آپ سب کو مبارک ہو

نصرت جاوید  جمعرات 11 اکتوبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

ہماری قومی اسمبلی اور سینیٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے بڑے ذہین تجربہ کار اور دوراندیش نمایندوں نے کئی مہینوں تک پھیلے مذاکرات اور غور و خوض کے بعد آئین کی اٹھارویں ترمیم کا مسودہ تیار کیا تھا۔ بالآخر اس مسودے کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے اتفاق رائے کے ساتھ منظور بھی کروا لیا گیا۔

اٹھارویں ترمیم کے پاس ہو جانے کے کئی مہینے بعد تک ہمارے تمام سیاستدان بڑے فخر سے سینہ تان کر ٹی وی اسکرینوں پر یہ دعویٰ کرتے رہے کہ انھوں نے آئین کو ان تمام ’’چالاکیوں‘‘ سے پاک کر دیا ہے جن کے ذریعے جنرل ضیاء اور مشرف جیسے فوجی آمر عوام کے منتخب نمایندوں کو بے بس و لاچار بنا کر اپنے مکمل کنٹرول میں رکھا کرتے تھے۔ اب ہماری پارلیمان پوری طرح خود مختار ہے۔ تمام ریاستی اداروں پر بالا دست ہے۔ خواہ کوئی کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اس کے سامنے جوابدہ ہے۔

ہمارے جیسے عامی شاید ان دعوئوں پر یقین لے آتے۔ مگر پھر اسی’’خودمختار پارلیمان‘‘ نے ایک بار نہیں بارہا باضابطہ قراردادوں کے ذریعے ہماری ’’قومی خود مختاری‘‘ کی جارحانہ تحقیر کرنے والے ڈرون حملوں کو روکنے کا مطالبہ کیا۔ امریکا اور اس کے ہماری ریاست میں موجود ’’حلیفوں‘‘ نے سنی اَن سنی کر دی۔ پھر 2 مئی 2011ء ہوا۔ رات کے اندھیرے میں امریکی طیاروں نے کچھ کمانڈوز کو ایبٹ آباد کے ایک گھر میں اُتارا۔ وہاں سے اسامہ بن لادن کو نکال کر مارا گیا اور اس کی لاش بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ بعدازاں سلالہ ہوا۔ ہم نے افغانستان میں مقیم نیٹو اور امریکی افواج کو پاکستانی راستوں سے جانے والی رسد بند کر دی۔ خوراک اور اسلحے کی یہ بندش سات ماہ تک جاری رہی۔ اس دوران ہماری ’’خود مختار پارلیمان‘‘ ہی کی قومی سلامتی کمیٹی نے ہفتوں کے غور و فکر کے بعد ایک لمبی چوڑی دستاویز تیار کی۔ یہ فیصلہ ہوا کہ امریکی اور نیٹو افواج کی رسد اسی صورت بحال کی جائے گی اگر اس دستاویز میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد کی ضمانت دی جائے۔

کسی نے کوئی ضمانت نہ دی۔ پاکستان کے وزیر خزانہ حفیظ شیخ تن تنہا امریکنوں سے تعلقات بحال کروانے والے مذاکرات کرتے رہے۔ بالآخر ایک اور دستاویز تیار ہوئی۔ وہ پارلیمان کے سامنے تو پیش نہ ہوئی مگر اس کی حتمی منظوری حناربانی کھر صاحبہ کے گھر پر منعقد ہونے والے ایک ’’حساس‘‘ اجلاس میں دی گئی تھی۔ ہم سب کو پیغام مل گیا کہ ہماری پارلیمان ’’خودمختار‘‘ تو شاید بن گئی ہے مگر اب بھی کچھ مقام ہیں جہاں اس کے پر جل جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اسی لیے ان معاملات کے بارے میں خاموشی سے درگزرکرنے کا سوانگ رچائے رہتی ہے۔

امریکنوں اور ان کے پاکستانی ریاست میں موجود ’’حلیفوں‘‘ کے ہاتھوں بری طرح تذلیل کروانے کے باوجود بھی ہماری ’’خودمختار‘‘ پارلیمان کو قرار نہ آیا۔ اس میں بیٹھے وزیر اپنے ہی ساتھیوں کے خلاف عدالتوں میں کرپشن کے ’’ثبوتوں‘‘ کے ساتھ جاتے رہے۔ جعلی ڈگریوں کا قضیہ اپنی جگہ چلتا رہا اور اس کے بعد ’’میمو گیٹ‘‘ بھی ہوا جس کے ذریعے جمہوریت کے ایک عظیم چیمپئن میاں محمد نواز شریف نے منتخب حکومت میں بیٹھے اور اس کی جانب سے امریکا میں سفیر بنائے ’’غداروں‘‘سے جان چھڑانے کی کوشش کی۔ بالآخر معاملہ ’’اس خط‘‘ تک پہنچا۔ یوسف رضا گیلانی نامی وزیر اعظم نے جنھیں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں موجود تمام جماعتوں سے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعزاز نصیب ہوا تھا، وہ خط نہ لکھا۔ بالآخر انھیں اسپیکر قومی اسمبلی اور چیف الیکشن کمشنر سے بالا بالا گھر بھیج دیا گیا۔ اسی طرح جیسے آپ گھریلو ملازموں کو چٹکی بجا کر فارغ کر دیا کرتے ہیں۔

اپنے بڑے لاڈ سے منتخب کردہ ’’قائد ایوان‘‘ کی ایسی تذلیل کے بعد ہمارے اراکین اسمبلی اور سینیٹ کو اپنے ’’استحقاق‘‘ کے رونے روتے ہوئے کچھ تو شرم محسوس کرنا چاہیے۔ مگر ان کی ہڈی بڑی ہی ڈھیٹ دِکھ رہی ہے۔ پیر اور منگل کے دونوں دن پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں جماعتی اختلافات اور تفریق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمارے منتخب نمایندے’’استحقاق۔استحقاق‘‘کی دہائیاں دیتے رہے۔ سب سے زیادہ شکایت وزیر داخلہ سے تھی۔ جہانگیر بدر کے اسلام آباد والے ٹھکانے پر اتوار کی رات توقیر صادق کی تلاش میں چھاپے کا ذمے دار بھی انھیں ٹھہرایا گیا۔

منگل کی صبح وہ بشریٰ رحمٰن کو یہ بتانے کے لیے قومی اسمبلی میں موجود نہ تھے کہ اسلام آباد کے ریستورانوں میں ’’شیشے‘‘ کے استعمال کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔ باتوں باتوں میں یہ خبر بھی منظر عام پر آئی کہ رحمٰن ملک تو رہے ایک طرف سیکریٹری داخلہ بھی منتخب نمایندوں کو گھاس نہیں ڈالتے۔ تمام تر رونے دھونے کے باوجود مگر یہ طے پھر بھی نہ ہو سکا کہ وزیر داخلہ کو کس طرح قومی اسمبلی اور سینیٹ کے آگے ’’جوابدہ‘‘ بنایا جائے۔

وزارتِ داخلہ کے ہاتھوں منتخب ایوان کی ’’بے توقیری‘‘ کا سیاپا ختم نہ ہوا تھا کہ ممتاز گیلانی نے مائیک سنبھال لیا۔ انھوں نے تقریباً روہانسی آواز میں ایوان کو یاد دلایا کہ الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے تمام اراکین سے بیان حلفی مانگے ہیں جن کے ذریعے وہ دوہری شہریت نہ رکھنے کا اقرار کریں۔ انھوں نے منگل کی صبح کچہری جا کر ایک اوتھ کمشنر کے روبرو حاضر ہو کر وہ حلف نامہ بنوا لیا تھا۔ اسے وصول پانے کے بعد بھی الیکشن کمیشن نے انھیں ایک سوالنامہ بھیج دیا۔ اس حکم کے ساتھ کہ اسے بھرنے کے بعد وہ اپنے جوابات کی تصدیق قومی اسمبلی کے سیکریٹری سے کروائیں۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اسپیکر اور چیئرمین نے اپنے اپنے طور پر یہ طے کر دیا ہے کہ دہری شہریت کے بارے میں حلف نامے مانگنا اور داخل کرنا منتخب نمایندوں اور الیکشن کمیشن کے مابین ایک ’’باہمی معاملہ‘‘ ہے۔ ان دونوں ایوانوں کے سربراہوں اور اُن کے معاونین کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ منتخب نمایندے جائیں تو کہاں جائیں۔

قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں بیٹھ کر آپ کسی رکن اسمبلی کو مخاطب نہیں کر سکتے۔ سید ممتاز گیلانی کی گریہ زاری سنتے ہوئے میرا دل بار بار مچل جاتا۔ میں چیخ کر کہنا چاہتا تھا کہ اگر بہاولنگر کے شاہ صاحب کو اپنی عزت اتنی ہی پیاری تو اس ’’بے توقیر ایوان‘‘ میں اب تک کیوں بیٹھے ہوئے ہیں۔ استعفیٰ دے کر گھر جائیں اور اپنی جگہ کسی ’’صادق و امین‘‘ کو اس باعزت اور خودمختار ایوان میں آنے کا موقعہ دیں۔

آٹھویں ترمیم کو ’’آمرانہ غلاظتوں‘‘ سے پاک کرنے کے لیے ہماری قومی اسمبلی اور سینیٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے بڑے ذہین، تجربہ کار اور دور اندیش نمایندوں نے کئی مہینوں تک غور و فکر کرتے ہوئے گزارے ہیں۔ انھیں کیوں آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی وہ شقیں یاد نہ آئیں جو افغانستان کو جہاد کے ذریعے آزاد کروا کر سوویت یونین کے اختتام کی راہ بنانے والے غازی ضیاء الحق شہید نے بڑے ذوق و شوق سے متعارف کروائی تھیں۔ وہ اپنی زندگی میں تو ان پر عمل درآمد نہ کروا پائے۔ مگر صد شکر کہ اب ہماری عدلیہ آزاد اور میڈیا بے باک ہے۔ ہمارے منتخب ایوانوں میں اب کوئی خائن اور دروغ گو شخص گھس آنے کی جرأت نہ کر پائے گا۔ آپ سب کو ’’پارسا جمہوریہ پاکستان‘‘ بن جانے کی مبارک ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔