ریویو؛ ’’فرشتوں کو تو بخش دو!‘‘

محمد حسان  جمعـء 17 اپريل 2015
انسان بعض اوقات مال کمانے کے لیئے اتنا گِر جاتا ہے کہ تمام قوانین، اخلاقیات، اقدار یہاں تک کہ مذہب کوبھی پسِ پشت ڈال دیتا ہے۔

انسان بعض اوقات مال کمانے کے لیئے اتنا گِر جاتا ہے کہ تمام قوانین، اخلاقیات، اقدار یہاں تک کہ مذہب کوبھی پسِ پشت ڈال دیتا ہے۔

میں جانتا ہوں کہ آج کا بلاگ پڑھ کر مجھ پر طرح طرح کے فتوے لگ سکتے ہیں لیکن جہاں اور بے شمار فتوے دنیا میں گردش کر رہے ہیں وہاں ایک فتویٰ اور سہی!

انسان بعض اوقات مال کمانے کے لیئے اتنا گِر جاتا ہے کہ تمام قوانین، اخلاقیات، اقدار یہاں تک کہ مذہب کوبھی پسِ پشت ڈال دیتا ہے، آج قلم اٹھانے کی وجہ ایک ٹیلی ویژن اشتہار بنا جسے دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔

ٹی وی پر نشر ہونے والے پروگرام اور اشتہارات کے ذریعے پہلے ہی اخلاقیات اور مشرقی اقدار کا جنازہ نکالا جاچکا ہے اور اب مذہب بھی ان اشتہارات کی زد سے باہر نہ رہ سکا، خصوصاً موبائل فونز کے اشتہارات سرِ عام نوجوان لڑکے لڑکیوں کو بے راہ روی کی تلقین کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ نت نئے کالز، انٹرنیٹ، ایس ایم ایس اور ایم ایم ایس پیکیجز کے اشتہارات کیا کم تھے کہ اب موبائل فونز والے بھی سونے پر سہاگہ کرنے میدان میں کود پڑے ہیں؟

میری رائے کے مطابق ان کو اشتہارات کے بجائے ’’ترغیبات‘‘ کہا جانا چاہیئے اور وہ بھی منفی۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیا کا سب سے اہم کام ہی اپنی گرل فرینڈ کو ایس ایم ایس کرنا یا اپنے بوائے فرینڈ سے گھنٹہ پیکیج پر بات کرنا رہ گیا ہے۔ باقی ماں، باپ، بہن، بھائی اور دوست احباب کی شاید کوئی حیثیت ہی نہیں رہی، کوئی رشتہ بھی اب محترم و مقدم نہیں رہا، جب موبائل ہاتھ میں ہو تو ماں باپ دشمن بن جاتے ہیں، ان کا بولنا زہر لگنے لگ جاتا ہے، بھائی بہن کے رشتے کی کوئی اہمیت نہیں رہتی، بات بات پر قرابت داروں کو جھڑک دیا جاتا ہے کہ میں ابھی مصروف ہوں۔

اس حوالے سے ایک لطیفہ بہت مشہور ہے جو کہنے کو تو لطیفہ ہے لیکن دراصل اس قسم کے نوجوان لڑکے لڑکیوں اور ان تمام لوگوں کے منہ پرزوردار تمانچہ ہے جو رشتوں کی اہمیت کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ لطیفہ کچھ یوں ہے کہ ’’آج انٹرنیٹ نہیں چل رہا تھا تو میں اوپر اپنے کمرے سے نیچے آگیا اور گھر والوں کے ساتھ بیٹھ گیا، اُن  کے ساتھ بیٹھ کر مجھے محسوس ہوا کہ میرے گھر والے بھی اچھے لوگ ہیں یار‘‘۔

میں بات کر رہا تھا ٹی وی اشتہار کی، یہ ایک موبائل فون کا اشتہار ہے جس میں بظاہر موت کے فرشتے کو دکھایا گیا ہے کہ وہ ایک لڑکے کی روح قبض کرنے کے لیئے آتے ہیں تو وہ لڑکا مہلت مانگتا ہے کہ میرے موبائل کی بیٹری ختم ہونے تک مجھے چھوٹ دے دی جائے، خواہش کے اِس اظہار کے بعد اُسے چھوٹ دے دی جاتی ہے۔ اب لڑکا اِس وقت کو خوب انجوائے کررہا ہوتا ہے، کبھی فلم دیکھتا ہے تو کبھی گانے سنتا ہے۔ اِس دوران موت کے فرشتے کو دکھایا جاتا ہے کہ وہ تنگ آگیا ہے کہ کب اس موبائل کی بیٹری ختم ہو اور وہ روح نکالے کیونکہ بیٹری بیس دن تک چارج رہتی ہے۔ العیاذ باللہ! ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے! اوپر سے فرشتے کا گیٹ اپ اس طرح کا دکھایا گیا ہے کہ وہ فرشتہ کم اور شیطان زیادہ لگ رہا ہے، آج فرشتے پر اشتہار بنا ہے کل خدانخواستہ کسی اور بزرگ ہستی کو بھی اشتہار میں دکھایا جاسکتا ہے، ایسے لوگوں سے کچھ بعید نہیں ۔

اس کے ساتھ ساتھ میں ان نام نہاد مُلّاؤں کو بھی جھنجھوڑنا چاہوں گا جن کی زبانیں اور قلم بات بات پر فتوے دیتے نہیں تھکتے، ان کا کام ہی اصل مسئلے پر بات نہ کرنا اور جس چیز کا دور دور تک نام و نشان بھی نہ ہو اس کو ایشو بنا دینا ہوتا ہے۔ برف سے سنو مین بنانا حرام ہے جیسے مضحکہ خیز اور دین کا مذاق بنانے والے فتوے دینے کے علاوہ ان نیم مُلّاؤں کو کچھ نہیں آتا۔ فون پر’ ہیلو‘ کہنا تو حرام نظر آتا ہے لیکن ہیلو بولنے کے بعد جن خرافات کا آغاز ہوتا ہے وہ نظر کیوں نہیں آتیں؟

اشتہارات کے ذریعے پھیلائی جانے والی ترغیبات پر آج تک ان خطرہ ایمان مُلّاؤں نے فتوے کیوں نہیں دیئے؟ اِس اشتہار میں مذہب اور فرشتوں کا مذاق اڑایا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اِس پر اِن سب کی بولتیاں کیوں بند ہیں؟ اِن کے مسلک پر کوئی بات کردے تو جلتے توے پر ناچنا شروع ہوجاتے ہیں لیکن دین کے بنیادی عقیدے پر حملہ ہو تو حجروں میں گُھسے بغلیں جھانکتے رہتے ہیں۔

آخر میں میری بس یہی گزارش ہے کہ خدارا! مذہب کو اپنے کاروبار کا ذریعہ نہ بناؤ اور کم از کم فرشتوں کو تو بخش دو! کچھ خدا کا خوف دل میں رکھو، ہر چیز میں مذاق نہیں کیا جاتا، مقدس رشتوں کی اہمیت تو پہلے ہی نہیں رہی اب مذہب کی اہمیت تو باقی رہنے دو! بقول اقبالؔ؎

خداوندا! یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں؟
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری

 

کیا آپ ایسے اشتہارات کے حامی ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

محمد حسان

محمد حسان

بلاگر گزشتہ 12 سال سے میڈیا اور پبلک ریلیشنز کنسلٹنٹ کے طور پر ملکی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک ہیں۔ انسانی حقوق، سیاسی، معاشی اور معاشرتی موضوعات پر لکھنے کا شغف رکھتے ہیں۔ آپ انہیں ٹوئٹر اور فیس بُک پر BlackZeroPK سے سرچ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔