لوٹ آؤ کراچی

جاوید قاضی  ہفتہ 25 اپريل 2015
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

نبیل گبول  نے حلقہ  NA-246 کی نشست جس شدومد سے چھوڑی اسی شدومد سے کم و بیش وہ نشست وہ جیت گئے جن کی وہ میراث تھی۔ دو مہینے سے متحدہ پر تیزی سے بڑھتے ہوئے بحرانوں میں کوئی باد صبا کا جھونکا تھا وہ گزارا۔ غور سے دیکھیں تو نبیل گبول کو متحدہ نے یہ نشست دی بھی اس لیے تھی کہ اگر نبیل گبول ان کی پارٹی کے کلچر میں نہ گھل مل سکیں تو یہ نہ ہو کہ لینے کے دینے پڑ جائیں۔

246 کا حلقہ متحدہ کے لیے اس طرح ہے جس طرح پیر پگارا کی سانگھڑ والی نشست، جس طرح بے نظیر کی لاڑکانہ والی نشست۔ الطاف حسین  بھی اپنے حلقۂ احباب میں پیر کی صورت رکھتے ہیں۔

ایک اندازہ یہ بھی ہے کہ نائن زیرو پر رینجرز کا گھسنا، 1992ء والے منظر میں فلیش بیک کرگیا۔  مہاجروں میں احساس محرومی کوٹ کے بھری ہے۔  بظاہر تو یہ تاثر جاتا ہے کہ 132 ہزار ووٹ لیے تھے متحدہ نے تو آج93 ہزار ووٹ لیے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پچھلے انتخابات میں وہ شفاف انداز میں جیتے تھے۔ 2013ء والے الیکشن میں مہاجر متحدہ سے نالاں تھے۔

یہ وہ وجہ تھی کہ PTI نے 32,000 ووٹ لیے تھے اور اس طرح متحدہ کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے تھے کہ ان کی دہلیز پر خان صاحب اتنے ووٹ کیسے لے گئے۔ اس بار اتنے شفاف الیکشن بھی ہوئے لیکن عمران اسمٰعیل 24,000 ووٹ لے گئے۔ جب کہ جماعت اسلامی کو توقع سے بھی  بہت ہی کم  9 ہزار ووٹ ملے ۔

ابPTI نے اسی حلقے سے24,000 ووٹ کیوں لیے؟ ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ ان کا مینڈیٹ تگڑا نہیں تھا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ PTI تنظیم کاری میں بہت ہی سست یا بحران میں ہے۔ مگر اصل وجہ یہ ہے کہ جو عمران خان 2013ء  میں کراچی کے لوگوں کو نظر آئے تھے وہ اب نظر نہیں آئے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خان صاحب کی خیبرپختونخوا کی حکومت کی کارکردگی خراب ہے۔ کراچی بہت ہی مختلف شہر ہے۔ بلوچوں کا بھی بلوچستان میں اتنا بڑا شہر نہیں جتنا کراچی ہے۔

پٹھانوں کا بھی اتنا بڑا شہر خیبرپختونخوا میں نہیں جتنا ان کا کراچی ہے۔ اور مہاجروں کے لیے تو کراچی اپنا ایک ملک ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں وہ سکڑتے جا رہے ہیں۔ اس احساس نے کبھی بھی ان کو قومی دھارے کا حصہ نہ بننے دیا، وہ متحدہ سے پہلے جماعت اسلامی یا شاہ احمد نورانی کو ووٹ دیتے تھے، پھر متحدہ کو دیے اور پھر معقول انداز میں PTI نے ان میں کچھ جگہ بنائی۔ اس کی وجہ خان صاحب کا Image جو مڈل کلاس کو بھاتا ہے، وہ ہے۔ کپتان والا امیج اور یہ وہ کراچی ہے جو رنگ و نسل سے بڑا تھا۔بندہ پرور شہر ہے۔

PTI میں ہر رنگ و نسل کے لوگ تھے، لیکن پھر مہاجروں میں یہ احساس ابھارا گیا یا ابھرا کہ PTI پختونوں کی پارٹی ہے اور کراچی کے مہاجروں میں اس حوالے سے کچھ شک و شبے ہیں اور پھر ساتھ ساتھ خان صاحب پر طالبان دوست ہونے کے بھی الزامات یا شبہات  تھے۔PTI کراچی میں دوبارہ ایک سوالیہ نشان کی طرف چلی گئی اور ان کو اب بہت محنت کرنی پڑے گی اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کو بحال کرنے کی۔

متحدہ کو بھی کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ 246 کا نتیجہ ان کے لیے فتح کی نشانی ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ ایک موقع ہے۔ اس لیے وہ اپنی صفوں سے ایسے عناصر کا خاتمہ کریں جو جرائم میں ملوث ہیں۔مجموعی طور پر کراچی میں اب ہر ایک پارٹی کا ایک مسلح ونگ ہے۔ یہ بات تو اب کھل کے سامنے آگئی کہ پیپلز پارٹی عذیر بلوچ سے ایسے کام لیتی تھی۔ وہ جب خود آئیں گے تو بہت سی باتیں بتائیں گے لیکن اب تک جو بھی انھوں نے بتایا ہے اس نے کھلبلی سی پھیلا دی ہے۔ وہ دبئی سے اب تک واپس کیوں نہیں آئے، کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں دبئی حکومت سے زرداری  کی بھی علیک سلیک ہے۔

کراچی ایک ایسی بستی ہے جہاں لاشوں کا کاروبار ہوتا رہا ہے۔ وہ مذہبی رنگ میں ہو یا نسلی رنگ میں۔ اس شہر سے پڑھے لکھے نوجوان کی اب یہی خواہش ہے کہ وہ باہر ہجرت کر جائے۔ پاکستان میں جس تیزی سے ہجرت کا رواج اس شہر میں پڑا وہ کہیں بھی نہیں۔

غور سے دیکھا جائے تو اس شہر میں Violence کا سیاست میں رواج متحدہ نے متعارف کروایا اور پھر یوں یہ بڑھتے ہوئے سب نے اپنالیا۔ لیکن PTIنے اس شکل کو اب تک نہیں اپنایا۔ کراچی ایک ایسی بستی ہے کہ جہاں دنیا کی ہر بڑی ایجنسی اپنے لوگ رکھتی ہے۔ اور عربوں سے لے کر ساؤتھ ایشیا کی پراکسی جنگوں کی مالیاتی ٹرانزکشن بھی یہیں سے ہوکر آگے جاتی ہے۔ یوں کہیے کہ یہ سب کا ہیڈ کوارٹر ہے۔

لیکن مجموعی طور پر کراچی ایک ایسی بستی ہے کہ جہاں کے لوگ پاکستان کے دوسرے بڑے شہروں میں رہنے والوں سے زیادہ مذہبی رواداری کے قائل ہیں اور اس میں متحدہ کا بھی ایک کلیدی کردار ہے اور یہ بھی ہے کہ کراچی ایوب کی آمریت کے علاوہ باقی آمریتوں کو خوش آمدید کرتا رہا اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ بھٹو نے سندھی لوگوں کو پچیس سال کے وقفے کے بعد اقتدار میں شراکت دلائی۔ جس میں کراچی کے اندر ایک نئے احساس کو جنم دیا 1974ء کے لسانی فساد اسی پس منظر میں تھے۔

اور اب یہ پہلی مرتبہ ہے کہ سندھی اور مہاجروں میں جو تاریخی اعتبار سے کھینچا تانیاں تھیں وہ ختم ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ سندھیوں میں سب سے زیادہ گھلے ملے اگر کوئی لوگ ہیں تو وہ مہاجر ہیں اور مہاجروں میں اندر جو نرم گوشہ پایا جاتا ہے تو وہ سندھیوں کے لیے ہے۔

یہ جنرل ضیا الحق کی سوچ بھی تھی جس نے سندھ کے اندر دیہی اور شہری تضاد کو گہرا کیا۔ وہ اس لیے کہ بھٹو کی پھانسی سے سندھی  اسٹیبلشمنٹ مخالف ہو گئے۔ سندھ کے اندر ماضی میں علیحدگی پرست تحریک زوروں پر تھی۔

سندھیوں کو کبھی بھی اس ملک میں محب وطن نہیں سمجھا گیا۔ اور اسٹیبلشمنٹ نے وڈیروں کے ذریعے سندھیوں کو چلانے کی کوشش کی اور پھر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حیدرآباد میں 30 ستمبر کا واقعہ کرایا گیا۔ جس سے دیہی سندھ اور شہری سندھ میں تضادات بہت گہرے ہو گئے۔اس ساری حقیقت کا خمیازہ کراچی نے بھگتا، حال ہی میں جب مجھے لاہور جانے کا اتفاق ہوا یا میں اکثر جب اسلام آباد و پنڈی وغیرہ جاتا ہوں مجھے ان دونوں شہروں کے نقشے تیزی سے بدلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اس شہر کو جنرل مشرف کے زمانے میں کچھ حیثیت تو ملی مگر پاکستان پیپلز پارٹی نے بالکل ہی اس شہر کو ignore کیا ہے اور میاں صاحب کے لیے تو یہاں کی کوئی بھی اہمیت نہیں کیونکہ یہاں پر ان کا کوئی بھی ووٹ بینک نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔