سرد جنگ کی سرد خارجہ پالیسی

جاوید قاضی  ہفتہ 18 اپريل 2015
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

اس تیزی سے پردے پر منظر بدل جائیں گے، ایسا کبھی سوچا نہ تھا، یوں لگتا ہے کہ جیسے ہمارے یہاں کوئی بالشوئے تھیٹر ہو اور جیسے کوئی گھمسان کی جنگ کا منظر ہو، کوئی اوپیرا ہو اور کابروسکی کی بنائی رزمیاتی دھن میں تیزی آ گئی ہو۔

یہ جنگ کے بادل ہیں یا جنگ کے طبل ابھی بجیں گے یا بج چکے ہیں اس کا تعین اس بات سے ہو گا کہ جنگ کی تشریح کیا ہے، اس کے خدوخال کیا ہیں۔ کہیں یوں بھی ہو کہ وہ جنگ ہو بھی چکی نہ صف بنی نہ علم اٹھے نہ نعرے گرجے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیادیں ہلیں۔

یہ وہی خارجہ پالیسی ہے جس میں مضمر ہے میری صورت خرابی۔ اس لیے میں اس پردے پر آئے ہوئے منظر سے اس اور دیکھ رہا ہوں وہ صبح جس کا وعدہ ہے جو لوح ازل میں لکھی ہے وہ آئے نہ آئے مگر پاکستان کی نئی سمت کا تعین دکھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ کوئی دو چار اہل جنوں ہیں کسی کونے میں چھپے ہوئے یہ اس کے کیے ہوئے فیصلے کی جھلک تھی جو اسحاق ڈار کے ایوان میں پیش کی ہوئی قرارداد میں آویزاں تھی۔ ورنہ سب کو معلوم ہے کہ کس کس کی دبئی میں بڑی جائیدادیں۔

جب کہ میاں صاحب کی محبتیں سعود خاندان سے وابستہ ہیں۔ ہمیں آئی ایم ایف کی شرطوں نے مار ڈالا، دوسرا ہمیں پینٹا گون کے سرد جنگ سے لے کر اب تک کی حکمت عملی نے روند ڈالا کہ رہی سہی کسر عرب دنیا  نے پوری کر لی اور پاکستان ان کی پراکسی جنگوں کا میدان بن گیا۔ اور شاید ہم کرائے کے گوریلے بن گئے۔ جو جہاں چاہے ہمیں کھڑا کر دے ہم ان کے لیے لڑتے رہیں۔ بس ہمارے کشکول میں کچھ روکڑے ڈال دو، کوئی ڈالر دو۔ حیرت ہوئی دبئی کے وزیر خارجہ کے اس شوٹ کیے ہوئے پیغام پر کہ جیسے وہ یہ کہنا چاہتے ہوں  کہ ہم دو کوڑی کے ہیں اور ہماری حیثیت کیا ہے۔

سعودی حکومت کو بھی کوئی اور نہ ملا انھوں نے اپنا مذہبی وزیر بھیج دیا، جیسے پیر صاحب اپنے مریدوں کے پاس آ رہے ہوں وگرنہ کہیں ہماری عاقبت نہ خراب ہو، اگر مرشد کا کہا نہ مانا۔  سارے کی ساری دائیں بازو کی مذہبی جماعتیں پارلیمنٹ کی منظور کردہ  اس قرارداد پر ابل پڑے۔ بڑا سیدھا سادا اور اس کی گٹھی ہے کیسے مذہبی انتہا پرست بلوچ قوم پرستوں کی ایک شاخ میں گھس گئے اور درندگی سے ہزارہ کے لوگوں کو مارا، ادھر بھی چل پڑے سرحدیں پار کر کے جو بلوچ ایران اکثریت سے اپنے حقوق مانگ رہے تھے۔ یقیناً عرب ممالک اس میں ملوث نہ ہوں مگر خوش بہت تھے۔

کراچی تو دبئی کو کانٹے کی طرح چبھتا ہے۔ بیس بیس لاشوں پر جب مڈل کلاس یہ شہر چھوڑ کر جا رہی تھی تو پہلا بسیرا ان کا دبئی میں تھا۔ اور سارے کالے دھندے سفید کرنے کے لیے پہلے دبئی جاتے تھے جس کی چھوٹی سی مثال آیان علی نامی ماڈل سے ملے ہوئے پانچ لاکھ ڈالر تھے۔ اور نہ جانے کتنی ایان جیسی ماڈلز ہیں جو یہ لاکھوں ڈالر اپنی جیب میں لے کے جاتی ہوں گی۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق دبئی کی ریئل پراپرٹی میں لگ بھگ 13 ارب ڈالر پاکستانیوں کے پڑے ہیں اور اگر کراچی میں امن آ گیا تو یقیناً دبئی میں ٹھہری ہماری مڈل کلاس اپنے وطن کو لوٹے گی۔ زرداری صاحب صحیح کہتے ہیں کہ ہمیں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اس لیے کہ سب سے بڑی غیر ملک سے ترسیل زر  وہیں کام کرنے والے تارکین وطن بھیجتے ہیں اور یہی ماجرا دبئی کے حوالے سے بھی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کس قیمت پر؟ حوثیوں نے سعودی عرب پر کوئی حملہ نہیں کیا۔ جب کریں گے تو ہم دیکھیں گے۔ مگر اس وقت جانا ہمارے ملک کے اندر فقہ پرستی کا جنون ہمیں اور پھنسا دے گا۔

ایک شمع تھی دلیل سحر کی طرح، صرف ایک چین ہمارا مستقل مزاجی کے ساتھ وفادار دوست رہا۔ یورپین یونین بھی ہمارا اچھا دوست ہے اور اگر ہم اپنی سمت کا تعین کر لیں جو راستہ بنانے اور اس پر چلنا تھا اسے اپنا لیں تو یہ سارے ہمارے دوست ہیں دبئی بھی، سعودی عرب بھی، امریکا بھی، آئی ایم ایف بھی۔ لیکن گھر کا بھیدی اگر گھر میں واردات کرے گا تو اور بھی اس واردات سے مستفید ہوتے ہیں۔ گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے والی بات ہے۔ آمریتوں کے گناہ معافی (لیجی ٹیمیسی) نہیں ہوئی۔

یہ جو حشر برپا ہے یہ ابھی کا نہیں ہے اچانک نہیں ہوا۔ ہندوستان آزاد ہوا تو نہرو سوویت یونین کو نکل پڑے مگر پھر بھی کچھ توازن برقرار رکھ سکے کہ غیر وابستہ تحریک کے پلو کو بھی پکڑ ے رکھا تو جمہوریت بھی مستقل مزاجی سے رواں رہی جب کہ  ڈاکٹر امبیدکر کا پائلٹ کیا ہوا آئین بھی جڑیں لے کے بیٹھ گیا۔

اس کے برعکس جب ہمیں آزادی ملی تو ہم واشنگٹن کو چل پڑے۔ وہ تو ٹھیک ہوا مگر ہم خارجہ پالیسی کے توازن کو برقرار نہ رکھ سکے کہ جس کی وجہ سے ہمیں خروشیف نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں آڑھے ہاتھوں لیا اور سب سے بڑی ستم ظریفی کہ ہم آئین نہ دے سکے ، پھر یہ کہ آمر کے پاس سرد جنگ کے پس منظر میں اپنی قوم کو غلام رکھنے کے لیے باہر کی طاقت کی ضرورت تھی۔ اور باہر کی طاقت کو آمریت چاہیے تھی۔کہ نہ ہو پارلیمنٹ نہ قرارداد منظور کرانے کی ضرورت پڑے۔ اس بار جب پارلیمنٹ نے قرارداد پاس کی تو سعودی عرب کو یہ بات سمجھ نہ آئی کہ یہ پارلیمنٹ کیا چیز ہوتی ہے۔ کہ وہ جس پاکستان کو جانتے تھے وہاں اس سے پہلے کبھی ایسا کچھ نہ تھا۔

لیکن اب کے جو ریفارمسٹ پیدا ہوئے ہیں وہ سیاستدانوں میں سے نہیں اسٹیبلشمنٹ میں پیدا ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس پارلیمنٹ خود پارٹی کے سربراہان کے پاس گروی ہے کیونکہ ممبر پارٹی کے موقف سے انحراف نہیں کر سکا ورنہ اس کی رکنیت چلی جائے گی اور پارٹی میں جمہوریت نہیں بلکہ خاندانوں کی آمریت ہے لیکن ہر پارٹیوں کے آمر بھی عجیب ہیں، اس بار حکمراں جماعت  کی خواہش تھی کہ یمن کی جنگ میں کود پڑو۔ ایسا ہوتا تو پی پی بھی حمایت و تقلید پر مجبور ہوتی ۔

آپ مگر گھبرائیں نہیں اب ان عربوں کی ضرورت ہمیں نہیں۔ انھیں ہماری ہے، ایران کے بڑھتے ہوئے اثرات میں بادشاہتوں کے خلاف اٹھتی ہوئی بے چینی ہے۔ وہ سب ریت کے اوپر بنی عمارتیں ہیں، اب کے تیل ان کے پاس ہتھیار نہیں اگر وہ ہمیں دیوار سے لگائیں گے تو ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہم ایران کی طرف چل پڑیں گے۔ وہ ہمیں پٹرول بھی دیگا تو گیس بھی اور بجلی بھی۔

ہم اکثر یہ کہتے تھے کہ خارجہ پالیسی پارلیمنٹ کو واپس کی جائے اور ہمیشہ یہ کہتے رہیں گے، لیکن جمہوریتیں مستقل مزاجی سے نہیں چلتیں تو پھر آمریتوں کے گملوں سے نکلے ہوئے سیاستدان  نفسیاتی گماشتہ ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے اس مرتبہ خارجہ پالیسی کی ڈی فیکٹیو طاقتیں صحیح فیصلہ کرنے میں کامیاب گئیں اور اسحاق ڈار کو قرارداد تھما دی کہ پڑھو اور پارلیمنٹ سے منظور بھی کراؤ۔ مگر پھر بھی خارجہ پالیسی کے اصل وارث یہاں کی عوام ہے۔

پاکستان کو نظریاتی ریاست کے بھنور سے نکلنا ہو گا۔ ہماری خارجہ پالیسی کی بنیادیں کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر ہونی چاہئیں، تجارت اس کا بنیادی محور ہے، جب کہ ریاست کا بنیادی تصور فلاح و بہبود ہو۔ کوئی برا نہ ہوتا اگر لاہور کی ایک جامعہ میں بلوچستان کے اندر انسانی حقوق کی پامالی پر بحث ہوتی، ہمیں کھلے دل سے ان کو سننا ہو گا۔

انھیں واپس اپنے سیاسی دھارے میں لانا ہو گا۔ لیکن  مسلح جدوجہد کرنے والے بلوچ دوستوں سے  بھی گزارش ہے کہ ان غریب و مسکین مزدوروں کو مارنا یہ کون سے بلوچ سوچ کی آپ ترجمانی کر رہے ہیں ۔ اپنی جدوجہد کو مذہبی انتہا پرستوں کے ساتھ منسلک کرنا کسی بھی لحاظ سے بلوچوں کے مستقبل کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔ یقیناً بلوچ قوم پرستی عربوں کے کہنے پر ایران دشمنی کے بھنور میں اپنے آپ کو نہیں ڈالے گی اور اگر ایسا ایڈونچر کیا تو پاکستان اور ایران ایک ساتھ مل کر اس تحریک کو کچل دیں گے۔

میں نے سندھ سے زیادہ بلوچوں کی وکالت کی ہے اور میری تاریخ وکالت اس بات کی سب سے بڑی گواہ ہے۔ مسلح جدوجہدوں میں بدنصیبی سے Hijack  ہونے کی Tendency ہوتی ہے۔

رہا سوال سعودی عرب کے فنڈ پر چلنے والے مدرسوں کا کہ کس طرح انھوں نے ہمارے ملک کی مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا اور اس طرح ہمارے وجود کے لیے کیا کیا خطرے پیدا کیے ہیں۔

یقینا یہ ساری حقیقتیں اگر زرداری صاحب یا میاں صاحب سمجھتے ہوئے نالاں ہیں مگر اسٹیبلشمنٹ یہ سب سمجھ چکی ہے۔ یہ سب اسی سمجھ کی شکل ہے، جو خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی پہلی کوشش عملی صورت لے چکی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔