انسان اپنے ذہن کا غلام ہے

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 22 اپريل 2015

تھیوڈور روز ویلٹ کا کہنا تھا کہ جب وہ صدر تھے اور انھیں کوئی مشکل مرحلہ پیش آ جاتا تو وہ اپنی آرام کرسی پر تکیہ لگا کر بیٹھ جاتے اور لنکن کی قد آدم تصویر کی طرف دیکھا کرتے تھے جو ان کی میز کے اوپر وائٹ ہاؤس میں آویزاں تھی اور اپنے دل سے یہ سوال کرتے تھے اگر اس وقت میری جگہ لنکن ہوتے تو اس موقعے پر کیا کرتے وہ کس طرح اس مسئلے کو حل کرتے۔ یہ تھا عظیم امریکی صدر روز ویلٹ کا اپنے آپ کو درپیش آنے والے مسائل کو حل کرنے کا طریقہ کار۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے بڑا ہی سیدھا سادہ سا سوال پیدا ہوتا ہے کیا ملک اس طرح چلتے ہیں۔

جس طرح ہمارے حکمران اسے چلاتے رہے ہیں کیا قومی رہنماؤں کی سیاسی بصیرت، فیصلے، ویژن، عقل و دانش اس طرح کی ہونی چاہیے جیسے ہمارے قومی رہنماؤں کی ہے۔ کیا ذاتی مفادات قومی مفادات سے زیادہ عزیز ہونے چاہیں کیا قائد اعظم، علامہ اقبال کی روحیں اپنے جانشینوں کو دیکھ کر خوش ہوتی ہوں گی کیا وہ بے فکر ہوں گے کہ ان کے بعد ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے کیا ملک قائد اعظم اور علامہ اقبال کے ویژن اور تصورات کے عین مطابق چلایا جا رہا ہے۔

کیا دہشت گردی۔ بدامنی، جہالت، انتہاپسندی، غربت، مہنگائی، بے روزگاری پر ہمارے قومی رہنما اس قدر ہی پریشان اور فکر مند ہیں جیسے کہ پاکستانی قوم ہے۔ کیا ہمارے قومی رہنما اپنی ساری شان و شوکت اور عیش و آرام کو قوم کے غم میں لات مار چکے ہیں۔ کیا موجودہ عذابوں سے باہر نکلنے کے لیے تمام قومی رہنما سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں کیا انھیں ملک اور قوم کی فکر دن رات کھائے جا رہی ہے۔

کہا انھیں اس بات کا احساس ہے کہ عرب ممالک میں ہونے والی تبدیلیوں، امریکا کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد پیدا ہونے والی نئی صورتحال کے منفی اثرات سے پاکستان کو کیسے محفوظ رکھا جائے گا۔ کیا وہ دن رات ملکی اور غیر ملکی صورتحال پر غور و فکر کر رہے ہیں، کیا پاکستان کو درپیش تمام مسائل کا حل ڈھونڈا جا رہا ہے۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان سوالات کے جواب کا شرمندگی کے علاوہ کسی کے پاس اور کوئی جواب نہیں پال پارکر کہتا ہے ’’لیڈر سوچتے ہیں وہ اس لیے سوچتے ہیں کیونکہ وہ لیڈر ہوتے ہیں اور وہ لیڈر بھی اس لیے ہوتے ہیں کیو نکہ سوچتے ہیں۔‘‘ آپ صرف اتنا ہی کام کر سکتے ہیں جتنا آپ سوچتے ہیں اس سے زیادہ آپ کبھی بھی کچھ نہیں کر سکتے۔

آپ کے خیال میں سب سے اہم دریافت کون سی ہے، کیا منگولیا کے میدانوں میں ڈائنوسار کے انڈوں کی برآمدگی جس کے بارے میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ تقریباً دس ملین سال زمانہ قدیم سے تعلق رکھتے ہیں یا قدیم شہروں اور مزاروں کی دریافت جن کے بابت کسی مقدس الہامی کتاب میں تصدیق بھی موجود ہو اور ان کے بے نظیر نمونے قدیم تہذیبوں سے ملتے ہوں یا تابکاری کے ذریعے اوقات کا تعین کرنا جس کے ذریعے Tufts Collage کے پروفیسر لین نے زمین کی عمر کا اندازہ ایک بلین دو سو پچاس ملین سال لگایا تھا۔

ریڈیو، ہوائی جہاز، ایٹمی توانائی، ہائیڈروجن بم، بجلی، نہیں ان میں سے کوئی بھی نہیں بلکہ سب سے عظیم دریافت سوچ ہے ہر انسان تخلیقی طاقت رکھتا ہے اس کو ذہانت اور وسائل عطا کیے گئے ہیں اور وہ اس طاقت کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر سکتا ہے وہ اپنے ذہن کا اسی طرح غلام ہے جس طرح پرانے قصے ’’الہ دین کا چراغ‘‘ میں بیان کیا گیا تھا کہ چراغ کا جن صرف الہ دین کی بات کو سمجھتا تھا اور اسے جس چیز کی ضرورت ہوتی وہ اسے فوراً فراہم کر دیتا تھا۔ یعنی آپ اپنی سوچ سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔

تمام دنیا کے ماہر نفسیات اور ماہر الہیات اس بات پر متفق ہیں کہ ذہن ہی تمام کاموں کو کنٹرول کرتا ہے۔ آپ صرف وہی کام کرتے ہیں جس کا خاکہ آپ کے ذہن میں بنتا ہے۔ ویانا کے مشہور ماہر نفسیات الفریڈ ایڈ لرنے ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام ’’مقصد زندگی‘‘ ہے۔ وہ اس کتاب میں لکھتے ہیں دنیا میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا اس شخص کو کرنا پڑتا ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی نقصان اسی شخص سے پہنچتا ہے۔

جو اپنے بھائی بندوں میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا ایسے لوگ ہی بنی نوع انسان کی ناکامیوں کا سرچشمہ ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے جادوگر ہاورڈ تھرسٹن سے جب اس کی کامیابی کا راز پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ جب بھی میں اسٹیج پر آتا تھا اپنے آپ سے کہتا تھا میں شکر گزار ہوں کہ یہ لوگ مجھے دیکھنے آئے ہیں ان لوگوں کی بدولت مجھے روزی کمانے میں بہت آسانیاں ہیں۔ میں حتی الامکان انھیں کرتب دکھاؤں گا اور انھیں خوش خوش لوٹاؤں گا وہ اسٹیج پر اس وقت تک قدم نہ رکھتا تھا جب تک وہ اپنے دل سے کئی بار یہ نہ کہہ لیتا کہ میں اپنے حاضرین سے محبت کرتا ہوں میں اپنے حاضرین کو دل و جان سے چاہتا ہوں۔

مادام شو مان ہینک، امریکی صدر روز ویلٹ، چارلس ڈبلیو ایلیٹ ان کی بھی حیران کن ہر دلعزیزی یہ ہی راز تھا۔ حضرت عیسٰی کی پیدائش سے سو سال پہلے ایک رومی شاعر بیلوس سائرس نے کہا تھا ’’ہم ان ہی لوگوں کو پسند کرتے ہیں جو ہمیں پسند کرتے ہیں۔‘‘ جب کہ انگیل کہتا ہے کہ کامیابی کسی عظیم مقصد کے مرحلہ وار حصول کا نام ہے۔

مرحلہ وار کا مطلب ہے کہ کامیابی ایک سفر ہے منزل نہیں، ہم کبھی منزل تک نہیں پہنچتے جب ہم ایک ہدف کو حاصل کر لیتے ہیں تو اگلے کی طرف چل پڑتے ہیں اور پھر اس سے اگلے کی طرف۔ کامیابی ایک داخلی احساس ہوتی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ جو بظاہر کامیابی دکھائی دے رہی ہو ممکن ہے وہ اندر سے سراسر کھوکھلی ہو۔ اس لیے مقصد کا عظیم ہونا ضروری ہے جو کامیابی آسودگی اور اطمینان عطا نہیں کرتی وہ کھوکھلی کامیابی ہوتی ہے صرف جینا یا دولت مند ہونا یا بڑے عہدے پر فائز ہونا کامیابی نہیں ہوتی۔ دنیا میں غربت کا کوئی وجود نہیں ہے بلکہ غربت ہمارے اندر موجود ہوتی ہے۔

ہمارے قومی رہنماؤں اور سیاست دانوں کو ایک بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ خدا نے ان کو کروڑوں لوگوں میں سے کروڑوں لوگوں کی رہنمائی اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے چنا ہے یہ ان کی خوش قسمتی ہے لہذا خدارا اپنی خوش قسمتی کو دوسروں کی بدقسمتی نہ بناؤ۔ آو خلق خدا کی خدمت کرو جو سب سے بڑی عبادت ہے۔

جو سب سے بڑی کامیابی ہے۔ وہ کامیابی جو تمہیں اندر سے خوشی اور اطمینان دے گی جو مرنے کے بعد تمہیں زندہ رکھے گی۔ لوگوں سے محبت کرو جس طرح تم اپنے آپ سے کرتے ہو، پھر دیکھو کس طرح لوگ تم سے محبت کرتے ہیں۔ سوچو آؤ سوچو۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہمارے قومی رہنما اپنی سوچ کو یکسر تبدیل کر دیں اور اپنے ہی لیے نہیں بلکہ لوگوں کے لیے جئیں اور سوچیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔