’’اب قیادت کی باری ہماری ہے‘‘

شبینہ فراز  اتوار 19 اپريل 2015
کرۂ ارض پر جنم لیتی تباہ کن قدرتی آفات اب نوشتہ دیوار بن چکی ہیں,فوٹو : فائل

کرۂ ارض پر جنم لیتی تباہ کن قدرتی آفات اب نوشتہ دیوار بن چکی ہیں,فوٹو : فائل

اس بار 45 ویں یوم الارض کا موضوع ہے  It’s Our Turn to Lead۔۔۔۔۔۔ اور مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ جی ہاں! اب ہماری ہی باری ہے قیادت کی، یعنی ان لوگوں کی جو زمین اور ماحول کے بارے میں سوچتے ہیں۔

بیسویں صدی میں ہم نے قیادت سائنس اور ٹیکنالوجی کو سونپ دی۔ وہ وہ ایجادات ہوئیں کہ بس عقل دنگ رہ جائے۔ دوسرے سیاروں پر کمند ڈالی گئیں۔ صنعتی ترقی انتہا کو پہنچی۔ سفر کے نئے نئے تیزرفتار ذرائع وجود میں آئے۔ کمپیوٹر کی آمد نے تو بس کمال ہی کرڈالا۔ پوری دنیا سمٹ کرایک اسکرین میں آگئی اور اسمارٹ فون نے اس دنیا کو آپ کی مٹھی میں بند کردیا۔ دنیا تو گلوبل ولیج بن کر مٹھی میں آگئی۔ سیاروں پر بھی کمندیں پڑگئیں لیکن۔۔۔۔ اور بھی بہت کچھ ہوا۔

اس بے لگام صنعتی دوڑ نے بہت کچھ تلپٹ کرڈالا۔ قدرت نے سورج کی ضرر رساں شعاعوں سے بچانے کے لیے زمین کے اوپر اوزون کی چھتری بنائی تھی، اسے مضر گیسوں نے توڑ ڈالا، سرسبز جنگلات جو صاف آکسیجن فراہم کرتے تھے انہیں کاٹ ڈالا، پرندوں اور جانوروں کے مسکن اجاڑ ڈالے۔ زیادہ کی لالچ نے سبزانقلاب کے نام پر زمین اور خوراک کو کیمیائی زہر سے آلودہ کیا۔

پھر یہی آلودہ خوراک کھاکر ہم نے نت نئی بیماریوں کو دعوت دی۔ مضر گیسوں نے زمین کا درجۂ حرارت بڑھاکر موسموں کو بے ترتیب کیا۔ ہزارہا سال پرانے گلیشیئر پگھلے۔ بارشوں کا نظام تلپٹ ہوا۔ غرض کہ اس نام نہاد اور بے لگام ترقی کی دوڑ اور بڑھتی ہوئی آبادی نے نہ صرف کرۂ ارض کے ماحول بل کہ انسانی حیات کو بھی شدید خطرات سے دو چار کردیا۔

جہاں ایک طرف قدرتی وسائل ہر گزرتے برس کے ساتھ کم ہورہے ہیں وہیں انسان دوسری طرف اپنے ماحول کو بے دردی سے تباہ کر رہا ہے۔ کرۂ ارض پر جنم لیتی تباہ کن قدرتی آفات اب نوشتہ دیوار بن چکی ہیں لیکن اسے پڑھنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی سے متعلق نقصانات کا تخمینہ 365 ارب روپے سالانہ ہے۔

وسائل کے بے دریغ اور غیردانش مندانہ استعمال اور ماحول دشمن سرگرمیوں سے پائے دار ترقی اور محفوظ مستقبل بھی خطرے میں پڑگئے ہیں، لیکن اب جب کہ ماہر ماحولیات یہ عزم کررہے ہیں کہ اب دنیا کی قیادت ہم کریں گے تو آئیے! ہم بھی جائزہ لیتے ہیں کہ ہم اپنے وسائل سے پاکستان میں کیا ماحول دوست تبدیلیاں لاسکتے ہیں۔ کیا اپنے وسائل کی مدد سے ایک نیا پاکستان تشکیل دے سکتے ہیں !!!

ہمیں سب سے پہلے اور اولین ترجیح کے طور پر ماحولیاتی تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ اگرچہ پاکستان میں متعدد تعلیمی ادارے اس مضمون میں انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کی سطح پر تعلیم فراہم کر رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس شعبے (ماحولیاتی جائزوں) میں ماہرین کی تعداد بہت ہی کم ہے۔

دوسری ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والوں کا علمی اور عملی معیار بلند نہیں ہے یا بہت کم ہے کیوں کہ خود اساتذہ کو اس موضوع کی مناسبت سے عملی تجربات حاصل نہیں نیز یہ کہ تعلیمی اداروں کے درمیان باہمی رابطوں کی کمی ہے۔ چناںچہ یہ ضروری ہے کہ ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیم کے اداروں کی اہلیت کو بڑھایا جائے تاکہ وہاں معیار تعلیم مزید بہتر ہو۔

اس وقت پاکستان میں ہائرایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے منظور شدہ ثانوی تعلیم کے 74 سرکاری اداروں میں سے 29 میں گریجویٹ اور انڈرگریجویٹ کی سطح پر ماحولیاتی سائنس اور ماحولیاتی انجینئرنگ کی تعلیم دی جارہی ہے۔ اس کے مقابلے میں ملک میں ایسے ہی ساٹھ نجی تعلیمی اداروں میں سے صرف پانچ میں یہ تعلیم دی جارہی ہے۔

اگرچہ بہتری کے لیے پاکستان کے ماحولیاتی اثرات کے جائزے کے نصاب کا بھارت، سنگا پور، آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکا کے نصاب سے موازنہ بھی کیا جاچکا ہے، تاکہ ہمارے نصاب کی کوتاہیوں اور خامیوں کو دور کیا جاسکے، جو کہ ایک بہتر اقدام ہے۔ پاکستان کا ماحولیاتی منظر نامہ بدل رہا ہے۔ عوامی سطح پر شعوروآگہی میں اضافہ ہورہا ہے۔ پائے دار ترقی کی اصطلاح اپنے تمام تر معنوں کے ساتھ لوگوں کی سمجھ میں آرہی ہے۔

شہری تنظیمیں بھی ترقیاتی پروگراموں کے حوالے سے ماحولیاتی تجزیوں پر زور دے رہی ہیں اور دوسری جانب ہماری عدالتیں بھی اس حوالے سے خاصی فعال نظر آنے لگی ہیں ۔ حکومت کی جانب سے بھی منصوبہ بندی اور ترقیاتی کاموں کے لیے متعلقہ اداروں کو بھی پابند کیا گیا ہے کہ وہ ماحولیاتی اداروں سے منظوری حاصل کریں۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان میں ماحولیاتی تعلیم و تربیت کے حوالے سے معاملات اتنے حوصلہ افزا نظر نہیں آتے۔ ہمارا یہ شعبہ ہنوز اصلاح طلب ہے۔

گذشتہ کچھ دہائیوں میں ’’سبز انقلاب‘‘ کی بدولت دنیا کے غذائی پیداوار کے نظام میں خاصی تبدیلیاں آئی ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ’’سبز انقلاب‘‘ سے نہری آب پاشی والے علاقوں کے کسانوں کو خاصا فائدہ بھی ہوا ہے لیکن کچھ نچلے طبقے کے کاشت کار اس فائدے سے محروم ہی رہے ہیں۔

پچھلی چند دہائیوں کے دوران کیمیائی کھاد اور جراثیم کش ادویات کے استعمال، آب پاشی کی وسعت اور زیادہ پیداوار دینے والی اقسام اور چند نئی اقسام کے پودوں وغیرہ کو عام کرنے کی کوششوں کے لیے اس سبز انقلاب میں اچھی خاصی سرمایہ کاری کی گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حکمت عملی کی بدولت پچھلے پچاس سال کے دوران غذائی پیداوار میں خاصا اضافہ ہوا ہے اور اس کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک میں فاقہ کشی کا خاتمہ ہوگیا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ سبز انقلاب دنیا کے کئی ممالک میں غربت کے خاتمے میں کام یاب نہیں ہوا ہے۔

یہ بھی درست ہے کہ سبز انقلاب کی ٹیکنالوجی اب دنیا کی غذائی پیداوار میں اہمیت کی حامل رہے گی، لیکن یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ اس سبز انقلاب کی وجہ سے عدم مساوات میں بھی اضافہ ہوا ہے، غربت کا معیار اور بھی بڑھ گیا ہے اور اس ٹیکنالوجی نے ماحولیاتی تنزلی میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ اس جدید کاشت کاری کے منفی اثرات میں غذائی اجناس کا تحفظ اور ماحولیاتی تنزلی یا ماحول پر منفی اثرات لوگوں کے لیے تشویش کا باعث ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ کئی علاقوں، خصوصاً ترقی یافتہ ممالک میں مصنوعی یا کیمیائی کھاد اور جراثیم کش ادویات کے استعمال کے بغیر پیدا کی جانے والی غذائی اشیا زیادہ مقبول ہو رہی ہیں۔

ایسی اشیا کی مانگ میں خصوصاً یورپ، شمالی امریکا اور چند ایشیائی ممالک میں بھی اضافہ ہورہا ہے جو کیمیائی کھاد کے بغیر قدرتی یا گوبر کی کھاد کی مدد سے پیدا کی جاتی ہے۔ 1998ء اور 2002ء کے درمیان آرگینک طریقوں سے (یعنی قدرتی کھاد وغیرہ کے استعمال سے) پیدا کی جانے والی غذائی اجناس کی شرح 17.7 فیصد تھی۔ 2004ء میں ایسی اشیا کی مالیت 27.8 ملین (یعنی دو کروڑ اٹھتر لاکھ) ڈالر ہوگئی۔ ایسی اجناس کی سب سے زیادہ مانگ یورپ اور شمالی امریکا میں ہے اور ان ممالک کے بعد برازیل اور مشرق وسطیٰ کا نمبر آتا ہے۔

ہمارے ہاں دیسی یا گوبر کی کھاد وافر مقدار میں دست یاب ہے جس کے استعمال سے کاشت کاری کے فوائد کے حصول اور ماحول کی بہتری کے لیے یہ ضروری ہے کہ ماحولیاتی نظام سے متعلق تحقیقات، معلومات اور ٹیکنالوجی کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے واقف ہو سکیں۔

کیمیائی کھاد اور جراثیم کش ادویات کے استعمال کو مکمل طور پر ترک کرکے زراعت میں گوبر کی دیسی یا قدرتی کھاد کے استعمال کو عام کرنے کے لیے ایسے پیشہ ور ماہرین زراعت کی ضرورت ہوگی جو مقامی آبادیوں اور لوگوں کو نئے کاشت کاری اور کاروباری طریقوں سے روشناس کرائیں، تاکہ مقامی طور پر غذائی اشیا کی پیداوار میں اضافے، ایک مختلف اور لچک دار نظام، زراعت کے قیام اور ماحولیاتی نظام کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔

اس ضمن میں یہ ضروری ہے کہ تحقیقی نتائج اور تربیتی توسیع کے ذمے دار خود بھی مقامی حالات سے پوری طرح واقف ہوں۔ اس کے علاوہ ان کاموں کے لیے چھوٹے پیمانے پر سرمائے کی فراہمی بھی بہت ضروری ہے۔

انسانیت کی بھلائی اور معاشی ترقی کے لیے بہتر ماحولیاتی نظام ضروری ہے اور حیاتیاتی تنوع ایک بہتر ماحولیاتی نظام کی بنیاد ہے۔ حیاتیاتی تنوع اور بہتر ماحولیاتی نظام معاشی ترقی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں، لیکن چوںکہ ماحولیاتی نظام کے تحت آنے والی بہت سی خدمات کی خرید و فروخت بازاروں میں نہیں ہوتی اس لیے دیگر تجارتی اشیا کی طرح ان کی قیمت کا تعین ممکن نہیں۔

اس کے علاوہ ماحولیاتی سچائی بھی سامنے نہیں آتی، اور اگر منڈیوں کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو نہ تو صحیح ماحولیاتی حقیقت عیاں ہوگی اور نہ ہی افراد اور اداروں، حتیٰ کہ حکومت تک کو تحفظ پسندانہ ماحولیاتی نظام اور حیاتیاتی تنوع کی مفید انداز میں استعمال کرنے کے لیے مناسب ترغیبات حاصل ہو سکیں گی۔

1992ء میں ریو (Rio) میں منعقدہ کانفرنس میں اقوام متحدہ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ حیاتیاتی تنوع کو تحفظ دینے اور نقصانات کو 2010ء تک مکمل طور پر ختم کرنے کی کوششوں پر کام کیا جائے۔ حیاتیاتی تنوع کا کنونشن (کنوینشن آف بائیو لاجیکل ڈائیورسٹی) جسے CBD کہا جاتا ہے، ریو کے تین کنوینشنوں میں سے ایک ہے۔

اس کنوینشن کو ایک انتہائی متوازن اور قانونی بین الاقوامی معاہدہ قرار دیا جاسکتا ہے، جس کے تحت تمام شریک قوتوں کو حیاتیاتی تنوع کی بقا یا تحفظ، قدرتی وسائل کے تحفظ پسندانہ استعمال اور حاصل شدہ فوائد کو مساوی طور پر تقسیم کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔

حالیہ چند سالوں میں قدرتی یا دیسی یا گوبر کی کھاد یا آرگینک طریقوں سے پیدا کی جانے والی اجناس کی برآمد میں برابر اضافہ ہورہا ہے۔ 1995ء میں ایسی غذائی اجناس کی کل برآمدی مالیت تین لاکھ ڈالر تھی جو 1999ء میں پندرہ ملین یعنی ڈیڑھ کروڑ ڈالر ہوگئی اور 2002ء میں اس کی مالیت بڑھ کر پچاس ملین یا پانچ کروڑ ڈالر ہوگئی۔

آج کے زمانے میں دنیا میں خوراک کی کل پیداوار ضرورت سے زیادہ ہے، لیکن خوراک کی فراہمی کے ساتھ اس کی مناسب حفاظت کا کوئی نظام موجود نہیں۔ گھریلو سطح پر خوراک کی حفاظت غربت کی وجہ سے سب سے بڑی رکاوٹ لگتی ہے اور غربت کا خاتمہ ایک پیچیدہ ترقیاتی معاملہ ہے۔

اس وقت پاکستان توانائی کے بحران کا شکار ہے اور کیمیائی کھاد کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ گھریلوکھاد کی مدد سے کاشت کاری پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں بے انتہا فائدہ مند ثابت ہو ئی ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اس ذریعۂ کاشت میں ہمیں افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمارے ملک میں وافر مقدار میں اور نسبتاً بہت ارزاں ہے۔ نیز یہ کہ تجربات نے ثابت کردیا ہے کہ ترقی پزیر ممالک میں روایتی کھیتی باڑی سے آرگینک (Organic) فارمنگ (دیسی یا قدرتی کھاد کی مدد سے کی جانے والی کاشت) میں منتقلی بہت آسان ہے۔

اس کے علاوہ ایک اہم وسائل ہمارے ادویاتی پودے ہیں جن کی عالمی مارکیٹ میں بہت مانگ ہے۔۔ ترقی پزیر دنیا کی ستر فی صد سے زائد آبادی کا انحصار اب بھی ادویات کے متبادل نظام پر ہے۔ یعنی وہ ترقی پزیر معاشرے میں مقبول عام ادویات کے بجائے دیگر ذرائع اور متبادل ادویات کو پسند کرتے اور انہیں استعمال کرتے ہیں۔ مختلف امراض کے لیے تیار کی جانے والی ادویات میں استعمال ہونے والے پودوں کے سلسلے میں پاکستان بہت اہمیت رکھتا ہے۔

ہمارا ملک ادویات میں استعمال ہونے والی جڑی بوٹیوں اور پودوں کے آٹھ بڑے برآمد کنندگان میں سے ایک ہے۔ اس صنعت یا کاروبار کو وسعت دینے کے لیے مختلف سطحوں پر دوسروں کے ساتھ معاونت اور شراکت داری کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں باہمی معاونت کی بنیاد پر علاقائی اور بین الاقوامی اتحاد قائم کیا جاسکتا ہے۔

مثال کے طور پر وسائل کے تحفظ پسندانہ استعمال کے فوائد معاشرے کے لوگوں کی شرکت اور معاونت سے بہ خوبی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اس اہم مقصد کے لیے غیر سرکاری اداروں اور تنظیموں کو بھی دیسی کھاد یا آرگینک فارمنگ کی مقبولیت کے لیے کوششوں میں شامل ہونا چاہیے۔

ایک صحیح اور بامعنی معاونت اورشراکت سے ماحولیاتی اور حیاتیاتی تنوع کی نگہداشت اور تحفظ کے مقاصد زیادہ آسانی سے حاصل کیے جا سکتے ہیں اور اس کے ذریعے ادویات میں استعمال ہونے والے پودوں وغیرہ کی بطور خام مال بین الاقوامی تجارت میں بھی خاطر خواہ فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن ان تمام مقاصد کے حصول کی خاطر سرکاری پالیسیوں پر با مقصد عمل درآمد اور برآمد کنندگان کو مناسب ترغیبات دینے کی ضرورت ہے۔

تھوڑی سی کوشش سے یہ وہ صنعت ثابت ہوسکتی ہے جس میں ہمارے بے روزگار نوجوان ہزاروں کی تعداد میں روزگار حاصل کرسکتے ہیں۔ ان شعبوں میں نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد کو استعمال کر کے دیسی یا قدرتی (گوبر کی) کھاد کے استعمال سے گھریلو اور نباتاتی (یا جڑی بوٹیوں) پودوں سے تیارکردہ اشیا کو دنیا بھر میں متعارف اور مقبول کراکے پاکستان کی معیشت کو بہت وسعت دی جاسکے گی۔ اس سے پاکستان کی سبز معیشت کو بھی وسعت دینے میں مدد ملے گی۔

ان اقدامات کے ذریعے قدرتی وسائل اور ماحولیاتی نظام کے تحفظ پسندانہ اور محتاط استعمال کے علاوہ سبز معیشت کی ترقی اور غربت کا خاتمہ یا کمی ہے اور ملک کی بے پناہ اقتصادی صلاحیتوں کو آزاد چھوڑ کر معاشرے کو اپنی غذائی ضروریات کے حصول اور کاشت کے نظام یا طریقوں کو ترقی دینے اور اپنی پیداوار کے ذریعے دولت کمانے میں مدد ملے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔