ملالہ کو کس قانون کے تحت نوازا جارہا ہے؟

محمد عثمان فاروق  ہفتہ 18 اپريل 2015
 جناب مجھے ملالہ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے بات اصول اور قاعدے کی ہے۔

جناب مجھے ملالہ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے بات اصول اور قاعدے کی ہے۔

معزز قارئین جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ رنگ میں بھنگ ڈالنا میری عادت ہے لہذا اس بار بھی ایک نہایت ہی اہم موضوع لے کر آپکی خدمت میں حاضر ہوا ہوں، یاد رہے کہ اس موضوع کا تعلق نہ صرف پاکستان بلکہ بنی نوع انسان کی آنے والی نسلوں کے ساتھ بھی ہے۔

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ناسا نے مریخ اور مشتری کے درمیان دریافت ہونے والے سیارچے کا نام ’’ملالہ‘‘ رکھ دیا۔ واقعات کے مطابق ناسا کی ڈاکٹر کیری نوگینٹ نے ملالہ کے بارے میں کسی امریکی رسالے میں پڑھا اور انہیں ملالہ اتنی پسند آئی کہ اس نئے دریافت شدہ سیارچے کا نام ملالہ رکھ دیا۔

حیرت اس بات پر ہوئی میرے ہم وطن بھائیوں نے اس پر خوشی سے بغلیں بجانا شروع کردیں لیکن وہ بھول گئے کہ آخر ناسا کے پاس کونسی ایسی اتھارٹی ہے جس کے تحت انہوں نے اس سیارچے کا نام ’’ملالہ‘‘ کے نام پر رکھ دیا۔ اب بہت سے لوگوں کو شاید میری بات پر غصہ آئے کہ آخر یہ نقطہ نکالنے کی ضرورت کیا تھی؟ ملالہ پاکستان کی بیٹی ہے اس کا نام سیارچے کے نام پر رکھ دیا تو مجھے کیوں تکلیف ہورہی ہے؟

 

تو جناب مجھے ملالہ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے بات اصول اور قاعدے کی ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اپنی بات واضح کرنے کے لیے مزید دلائل دوں میں ایک اور خبر سنانا چاہتا ہوں جس سے میری بات کافی حد تک واضح ہوجائے گی۔ آپکو یاد ہوگا کہ چند ماہ پہلے ایک خبر آئی تھی کہ تین یمنی باشندوں نے ناسا پر مقدمہ کردیا تھا کہ سیارہ مریخ انکو تین ہزار سال پہلے اپنے آباو اجداد سے وراثت میں ملا تھا لہذا ناسا کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ مریخ پر اپنے خلائی جہاز اتارے۔ یمنی باشندوں نے اپنے اس دعوے سے متعلق پروسیکیوٹر جنرل کو دستاویزی ثبوت بھی پیش کئے جس کو حیران کن طور پر پروسیکیوٹر جنرل نے درست تسلیم کر لیا جبکہ یمنی شہریوں کے اس دعوے کو ناسا نے بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ قرہ ارض میں موجود تمام سیارے و ستارے تمام انسانوں کی ملکیت ہیں۔

 

جن دنوں میں نے یہ خبر پڑھی تو میں بہت خوش ہوا اور سوچا اس قرہ ارض میں تو لا تعداد سیارے ہیں اگر ان سیاروں کا رقبہ تمام انسانوں میں تقسیم بھی کردیا جائے تو پلوٹو وغیرہ پر تین چار کنال میرے حصے میں بھی نکل ہی آئیںگے۔ تھوڑا بے ایمانہ خیال یہ بھی آیا کہ جب سیاروں پر ناجائز قبضوں کا سلسلہ چل ہی نکلا ہے تو میں بھی مشتری یا زحل پر قبضے کا دعوی کردوں لیکن ناسا کے جواب نے تو امیدوں پر پانی پھیر دیا کہ تمام سیارے تمام انسانوں کی یکساں ملکیت ہیں تو پھر سوال پیدا ہوا کہ مریخ اور مشتری کے درمیان سیارچے کا نام رکھنے سے پہلے ناسا نے تمام انسانوں سے اجازت لی؟ کیا اقوام متحدہ میں اس معاملے پر ووٹنگ ہوئی؟ کیا دنیا کے تمام ممالک کی پارلیمنٹ نے اس بات کی توثیق کی؟

آپ کہیں گے اتنی سی بات پر اجازت لینے کی کیا ضرورت ہے۔ تو جناب یہ اتنی سی بات نہیں ہے۔ بات ہے ناسا کی بالادستی ماننے کی۔ جب وہ سیارچہ ناسا کی ملکیت ہی نہیں ہے تو ناسا کس قانون کے تحت اسکو ’’ملالہ‘‘ نام دے رہا ہے۔ فرض کیجئے آپکی شادی ہوتی ہے آپکا بچہ پیدا ہوتا ہے اور ناسا والے اس بچے کا نام ’’ملالہ‘‘ کے نام پر رکھ دیں تو کیا آپکو اچھا لگے گا؟ آپ لڑ پڑیں گے آپ کہیں گے بچہ میرا ناسا والے کیا بچے کے پھوپھڑ لگتے ہیں جوا س کا نام رکھ رہے ہیں۔ ناسا والوں کو ’’ملالہ‘‘ کا نام پسند ہے وہ تو اپنے ادارے کا نام بدل کر ملالہ رکھ لیں۔ جس چوک میں ناسا والوں کا دفتر ہے اس چوک کا نام ملالہ رکھ لیں۔

لیکن ایک سیارچہ جو ناسا کی ملکیت نہیں ہے آخر اس سیارچے کا نام ناسا والے ملالہ کے نام پر کیسے رکھ سکتے ہیں؟ یہ نبی نوع انسان کے ساتھ اتنا بڑا فراڈ ہے کہ آنے والی نسلیں شاید ہماری کم عقلی پر ہمیں گالیاں دیں لیکن ہم ہیں کہ احتجاج کرنے کے بجائے خوشی سے تالیاں بجا رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں بھتہ خور کسی نئے علاقے میں بھتہ خوری کا آغاز کیسے کرتے ہیں؟ یہ لوگوں سے پہلے نہایت معمولی بھتہ مانگتے ہیں لوگ یہ سوچ کر بھتہ دینا شروع کردیتے ہیں کہ چلو ایک دو روپے کی کیا بات ہے بات بنا جھگڑے کے ختم ہوتی ہے تو ہوجائے مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ یہ معمولی بھتہ ادا کرکے بھتہ خور کی بالادستی تسلیم کررہے ہوتے ہیں۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی ایسے ہی معمولی باتوں سے آغاز کرکے پورے برصغیر پر قبضہ کرلیا تھا۔ زمین کے معدنی وسائل پٹرول، گیس وغیرہ ایک دن ختم ہوجائیں گے تب معدنی وسائل کے لیے زمین سے باہر خلا میں موجود دوسرے سیاروں کو کھنگالا جائے گا۔ اگر ایسے ہی ناسا کی ’’چھوٹی چھوٹی‘‘ ناجائز باتوں کو مانتے رہے تو کیا تب ناسا ان سیاروں سے ملنے والے معدنی وسائل میں تمام انسانوں کو حصہ دار بنائے گا؟ ہرگز نہیں ۔۔۔ اس لیے میں ناسا کی اس ناجائز بالادستی کے خلاف بھرپور مذمت کرتا ہوں۔ کوئی بولے یا نہ بولے آنے والی نسلیں گواہی دیں گی کہ ایک محمدعثمان فاروق نامی شخص تھا اس نے ناسا کی اس ناجائز بالادستی کے خلاف اسوقت ایکسپریس نیوز میں اردو بلاگ لکھ کر آواز اٹھائی جب سب لوگ اس فراڈ پر مذمت کی بجائے خوشی کی بغلیں بجا رہے تھے۔

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

عثمان فاروق

محمد عثمان فاروق

بلاگر قومی اور بین الااقوامی سیاسی اور دفاعی صورت حال پر خاصی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سائنس فکشن انکا پسندیدہ موضوع ہے۔ آپ ان سے فیس بک پر usmanfarooq54 اور ٹوئیٹر پر @usmanfarooq54 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔