اپنے ’ گھر ‘کی حفاظت کریں

محمد فیصل شہزاد  بدھ 22 اپريل 2015

(22 اپریل ورلڈ ارتھ ڈے پر خصوصی مضمون)

1990ء کا سال تھا جب ہم ساتویں کے طالب علم تھے۔ اندرونِ سندھ ، ٹنڈوآدم میں واقع ہمارے جوہر اسکول کا شمار اُن دنوں شہرکے اچھے اسکولوں میں ہوتا تھا۔ ایک دن سلیم سر نے بتایا کہ ایک ہفتے میں ہمارے اسکول کا انسپیکشن ہونے والا ہے۔ بورڈ سے ٹیم آئے گی اس لیے سب فلاں دن تیار ہو کر آئیں۔ پورے ہفتے اسکول میں انسپیکشن کی تیاری ہوتی رہی۔

اسکول دلہن کی طرح  سج گیا۔  انسپیکشن ٹیم آئی، اسے دو تین اسپیشل کلاسوں کا دورہ کروایا گیا، پھرضیافت کا دور چلا اور ٹیم واپس چلی گئی۔ دوسرے ہی دن عارضی گملے ہٹا دیے گئے۔  جھاڑ فانوس لپیٹ کر رکھ دیے گئے۔ دو تین دن میں ہی دوبارہ  ہر طرف دھول اڑنے لگی۔

اس وقت ہم بچے تھے، حیرت ہوئی لیکن پھر مسلسل مشاہدے سے شعور میں یہ بات جم گئی کہ ہمارے معاشرے میں الا ماشاء اللہ اچھے کام بھی اکثر کسی نہ کسی جبرکے تحت ہوتے ہیں۔

اب دیکھ لیں، ہر سال جون میں ماحولیات کا دن بھی آتا ہے اور اپریل میں زمین ڈے بھی منایا جاتا ہے، جس  کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم اپنے مشترکہ گھر کا کچھ خیال کر لیں… لیکن ہر ایسے موقعے پر کچھ لوگ بیانات دے دیتے ہیں، ہم جیسے لوگ کچھ مضامین لکھ دیتے ہیں، دس بیس شجر لگا دیے جاتے ہیں،کچھ ہاؤ ہو‘ ہو جاتا ہے اور پھر وہی روز و شب، اسی طرح ہم سارے سال پانی کا ضیاع کرتے ہیں، اسی طرح آلودگی پھیلاتے ہیں۔

گلوبل وارمنگ، پگھلتے گلیشئر، سمندروں کی بلند ہوتی سطح، بدلتے موسم، تباہ کن بارشیں، سمندری طوفان اور مرتے ہوئے جنگلات، کیا کیا رپورٹس سامنے نہیں آتیں…اسی طرح کانفرنسیں، ورکشاپس، سیمینار، دھواں دھار تقریریں… سب ہوتا ہے لیکن نہیں ہوتا تو بڑی بڑی چمنیوں سے نکلتا ہوا دھواں کم نہیں ہوتا۔ صرف بیان بازی ہوتی ہے۔

ماحولیات پر سب سے زیادہ شور ترقی یافتہ ممالک مچاتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ماحول کے عالمی بگاڑ کے سب سے بڑے ذمے دار بھی یہی ممالک ہیں۔ ایٹمی تجربات، ایٹمی توانائی اور پھر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا ایٹمی فضلہ سب سے زیادہ انھی ممالک میں پیدا ہوتا ہے، جو نہ صرف انسانی صحت کے لیے مہلک ترین ہے بلکہ زمین کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہے۔

اس تابکار فضلے کو عام طریقے سے ضایع نہیں کیا جا سکتا، اسی لیے انھیں مخصوص کنٹینرز میں بند کر کے کسی دور افتادہ مقام مثلاً کسی بیابان صحرا میں دفن کر دیا جاتا ہے یا پھر سمندر کی تہہ میں دبا دیا جاتا ہے۔ لیکن ہر وقت شدید خطرہ موجود رہتا ہے کہ کہیں تابکار فضلہ کسی حادثے کی وجہ سے کنٹینرز سے باہر آجائے اوریوں زمین اور اس پر رہنے والی مخلوقات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جائے۔

تابکار فضلہ کے علاوہ کاربن کے اخراج کے ذمے دار بھی سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک ہیں۔ ماحولیات کے حوالے سے 2009ء میں ہونے والی کوپن ہیگن کانفرنس اور پھر 2010ء میں میکسیکو سٹی میں ہونے والی کانفرنس میں جب یہ نکتہ بار بار اٹھایا گیا کہ ترقی یافتہ ممالک کو کاربن کے اخراج میں تیزی سے کمی کرنی چاہیے اور اس حوالے سے ایک عالمی معاہدہ ہونا چاہیے تو یہ کانفرنسز اختلافات کا شکار ہو گئیں۔

اب حال یہ ہے کہ 2010ء میں ہی پاکستان میں شدید سیلاب آیا۔ امریکا میں دو تین سالوں کے وقفے سے کئی بار سمندری طوفان آ چکے ہیں۔ باقی دنیا کا حال بھی ماحول، موسم اور قدرتی آفات کے اعتبار سے برا ہے لیکن کوئی بھی اپنی ذمے داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔

حکومتوں کا رویہ عوام میں بھی باآسانی منتقل ہو جاتا ہے۔ ہم دوسروں کو چھوڑیں، اپنا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ اس خود غرضی کا شکار ہم بھی ہیں۔ ہم روزانہ اپنے گھر کی صفائی کا خیال کرتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ یہ زمین بھی ہمارا گھر ہے جو ہمارے پاس ہماری اور   دیگر جانداروں کی نسلوں کی امانت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ کل ہماری اور جانوروں کی نسلیں اس پر ایک محفوظ زندگی گزاریں تو کوئی کرے نہ کرے، ہمیں خود اس کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔

اول… ہمیں انتہائی ضرورت کے علاوہ سواری کا استعمال ترک کرنا ہوگا، کیونکہ سواری کا مطلب ہے ایندھن کا استعمال اور نتیجتاً کاربن کا اخراج۔ یاد رکھیں، زیادہ سے زیادہ پیدل چلنا ہمارے دل کے لیے بھی اچھاہے اور اس نیلے سیارے کے لیے بھی! دوم …ہمیں کیمیکلز کا استعمال اپنی زندگی میں کم سے کم پر لانا ہوگا، مثلاً ہمیں حشرات، مچھر، لال بیگ  وغیرہ  مارنے کے لیے مختلف کیمیکلز اور اسپرے کے استعمال سے حتی الامکان بچنا چاہیے۔

اسی طرح اسپرے والے پرفیوم بہت کم استعمال کرنا  چاہیے، کیونکہ گھریلو سطح پر استعمال ہونے ان اسپروں کی وجہ سے فلوروکاربن گیسز پیدا ہو کر اوزون کی سطح کو ایسے ہی نقصان پہنچاتی ہیں جیسے کہ بڑی بڑی ملوں کی چمنیوں سے خارج ہونے والی گیسیں…اس کے علاوہ اگر ہم کسان ہیں تو ہم کیڑے مار ادویات کا استعمال کم سے کم کریں۔ ہم سگریٹ پینا چھوڑ دیں، بالکل نہیں چھوڑ سکتے تو کم کر دیں اور کم سے کم پبلک مقامات پر تو بالکل نہ پئیں۔ سوم …ہم سودا سلف لانے کے لیے پلاسٹک شاپر کا استعمال کم ازکم اپنی حد تک روک دیں۔ یاد کریں ہمارے بزرگ گھروں میں ایک کپڑے کا تھیلا بنا کر رکھا کرتے تھے۔

ایسے دوچار تھیلے سلوا لیں اور انھیں ہی استعمال کریں۔ دودھ دہی کے لیے بھی گھر سے برتن لے کر جائیں۔ یہ عام سی نظر آنے والی پلاسٹک شاپر ماحولیات کے لیے زبردست اور مستقل خطرہ ہے۔ پھر جس طرح کی کم مائیکرون کی تھیلیاں ہمارے ہاں بے دریغ استعمال ہو رہی ہیں، وہ تو انسانی صحت کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہیں۔ چہارم… کچرے کو مناسب انداز سے متعین کچرا دانوں میں ہی ڈالیے۔ گھر سے باہر ہیں تو ٹافیوں کا ریپر تک جیب میں ڈالیے، ساحل پر تفریح کے لیے گئے ہیں تو وہاں کچرا پھیلانے کی بجائے ایک تھیلے میں کچرا ڈال کرگھر لائیے اور کچرا دان میں ڈالیے۔ کسی کو کچرے میں آگ نہ لگانے دیجیے۔

یہ ایک انتہائی غیر ذمے دارانہ عمل ہے اور یہ ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتا ہے، کیونکہ عموماً کچرے میں ہزاروں پلاسٹک شاپرز اور پلاسٹک کی اشیاء ہوتی ہیں جن کے جلنے سے فضا میں انتہائی زہریلی گیسیں پھیلتی ہیں جو انسانی صحت کے  لیے  بھی بے شمار مسائل پیدا کرتی ہیں، جن میں سر فہرست مختلف اقسام کے کینسرہیں۔

جدید تحقیق کے مطابق ایندھن اور کچرا وغیرہ جلنے سے فضا میں سیسے کی مقدار زیادہ ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ذہنی طور پر کمزور بچوں کی پیدائش میں اضافے کے ساتھ دماغی امراض میںاضافہ ہوتا ہے۔

یہ آلودگی عورتوں اور مردوں میں بانجھ پن بھی پیدا کر سکتی ہے۔صنعتی کارخانوں کا فضلہ جسے پانی میں بہا دیا جاتا ہے اور یہ زمین کی اوپری سطح کو زہریلا کرنے کے ساتھ ساتھ زمین کے نیچے موجود میٹھے پانی کے ذخائرکو بھی آلودہ کرتا ہے۔ ہمارے ہاں ملیر ندی اس کی واضح مثال ہے۔اسی زہریلے پانی اور زمین میں سبزیاں کاشت کر کے کراچی کی مارکیٹ میں فروخت کی جاتی ہیں، یوں بالواسطہ طور پر یہ زہریلے کیمیکلز زمین کے ساتھ ہمارے جسم میںبھی سرایت کر جاتے ہیں۔

باتیں تو بہت سی ہیں، لیکن اس تھوڑے کو بہت جانیں اور ان بظاہر چھوٹی چھوٹی ہدایات پر خود عمل کرنا شروع کریں اور دوسروں کو ترغیب دیں، کیونکہ باتیں توبہت ہوگئیں، اب عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ورنہ یاد رکھیں اگر یہ زمین ہم سے انتقام لینے پر تل گئی توہمیں خلا ؤں میں کہیںپناہ نہ ملے گی، کیوں کہ اب تک کائنات میں پھیلے کھربوں سیاروں میں سے کوئی زمین جیسا پانی اور ہوا سے مزین گھر دریافت ہوا، نہ ہونے کا امکان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔