیبلشمنٹ بھی رکاوٹ پیدا کرتی رہی ہے اور اپنی مرضی کے لوگ لاتی رہی ہے لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ خود اس کمیشن سے کتنی توقع رکھتی ہے کہ اس میں کچھ ثابت ہو۔ اس لیے میرے نزدیک ا س وقت سیاسی جماعتیں، حکومت، الیکشن کمیشن،عدلیہ اور ہماری اسٹیبلشمنٹ سب سٹیک پر ہیں لہٰذا کمیشن کا معاملہ شفافیت سے ہونا چاہیے۔

زمرد اعوان
(استاد شعبہ سیاسیات ایف سی کالج)
جوڈیشل کمیشن کا قیام ایک مثبت اقدام ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم ابھی تک جمہوریت کے ساتھ تجربے کررہے ہیں اور ہمارے ان تجربات کو ابھی زیادہ وقت بھی نہیں ہوا کیونکہ ماضی میں حکومتیں اپنی مدت پوری نہیں کرسکیں ۔ صرف گزشتہ حکومت نے اپنی مدت پوری کی اور اب دوسری حکومت جمہوریت کی طرف رواں دواں ہے۔ ہماری قوم باتیں بہت کرتی ہے، سیاستدان بھی بڑی بڑی باتیں کرتے ہیںلیکن اہمیت صرف تحریری بات کی ہوتی ہے۔

ساتھ صفحات پر مشتمل ایک معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں جوڈیشل کمیشن کا قیام عمل میں ا ٓیا ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کمیشن کی حیثیت کیا ہے ۔ کیا ہم تیار ہیں کہ ان بڑے بڑے لوگوں سے سوال کرسکیں جن کا ان انتخابات میں کردار رہا ہے اور کیا یہ کمیشن خود عدلیہ کے بڑے لوگوں سے بھی سوال کرسکے گا؟ میرے نزدیک 2013ء کے انتخابات میں بے ضابطگیوں کا نام دے کر چیزوں کو ختم کردیا جائے گا جبکہ اس کمیشن کے اثرات اگلے انتخابات پر ہوں گے اور شاید ان میں کچھ بہتری کی جاسکے اور آئندہ انتخابات میں کرپشن کو کم کیا جاسکے۔

یمن کی صورتحال کے بعد عالمی دباؤ اور اندرونی مسائل کی وجہ سے حکومت عمران خان کو منانے پر مجبور ہوگئی اور میرے نزدیک جوڈیشل کمیشن کے ذریعے عمران خان کو مناکرایوان میں دوبارہ لایا گیا۔ اب کراچی میں ضمنی انتخابات ہونے جارہے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ وہاں کیسے نتائج سامنے آتے ہیں اور کیا صورتحال ہوتی ہے۔ یہ بالکل درست بات ہے کہ 2013ء کے انتخابات کے حوالے سے تمام جماعتیں کہتی رہی ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے لیکن کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کمیشن کے سامنے کیا ثبوت پیش کیے جاتے ہیں اور ان پر کیا بحث ہوتی ہے ۔

میرے نزدیک یہ کمیشن اگلے انتخابات کے لیے مثال قائم کردے گا اور اب عوام بہت باشعور ہوچکے ہیں اور سوشل میڈیا سے انہیں ہرچیز کی معلومات مل جاتی ہیں۔اس کمیشن کی کارروائی کے نتیجے میں سزا کا عمل ابھی بہت مشکل ہے،سزا اس وقت ہوتی ہے جب ہم معاشرتی طور پر باشعور ہوجاتے ہیں اور ہم یہ سمجھتے ہیں سزاوجزا کا عمل ہونا چاہیے ۔ ہم اگر اپنی عدلیہ کی طرف دیکھیں تو بہت بڑی تعداد میں کیسز التوا کا شکار ہیں لہٰذا ہم سب چیزیں ایک ادارے پر ڈال کر آرام سے بیٹھ جاتے ہیں اس لیے جب تک ہم جمہوری طور پر بااعتماد نہیں ہوجاتے سزا ممکن نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔