پھول کو کھلنے سے مطلب ہے چمن کوئی بھی ہو

انتظار حسین  جمعـء 24 اپريل 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

ایک ادارہ وطن کتنے برسوں بعد اپنے شہر میں واپس آیا اور یاروں کے نرغے میں گھر گیا۔ ان میں اس کے پرانے یار بھی تھے‘ نئے مداح بھی تھے۔ لاہور آرٹ کونسل میں استقبالیہ تقریب ہوئی تو ایسی سب مخلوق وہاں جمع تھی اور اس پر اس کی شاعری پر داد کے ڈونگرے برسا رہی تھی۔

اصل میں جب اس نے اس شہر کو سلام کیا تھا تو زاد راہ کے نام بس اپنا ذاتی جوہر تھا جو ابھی پورا آشکار کہاں ہوا تھا۔ اب واپس آیا تو کتنا کما کر ساتھ لایا تھا۔ یعنی تب بیج تھا تو اب اتنے عرصے میں زمانے کی ہوا میں پل بڑھ کر اور سمندر پار کی آب و ہوا میں رنگ و بو سمیٹ کر شجر سایہ دار بن چکا تھا۔ بغل میں کلیات تھا۔ مطلب یہ کہ شعر و ادب کی تعلیم میں ایک لمبا سفر کر چکا ہے اور باصر کاظمی کے طور پر بہت نام کما چکا ہے۔

اپنی اردو شاعری کے بل پر لندن سے ایم بی ای کا اعزاز حاصل کیا یعنی اپنے ساتھ اپنی زبان کے لیے بھی قبولیت کی سند حاصل کی۔ سو چھوٹوں بڑوں سے داد لینی ہی تھی۔ سب سے بڑھ کر اس محفل میں موجود اس شخصیت نے داد دی جو ہمارے بیچ عربی زبان و ادب کے محقق کی حیثیت سے بھی مانے جاتے ہیں اور شاعر کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں یعنی ڈاکٹر خورشید رضوی جنھوں نے اس عزیز کی شاعری پر بصیرت افروز گفتگو کر کے اسے جی بھر کر داد دی۔

مگر اس شہر میں اس کی اپنی درسگاہ بھی تو ہے۔ گورنمنٹ کالج۔ اور پھر اورینٹل کالج۔ اور کچھ ایسے دوسرے تعلیمی اور ادبی ادارے کہاں کہاں سے اسے داد مل رہی تھی۔

ویسے کم عمری میں نئی سرزمینوں کی طرف کوچ کیا تو بجا کیا۔ کونپل کو شجر بننے کے لیے برگد سے فاصلہ پیدا کرنا تو پڑتا ہی ہے۔ اور ناصر کاظمی نے تو پہلے ہی خبردار کردیا تھا کہ ع

گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل

تو بیٹے نے باپ کے شہر کو سلام کیا اور شہر فرنگ کی طرف کوچ کیا۔ لندن کے بغل میں جو ایک شہر مانچسٹر ہے وہاں جا کر ڈیرا کیا۔ تعلیم کے اگلے مراحل وہیں طے کیے۔ پھر وہاں کی درسگاہوں میں انگریزی پڑھانے کے فرائض ادا کیے۔ ساتھ میں اپنی ادبی سرگرمی بھی جاری رہی۔ بیشک وہاں جو اہل وطن مشاعروں کا اہتمام کرتے تھے ان میں بھی شرکت کی۔ مگر مشاعروں میں مقید ہو کر نہیں رہے۔ اس خول سے نکل کر انگریزی شعرا کے حلقوں سے بھی ربط و ضبط پیدا کیا۔ کتنا کچھ ان سے سنا‘ ان کے لکھے کو پڑھا۔ خود بھی اس زبان میں لکھا پڑھا۔ مگر

آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں
تخلیقی توجہ اپنی زبان پر رہی

اظہار سب سے بڑھ کر غزل میں ہوا۔ ضمنی طور پر نظمیں بھی لکھیں۔ انگریزی شاعری سے اردو میں ترجمے بھی کیے۔ پھر نثر میں بھی خامہ فرسائی کی۔ ڈرامے کی صنعت میں بھی طبع آزمائی کی۔ اس طرح یہ سفر جاری رہا۔ شاعری کے مجموعے وقفے وقفے سے شائع بھی ہوتے رہے۔ ان مجموعوں سے منتخب غزلوں کے انگریزی میں ترجمے بھی ہوتے رہے۔ ان ترجموں کے واسطے سے اس شاعری کا انگریزی ادبی حلقوں میں نوٹس بھی لیا گیا۔

رفتہ رفتہ اس شاعری کی قبولیت اس درجہ پر ہوئی کہ ملکہ برطانیہ کی جانب سے ایم بی ای کا اعزاز برائے ادبی خدمات بحیثیت شاعر سے نوازا گیا۔ اور یہ کہ اردو شاعر کی حیثیت سے یہ تو پہلی ہی مرتبہ ہوا ورنہ لندن سے رجوع کرنے والے جنوبی ایشیا سے جو ادیب ہوئے ہیں انھوں نے انگریزی میں لکھا اور بکر پرائز ایسے انعامات سے نوازے گئے۔

مگر باصر نے اردو میں لکھ کر ایم بی ای کا اعزاز حاصل کیا۔ اس طرح انھیں دوسرے اعزاز پانے والوں سے ایک امتیازی حیثیت حاصل ہو گئی۔ مگر صرف اتنا نہیں۔ تخصیص کے ساتھ ناصر کی بعض غزلوں کو عجب رنگ سے قبولیت حاصل ہوئی۔ ان کی ایک غزل ہے جس کا مطلع اس طرح سے ہے ؎

زخم تمہارے بھر جائیں گے‘ تھوڑی دیر لگے گی
بے صبری سے کام لیا تو اور بھی دیر لگے گی

اس شعر کا انگریزی میں ترجمہ کر کے اور ساتھ میں اردو متن کو بھی پتھر پر کنندہ کر کے اسپتالوں کے باہر نصب کیا گیا۔ ایک اور شعر یوں ہے ؎

دل لگا لیتے ہیں اہل دل وطن کوئی بھی ہو
پھول کو کھلنے سے مطلب ہے چمن کوئی بھی ہو

یہ شعر انگریزی میں ترجمہ کے ساتھ سلاؤ کے میکنزی اسکوائر میں ایک پتھر پر کندہ کر کے نصب کیا گیا۔

اصل میں باصر کے یہاں بیچ بیچ میں ایسے اشعار ملتے ہیں جو ضرب المثل بننے کی صلاحیت کی غمازی کرتے ہیں۔ اول الذکر ایسا ہی شعر ہے۔ ایسے اور شعر بھی باصر کے یہاں نظر آئیں گے۔ مثلاً یہ شعر دیکھئے ؎

رات کو کاٹنا ہوتا ہے سحر ہونے تک
بیج کو چاہیے کچھ وقت سحر ہونے تک
دوسرا مصرعہ ضرب المثل والی شان رکھتا ہے۔

کیا مضائقہ ہے کہ چند ایک شعر ادھر ادھر سے نقل کر دیں۔ پتہ تو چلے کہ اس شاعر نے اپنے رنگ سے کیا کیا گل کھلائے ہیں ؎

غم برگد کا گھنا درخت
خوشیاں ننھے ننھے پھول
………
اہل دل آ گئے کہاں سے کہاں
دیکھئے جائیں گے یہاں سے کہاں
………
باصر کی شخصیت بھی عجب ہے کہ اس میں ہیں
کچھ خوبیاں خراب‘ کچھ اچھی خرابیاں
…………
مشکل ہوا پتنگ کو اپنی سنبھالنا
الجھی ہوئی ہے ڈور سے کوئی دگاڑ سی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔