جما عت اسلا می اور کر اچی کا انتخا بی معر کہ

اسلم خان  ہفتہ 25 اپريل 2015
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

کراچی کا انتخابی معرکہ خدا خدا کرکے تمام ہوا جس نے ثابت کر دیا کہ 22سال سے سا ت سمندر پار بیٹھے الطاف حسین آج بھی کراچی کے بلا شرکت  غیرے ہر دل عزیز رہنما ہیں۔ جنھیں انتخاب جیتنے کے لیے دھونس دھاندلی اور ٹھپہ بازی کی کوئی ضرورت نہیں، یہ بھی ثابت ہوگیا کہ تحریک انصاف مستقبل میں ایم کیو ایم کی حقیقی معنوں میںسیاسی حریف رہے گی۔

ضمنی انتخاب جماعت اسلامی کی حد درجہ منظم اور دانشمند قیادت کے لیے ڈراؤنا خواب بن گیا ہے جو مدتوں اسے ڈرتا رہے گا، جناب راشد نسیم صرف 9ہزار ووٹ حاصل کر پائے جب کہ تحریک انصاف نے23ہزار ووٹ حاصل کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ این اے 246 میں کسی قسم کی تنظیم نہ ہونے کے باوجود ایم کیو ایم مخالف ووٹر نے جماعت اسلامی کے ہمارا روایتی حلقہ ہونے کے تمام تر دعوؤں کے باوجود تحریک انصاف کو ترجیح دی۔

صالحین نے اپنی پیدا کردہ خود فریبی کے سراب کاشکار ہوکر اپنا رہا سہا سیاسی بھرم بھی گنوا دیا لیکن یہ سب کچھ پہلی بار نہیں ہوا، جما عت اسلامی کی قیادت 1970سے آج تک حکمت عملی کے نا م پر تسلسل سے دہرائے چلی جارہی ہے۔

1970 کے عام انتخاب کے آغاز میں حضرت مولانا شاہ احمد نورانی سے سیاسی اتحاد کا ڈول ڈالا گیا لیکن اپنے ہی پروپیگنڈا کا شکار ہوکر یہ سمجھ لیا گیا کہ کراچی کی ساری نشستیں تو پکے پھل کی طرح ہماری جھولی میں گرنے کو تیار ہیں، صرف 3نشستیں حاصل کر سکی تھی جب کہ نورانی میاں بھی بڑی سیاسی قوت بن کر ابھرے تھے جس سے ان کے سیاسی قد کا ٹھ میں اضافہ ہوا۔  خرم مراد نے بڑی دل سوزی سے جماعت اسلامی کی انتخابی حکمت عملیوں کی مربوط اور مسبوط داستان مرتب کر دی ہے۔ اے کاش! کوئی ہوتا جو اس کو پڑھ لیتا۔

مرحوم خرم مراد دسمبر1971تک جماعت اسلامی ڈھاکہ کے امیر رہے۔ انتخابی سیاست کے حوالے سے انھوں نے اپنی آپ بیتی ‘لمحات’ میں بڑے چشم کشا اور سبق آموز اور دلچسپ واقعات بیان کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ این اے 246کا حادثہ کچھ ایسا نیا نہیں ہے، جماعت اسلامی کی اجتماعی دانش کبھی عوامی عدالت کے سامنے سرخرو نہیں ہوسکی۔ اتحادوں کی سیاست اور1985کے غیر جماعتی انتخابات استثناء ہیں جب بھی جماعت اسلامی نے تن تنہا میدان میں اترنے کی حکمت عملی اپنائی تو ناکامی اس کا مقدر بنی۔

پاکستان اسلامک فرنٹ کے نام سے ‘قاضی آرہا ہے’ کے بلند آہنگ نعرے کے ساتھ انتخابی اکھاڑے میں اترنے کا انجام ابھی کل کی کہانی ہے لیکن افسوس ہمدردوں کے سمجھانے اور شور مچانے کے باوجود خبط عظمت کاشکار اور پارسائی کے یہ دعوے دار اپنی مقبولیت کے حقیقی پیمانوں کا تعین تک نہیں کرسکے۔

ویسے جماعت کی انتخابی مہم کی منصوبہ بندی کرنے والوں کا یہ کمال  تھا کہ بڑے بڑے تجزیہ نگار بھی اصرار کرتے رہے کہ جماعت اسلامی مضبوط حریف ثابت ہوگی جب کہ تحریک انصاف جگ ہنسائی کرائے گی۔ ہم دم دیرینہ مدیر ادارتی امور لطیف چوہدری گزشتہ دنوں کراچی کا دور کرکے تازہ تازہ واپس آئے تھے۔

اس عاجز طالب علم کو یہی باور کراتے رہے کہ ایم کیو ایم کی حریف تحریک انصاف نہیں جماعت اسلامی ہے۔ جماعت اسلامی کی انتخابی حکمت عملی کی طویل تاریخ بیان کرتے ہوئے جناب خرم مراد نے بڑے دلچسپ واقعات بیان کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ 1970ء کی انتخابی مہم کے آغاز پر مشرقی پاکستان سے “لاہور اورکراچی گیا تو وہاں پر زیادہ صحیح اندازہ نہیں کر سکا۔

بہرحال کراچی میں جماعت کا کام تو بہت تھا اس چھوٹے سے دورے سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ مغربی پاکستان میں بھی بہت اچھے آثار نہیں ہیں لیکن مغربی پاکستان میں جماعت کے رفقاء بڑے پر امید اور بڑی کامیابی کی امید سے سرشار تھے۔ حقیقت پسندی پر بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔ بے بنیا د تاویلیں تھیں کہ دوسروں کے جلسوں میں لوگ پیسے لے کر جا تے ہیں۔ پیسے دے کر پیپلز پارٹی کے جھنڈے لگوا دے گئے ہیں۔ مگر عوامی سطح پر پیپلز پارٹی کے اثرات دیکھ کر بات واضح تھی کہ یہ سب کا م پیسے سے نہیں ہو سکتا۔

“اسی طرح ڈھاکہ میں مرکزی پارلیمانی بورڈ کے اجلاس میں میاں طفیل محمد،چوہدری رحمت الہی اور چند دوسرے رہنماؤں کے سامنے مشرقی پاکستان کا پورا جائزہ پیش کیا اور کہا کہ مشرقی پاکستان سے ہم شاید ایک بھی نشت پر کامیابی حاصل نہ کرسکیں اگر کوئی نشست ٹپک آئے، تو دوسری بات ہے میں کوئی عالم الغیب نہیں ہوں لیکن مجھے کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

’’7 دسمبر 1970ء کا دن پولنگ میں گزرا اور پھر انتخابی نتائج کی رات آئی، ریڈ یو اور ٹیلی ویژن پر نتائج آنا شروع ہوئے، جماعت کے سبھی ساتھیوں کے لیے یہ نتائج ایک صد مہ تھے۔ مغربی پاکستان کے بارے میں، مشرقی پاکستان کے ساتھیوں کی توقعات بہت بلند تھیں ادھر مشرقی پاکستان کے بارے میں مغربی پاکستان کے لوگوں کو بہت سے امیدیں وابستہ تھیں۔

مجھے تومغربی پاکستان کے بارے میں بھی تین سے چار نشستوں سے زیادہ کی توقع نہیں تھی کراچی میں جماعت کی پوزیشن سب سے زیادہ مضبوط تھی جس سے بڑی توقعات تھیں۔ انتخاب کی رات جب نتائج آنا شروع ہوئے تو کراچی سے صرف دو نشستیں واضح اکثریت سے آئیں۔ پروفیسر عبدالغفور احمد اور دوسری پر مولانا ظفر احمد انصاری منتخب ہوئے، باقی پورے صوبے سندھ اور صوبہ پنجاب، صوبہ بلوچستان اور صوبہ سرحد میں تو سناٹا چھایا ہوا تھا۔ پنجاب میں ڈاکٹر نذیر احمد اور صوبہ سرحد کے علاقے دیر سے صاحبزادہ صفی اللہ کامیاب ہوئے ۔کراچی سے محمود اعظم فاروقی بڑے کم ووٹوں سے کامیاب ہوئے تھے۔‘‘

یہ تھا خرم مراد! کاش جماعت اسلامی کی سیاسی حکمت عملی تشکیل دینے والے حکمت کار اس کتاب کو سرسری پڑھنے کی زحمت گوارہ کرلیتے تو شاید بھرم تو رہ جاتا لیکن سید ابوالاعلی مودوی کے جانشنیوں میں شاید پڑھنے والے ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ اے کاش ہوتا کوئی تاریخ پڑھنے والا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔