آج سے ہزار سال بعد دنیا کیسی ہوگی ؟

محمد عثمان فاروق  منگل 28 اپريل 2015
آج سے ہزار سال بعد بری، بحری اور ہوائی فوج کے علاوہ ’’خلائی فوج‘‘ بھی کسی بھی حکومت کی بقا کے لیے ضروری سمجھی جائے گی۔

آج سے ہزار سال بعد بری، بحری اور ہوائی فوج کے علاوہ ’’خلائی فوج‘‘ بھی کسی بھی حکومت کی بقا کے لیے ضروری سمجھی جائے گی۔

آج سے ہزار سال بعد ہم اور آپ تو موجود نہیں ہوں گے اور نہ ہی حتمی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ تب دنیا کا منظر نامہ کیا ہوگا لیکن موجودہ دور کے حالات و واقعات کا محتاط جائزہ لے کر آنے والے دور کی ایک دھندلی سی منظر کشی ضرور کی جاسکتی ہے۔ تو چلیں آئیے آج میں آپکو آج سے ہزار سال بعد کے کچھ مناظر دکھاتا ہوں۔

جس طرح آجکل بری، بحری اور ہوائی فوج کسی بھی ملک کے دفاع کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے اسی طرح آج سے ہزار سال بعد بری، بحری اور ہوائی فوج کے علاوہ ’’خلائی فوج‘‘ بھی کسی بھی حکومت کی بقا کے لیے ضروری سمجھی جائے گی۔ زمین کے بہت سے وسائل ختم ہو چکے ہوں گے لہذا تیل و گیس وغیرہ جیسے معدنی وسائل کے ذخائر کے لیے مختلف سیاروں کی چھان بین اور ان پر قبضوں کے لیے خلاؤں میں گھمسان کی جنگیں ہوا کریں گی۔

ہوسکتا ہے آج آپکو میری بات مذاق لگ رہی ہو لیکن میں اپنی بات کے وزن کے لیے اس ریٹائر امریکی فوجی کا حوالہ دوں گا جس کا بیان یورپ کے کئی غیر معروف اخبارات میں چھپا اور اسے پاگل قرار دے دیا گیا جس کا کہنا تھا کہ میرا تعلق امریکہ کی خلائی آرمی سے ہے اورمیں نے 17 سال تک سیارہ مریخ پر خلائی مخلوق کے ساتھ حالت جنگ میں گزارے ہیں۔ خلائی آرمی کی ابتدائی شکل تو شاید آنے والی تین چار صدیوں میں نظر آجائے لیکن ہزار سال بعد یہ تصور اپنی مکمل حالت میں ہوگا۔

آج سے ہزار سال بعد زمین کی فضا شدید آلودہ اور سانس لینا انتہائی مشکل ہوچکا ہوگا۔ مڈل کلاس لوگ شاید تب آکسیجن کے سلینڈر استعمال کریں اورامراء زمین سے کئی سو نوری سال کے فاصلوں پر موجود خوشگوار آب و ہوا والے سیاروں پر منتقل ہوچکے ہوںگے یا پھر اپنی چھٹیاں گزارنے تو لازمی وہاں جایا کریںگے۔ آپکو شاید یہ بات بھی آج کہنے سننے میں ایک مذاق لگے رہی ہوگی لیکن ذرا انٹرنیٹ پر سرچ کریں امریکی خلائی ادارے ناسا نے آج سے کچھ سال پہلے ’’کیپلر‘‘ کے نام سے ایک خلائی پروگرام شروع کیا تھا جس کا مقصد کائنات میں ’’زمین‘‘ جیسے سیارے دریافت کرنا تھا ۔

اس پروگرام کے تحت کئی ایک سیارے دریافت ہوئے جن میں سب سے حیران کن ’’Kepler-186f‘‘ نامی سیارہ ہے۔ یہ سیارہ زمین سے 490 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ آپ اس سیارے کی گوگل سے تصویر سرچ کرکے ضرور دیکھیں، کیونکہ یہ طے ہے کہ ایسا کرنے سے آپکے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ یہ سیارہ زمین سے زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے۔ فی الحال ’’کیپلر‘‘ سیاروں تک انسانی رسائی میں سب سے زیادہ مسئلہ ’’فاصلے‘‘ کا ہے۔ ایسے تمام سیارے جن کے بارے میں گمان ہے کہ انکی آب و ہوا زمین جیسی ہوسکتی ہے وہ زمین سے کئی سو نوری سال کے فاصلے پر موجود ہیں اور ان سیاروں تک پہنچنے کے لیے ایسے خلائی جہاز کی ضرورت ہے جو روشنی سے کئی گنا زیادہ رفتار سے حرکت کرسکیں۔

اگرچہ آجکل کئی ترقی یافتہ ممالک کے خلائی ادارے ایسے خلائی جہاز بنانے کی کوشش کررہے ہیں جو روشنی کی رفتار سے تیز سفر کرسکیں لیکن آج سے ایک ہزار سال بعد روشنی کی رفتار سے تیز سفر کرنا بالکل ایسے ہوگا جیسے آج لوگ ہوائی سفر کرتے ہیں۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ آج سے ہزار سال بعد ’’سٹار گیٹ‘‘ جیسے سائنسی نظریات بھی حقیقت بن چکے ہوں۔ ’’اسٹار گیٹ‘‘ ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے پلک جھپکنے میں سینکڑوں اربوں میل کا فاصلہ طے کیا جاسکتا ہے بالکل جیسے جادو کی کہانیوں میں ایک جادوگر غائب ہو کر لمحوں میں ایک شہر سے دوسرے شہر میں چلا جاتا ہے کیونکہ آجکل ایسے تجربات ہو رہے ہیں جن سے مادہ یعنی دوسرے لفظوں میں انسانی جسم کو ’’کرنٹ‘‘ اور اس ’’کرنٹ‘‘ کو دوبارہ انسانی مادے میں تبدیل کیا جاسکے۔

یعنی جس طرح بجلی کی تاروں سے برقی پیغام لمحوں میں ایک ملک سے دوسرے ملک جاتا ہے، آج سے ہزار سال بعد انسان بجلی کی تاروں جیسی ٹیکنالوجی کے ذریعے لمحوں میں سینکڑوں میل کا سفر طے کرے گا۔ آج سے ہزار سال بعد ’’ملک‘‘ اور ’’سرحد‘‘ کا تصور ختم ہوچکا ہوگا، صرف حکومتیں ہوں گی اور ایک ایک حکومت کئی سیاروں اور ستاروں پر مشتمل ہوا کرے گی۔ ٹیسٹ ٹیوب بے بی تو آج کے زمانے کی بات ہے لیکن آج سے ہزار سال بعد ڈی این اے ماہرین کی تحقیق اس نہج پر پہنچ چکی ہوگی کہ والدین اپنی مرضی کے عادات و اطوار پر مشتمل بچے پیدا کرسکیں گے یا حاصل کرسکیں گے۔ یعنی والدین بچے کی پیدا ئش سے پہلے ہی یہ فیصلہ کرسکیں گے کہ انہیں ڈاکٹر بچہ چاہیئے یا انجنئیر بالکل جیسے آجکل کلوننگ کے ذریعے زیادہ دودھ اور گوشت والے جانور پیدا کیے جارہے ہیں ۔

آجکل بچوں کو بیماریوں سے بچنے کے لیے حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں لیکن آج سے ہزار سال بعد پیدا ہونے والی نسلوں میں بیماریاں نایاب ہوں گی کیونکہ تب بچے کی پیدائش سے پہلے ہی اسکے ڈی این اے میں رد وبدل کرکے ایسا مضبوط مدافعتی جسمانی نظام تیار کیا جائے گا کہ وہ ہر قسم کی بیماری سے لڑنے کے لیے پہلے ہی تیار ہوگا۔ لوگ اپنے پیاروں کے مرنے کو زیادہ سیریس نہیں لیا کریں گے کیونکہ انسانی کلوننگ اتنی عام ہوچکی ہوگی کہ لوگ اپنے مرنے والے عزیز کا باآسانی کلون حاصل کرسکیں گے۔

یہ صرف آج سے ہزار سال بعد کے چند دھندلے سے مناظر ہیں، اگر آج سے ہزار سال بعد کا کوئی اردو سمجھنے والا میری اس تحریر کو پڑھے اور واقعی وہ سب کچھ یا اس سے ملتا جلتا رونما ہورہا ہے جو کہ اس تحریر میں لکھا گیا ہے تو اس سے اپیل ہے کہ میری درست پیشگوئیوں پہ دانت نکال کر ہنسنے کے ساتھ میرے لیے دعا مغفرت بھی کردے اور اگر سب کچھ ویسا نہیں ہے تو پھر وہ سوچے کہ یہ سب ویسا کیوں نہیں ہے کیونکہ ہم آج کے انسان جب اس دنیا سے جائیں گے تو سائنسی چکاچوند سے مالا مال ایک تیز رفتار دنیا چھوڑ کر ہی جائیں گے لیکن اگر آنے والی نسلیں اس سے استفادہ حاصل نہ کرسکیں تو پھر انکو چاہیئے کہ وہ اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور سوچیں کہ وہ اپنے آباو اجداد کے سائنسی ورثے کی حفاظت کیوں نہ کرسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

عثمان فاروق

محمد عثمان فاروق

بلاگر قومی اور بین الااقوامی سیاسی اور دفاعی صورت حال پر خاصی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سائنس فکشن انکا پسندیدہ موضوع ہے۔ آپ ان سے فیس بک پر usmanfarooq54 اور ٹوئیٹر پر @usmanfarooq54 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔