آج ہی جنگ کا اعلان کردیں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 18 اپريل 2015

جنگ کے بعد ملک میں تین قسم کی فوج رہ جاتی ہے زخمیوں اور اپاہجوں کی فوج ماتم کرنے والوں کی فوج اور چوروں کی فوج پیرس میں باسٹیل پر حملے سے اڑھائی ماہ پہلے جو کہ در حقیقت انقلاب فرانس کا آغاز تھا، سیاسی فلسفی اور مقرر ایڈمنڈ برک نے لندن میں پارلیمنٹ میں کہا ’’ایک واقعہ ہو چکا ہے۔

جس پر بات کرنا مشکل ہے اور خا موش رہنا ناممکن۔‘‘ برک کی صدیوں قبل کہی بات کی آج بڑی یاد آئی اس لیے کہ یمن کی صورت حال پر بات کرنا مشکل ہے اور خاموش رہنا ناممکن۔ سب سے پہلے تو آئیں ہم مل کر ماتم کریں کہ آج ایک اور اسلامی ملک لہولہان ہے اس کے انگ انگ سے خون رس رہا ہے دو الگ الگ فرقوں کے انسان ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں۔

انسانی لاشوں کے ڈھیر پر اپنی اپنی فتح کے جھنڈے گاڑنے کے لیے ایک دوسرے سے جلدی میں ہیں یہ یمن کے میدانوں اور گلیوں میں بکھری ٹوٹی پھوٹی، اعضاء سے محروم، جن کی کوئی شناخت باقی نہیں یہ لاشیں کس کی فتح کے نشان ہیں اگر یہ فتح ہے تو شکست کسے کہتے ہیں طاقت اور اقتدار حاصل کرنے کے لیے معصوموں اور بے گناہوں کو مارنے والے یہ وحشیوں اور جنونیوں کے غو ل کے غول اگر یہ انسان ہیں تو پھر درندے کسے کہتے ہیں۔ ہومر نے کہا تھا انسانوں کے قتل پر فتح کے شادیانے بجانا اچھی بات نہیں۔

آئیے 1930ء میں دیے گئے آرچ بشپ سوئیدر بلوم کے نوبل خطبے سے اس کے ایک دوست کے لکھے خط کا اقتباس پڑھتے ہیں۔ جس نے خود عالمی جنگ کی تباہی دیکھی تھی اور اس وقت جب عارضی جنگ بندی ہوئی تھی اور اس کا جشن منایا جا رہا تھا اس نے لکھا تھا ’’دنیا نے ابھی تک پورا خون نہیں دیکھا ہے جو انسانی ہوش و حواس، گناہ، رشک اور ظلم کی خاطر بہایا گیا تھا۔

اس دن جنگ بندی کے ہمراہ بگل، جھنڈے اور خوشیاں نہیں تھیں بلکہ اس دن تو وہ ایک قبر سے دوسری قبر، ایک میدان سے دوسرے میدان، لنگڑاتی پھر رہی تھی ہمارے کانوں کو اب بھی اپنے زخمی دوستوں کی موت کی کرائیں سنائی دیتی ہیں، اسلحوں کی چمک دمک ختم ہو گئی ہے، انسان دیوالیہ ہو چکا ہے، لوگ تھک کر خستہ حال ہو چکے ہیں بس اس بات پر خوش ہیں کہ موت سے بچ نکلے ہیں، انسان نے اپنے ہتھیار ڈال دیے ہیں اس کو فتح نہیں کہا جاتا یہ تو تمام حریفوں کی شکست ہے۔

چیتھڑوں میں لپٹے بیمار بھوکے اور بدحواس لوگ بے مقصد تباہ شدہ میدانوں میں پھرتے دکھائی دیتے ہیں عارضی جنگ بندی کی بھیانک خاموشی میں وہ اپنے راستے تلاش کرتے پھر رہے ہیں ان گھروں کی یاد میں ہیں جو کہیں تھے کبھی تھے عظیم دنیا تباہ ہو چکی ہے، منظم طاقت ٹوٹ پھوٹ چکی ہے، پرانے خدا خون اور نفرت سے آسودہ ہو گئے ہیں پرانے کپڑوں کو جلانا پڑے گا خون بھری وردیاں اب کسی کام کی نہیں رہی ہیں اب نہ یہ بچوں کو ڈرا سکتی ہیں نہ جوانوں کو رجھا سکتی ہیں۔

جن لوگوں کو ہم سے چھین لیا گیا ہے شاید ان کے دلوں سے بنی ہوئی کھاد بارہ برس بعد پھولوں کو زندگی دے رہی ہے جنگ کو محبت کے بجائے نفرت سکھانی تھی وہ ہاتھ جو ایک دوسرے کو پیار سے سہلانا چاہتے تھے اب سکڑ رہے ہیں وہ لب جو اچھی اچھی پیاری پیاری باتیں کرنے کے آرز ومند تھے مرجھا گئے ہیں، کیا تمام یتیم، بیوائیں اور بھائیوں سے بچھڑے اب زیادہ خو ش حال زیادہ سچی دنیا کو دیکھ رہے ہیں، کیا اس دنیا میں نفرت کم ہے رشک کم ہے مایوسی کم ہے۔‘‘

آج یمن میں سارا تنازعہ ہی اختلا ف کا ہے فرق نسل کا ہے مذہب کا یا قومیت کا ہے یورپ کے سرخیلوں نے فیصلہ کیا کہ فرق میں کوئی خطرہ نہیں ہوتا فرق فطری ہوتا ہے فرق دراصل انسانیت کا نچو ڑ ہے۔

فرق ایک پیدائشی حادثہ ہوتا ہے اور اس کو کبھی نفرت یا تنازعے کا سبب نہیں ہونا چاہیے فرق کا جواب یہ ہے کہ اس کا احترام کیا جائے اور اسی میں امن کا بنیادی اصول مضمر ہے کہ فرق کی بوقلمونی کا احترام کیا جائے یورپ کے لوگوں نے ادارے تشکیل دیے جنہوں نے فرق کا احترام کیا سب کو باہمی معاشی فوائد کے لیے مل کر کام کرنے کی اجازت دی گئی۔

انھوں نے خون نہیں اپنا پسینہ بہایا اور اس عمل میں انھوں نے بداعتمادی کی ساری رکاوٹیں مسمار کر دیں اور ایک نیا یورپ وجود میں آیا جو فرق کے احترام کے اقرار کی بنیاد پر روز افزوں ترقی کر رہا ہے۔ جب کہ ہم اس کے بالکل برعکس فرق کے احترام کے بجائے فرق کو ہی طاقت سے ختم کر نے پر تلے بیٹھے ہیں۔ یاد رہے آپ کی ساری ترقی، خو شحالی اختلاف پر اتفاق میں پوشید ہ ہے اگر آپ اختلاف پر اختلاف کریں گے تو آپ کو تباہ و برباد ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا طاقت کے ذریعے ہو سکتا ہے۔

آپ وقتی طور پر فتح یاب ہو جائیں لیکن یاد رہے یہ آپ کی فتح نہیں بلکہ آپ کی بھی شکست ہو گی آج ساری دنیا مل کر جہالت، انتہا پسندی، غربت، افلاس اور بیماریوں کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے اور فتح پر فتح حاصل کرتی جا رہی ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام اسلامی ممالک بھی مل کر اپنے اصل دشمنوں جہالت، انتہاپسندی، غربت، افلاس اور بیماریوں کے خلاف لڑتے اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر اپنے لوگوں کو جہالت، غربت، انتہا پسندی، افلاس اور بیماریوں کی دلدل سے باہر نکال کر ان کی زندگیوں میں خوشحالی، ترقی اور خوشیاں بھر دیتے اگر وہ ایک دوسرے کے فرق کا احترام کرتے تو آج ہمیں یہ اجڑے، برباد، زخمیوں اور لاشوں سے بھرے میدان نہ دیکھنے پڑتے آج ہم انسانیت کو اسی طرح اجڑتے ہوئے نہ دیکھ رہے ہوتے آج اس طرح ہمیں یتیموں اور بیواؤں کو بلکتے اور سسکتے نہ دیکھنا پڑ رہا ہوتا ۔

ابھی بھی بہت کچھ ہے جو باقی ہے ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے آئیں فرق کا احترام کرتے ہوئے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر اپنے اصل دشمن جہالت، انتہا پسندی، غربت، افلاس اور بیماریوں کے خلاف آج ہی جنگ کا اعلان کر دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔