سرزمین مظلوم

فریدہ فرحت آغازئی  اتوار 26 اپريل 2015

جمعیت علمائے اسلام (س) کے مرکزی سرپرست اعلیٰ اور عالمی انجمن خدام الدین کے مرکزی امیر مولانا محمد اجمل قادری نے جامع مسجد مولانا احمد علی لاہوری شیرانوالہ دروازہ میں تحفظ حرمین الشریفین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یمن میں لڑی جانے والی جنگ سعودی عرب کی نہیں بلکہ پاکستان کی جنگ ہے۔ جس کو اپنی سرحدوں میں لڑنے کے بجائے یمن میں لڑنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ یمن کی آئینی حکومت کی بحالی، حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے حوثی باغیوں کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کا شیعہ سنی لڑائی سے کوئی تعلق نہیں۔ عالمی طاقتیں اسے شیعہ سنی لڑائی میں بدلنے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہیں، جسے کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ سعودی عرب عالم اسلام اور انسانیت کے تحفظ کی لڑائی لڑ رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ افواج پاکستان کو سعودی عرب کا ساتھ دیتے ہوئے یمن کی سرزمین پر تمام جنگی وسائل کے ساتھ لڑنا ہوگا اور پوری قوم کو اس مسئلے پر افواج پاکستان کی پشت پر کھڑا ہونا چاہیے۔

ادھر سعودی حکومت کا مسلسل بڑھتا ہوا دباؤ پاکستان پر، اور ان کا یہ دعویٰ کہ ہمارے پاس مصدقہ ثبوت ہیں کہ ایک پڑوسی ملک مسلح امداد کر رہا ہے باغیوں کی اس یمن کے سارے فساد میں ۔ ادھر پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کا کم و بیش ایک ہی موقف ہے کہ کسی نئی جنگ کا حصہ نہیں بننا۔ ہم پہلے ہی اپنا بہت نقصان کرچکے اور ابھی صرف اپنی بقا کی جنگ ہی لڑی جاسکتی ہے۔

ہوسکتا ہے کہ اسلامی جماعتوں کا موقف اس وجہ سے ہو کہ ارض مقدس کا معاملہ ہے اور ہمیں پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ یمن کی ایک عجیب ملی جلی سی صورتحال ہے جس میں حوثی باغیوں نے اپنی کارروائی کی اور پورے اعتماد سے کی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس تنازع میں ایران جوکہ در پردہ ایٹمی طاقت ہونے کے قریب بھی ہے کی پشت پناہی اسے حاصل تھی۔ یا یہ کہنا چاہیے کہ ایران ہی کی تزویراتی موو  تھی کہ یمن جیسے چھوٹے ملک کو نشانہ بنانا آیا کتنا آسان ہے؟ اور ایسا بھی سوچ ہی لیں تو کوئی قباحت نہیں کہ ایران کی پشت پر بھی کوئی موجود تھا اس سارے معاملے میں۔

خطہ گلف میں واقع اس چھوٹے سے ملک میں جوکہ ایک طرف اومان سے جڑا ہوا ہے تو دوسری طرف سعودی عرب کی سرزمین سے، اور باقی دو اطراف میں سمندر ہے۔ یمن میں  چھٹی صدی میں اسلام آیا۔ اس سے پہلے کرسچن اور یہودیوں میں معرکہ بھی ہوا۔ بہت سارے خلیفہ گزرے اور پھر کئی اتار چڑھاؤ دیکھنے کے بعد یہاں بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کا کنٹرول ہوگیا، یہ واقعہ 1832 کا ہے، یعنی برصغیر پر قبضہ اس سے بعد کا واقعہ ہے۔

جب  جنوبی یمن پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا کنٹرول رہا اور شمالی یمن پر خلافت عثمانیہ کا تسلط  رہا۔ بالآخر 1972 میں دونوں حصے متحد ہوئے اور Peoples Democratic Republic کہلائے۔ تنازعات پھر جاگے، 1979 میں اور پھر 1986 میں سول وار کی شکل میں۔ بعد ازاں 1990 آفیشلی اناؤنس اس ملک کو (Republic of Yemen)  کیا گیا لیکن جلد ہی 1994 میں پھر ایک سول وار کا سامنا اس ملک نے کیا۔ اور 2000 میں دنیا نے القاعدہ کا پورا تناور درخت  دیکھا۔ کیا پیچیدہ عوامل تھے کہ اس ملک نے کبھی چین کا سانس نہیں لیا یا آسان ہدف سمجھ کر اس سرزمین کو تختہ مشق بنائے رکھا گیا۔ صورتحال کچھ بھی ہے ۔

اس ملک میں کبھی بھی مکمل امن قائم نہ ہوسکا۔ کبھی شمالی یمن اور جنوبی یمن کی آپس کی رنجشیں رہیں اور کبھی بیرونی سازشوں اور دباؤ کا سامنا رہا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جو اقوام متحدہ عالم اسلام پر ظلم کے پہاڑ بھی ٹوٹ جائیں تو کچھ نہیں کہتی، وہی اقوام متحدہ  پہلی بار انسانیت کے جامے میں رہ کر بات کررہی ہے لیکن یہ تو خون اور آگ کی ہولی ہے جس کو مزے کی بات کہنا ہی انسانیت کی تذلیل ہوگا۔

تو اس کو کیا کہیں؟ سچ ہے کہ اتنا کچھ عالم اسلام پر گزرتا رہا، مظالم کی انتہا پر بھی اقوام متحدہ نہ جاگی بلکہ کتنی ہی لاتعداد اپیلوں کے جواب میں موت جیسی خاموشی اختیار کیے رکھی، تاہم اقوام متحدہ نے اب نہ صرف جنگ بندی کی اپیل کی ہے بلکہ اس کی انسانی بہبود کے لیے کام کرنے والی ایجنسی نے یمن کے لیے امداد کی اپیل بھی کردی ہے جس کے جواب میں یمن کو 274 ملین ڈالر کی امداد بھی دینے کا اعلان سعودی حکومت نے کردیا ہے۔

اندرون خانہ معاملات ہیں کیا؟ ادھر اوباما بھی بات چیت میں سرگرمی دکھا رہے ہیں، انھوں نے فون پر شاہ سلمان سے بات کی اور اس بات پر اتفاق رائے ہوا کہ اس  تنازع کو سیاسی طور پر حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ انھوں نے یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں اور سعودی عرب کی زیر قیادت متحدہ عرب فوج کے درمیان جاری جدوجہد کو بات چیت سے حل کرنے پر اتفاق ظاہر کیا۔

اور پھر قابل ذکر یہ بتا بھی ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے یمن میں تمام متحارب گروپوں سے فوری جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔ سونے پر سہاگہ کہ چین کے صدر شی چن پنگ نے بھی سعودی فرمانروا سے فون پر بات کی۔ چین جو مشرق وسطیٰ میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے اور علاقے سے تیل پر انحصار کے باوجود اس نے ماضی میں یمن میں تشدد میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور ایک سیاسی حل کی اپیل کی تھی۔

یمن میں صورتحال مشرق وسطیٰ کی سلامتی اور استحکام کے لیے تشویشناک ہے، خاص طور پر خلیجی علاقے میں یمن کی صورتحال کا زیادہ اثر پڑسکتا ہے۔ شی چن پنگ نے کہا کہ یمن کے مسئلے کے لیے سیاسی حل کی کارروائی پر کوششوں میں شدت پیدا کی جانی چاہیے۔

وزارت خارجہ کے مطابق تمام فریقین کو اقوام متحدہ، سلامتی کونسل کے فیصلوں اور خلیج تعاون کونسل کی تجاویز پر عمل کرنا چاہیے تاکہ بعجلت ممکن، یمن میں استحکام اور حالات کو معمول پر لانے کو یقینی بنایا جاسکے۔

آج صورتحال یہ ہے کہ جان کیری نے بھی ایران کو متنبہ کردیا ہے کہ اگر وہ باغیوں کی پشت پناہی کرتا رہے گا تو امریکا اس کا ساتھ نہیں دے گا۔ یہ بات بھی فکرانگیز ہے اور ساری دنیا کو صاف نظر آرہا ہے کہ امریکا ایران کے لیے بوجوہ  نرم گوشہ رکھتا ہے۔

گوکہ برسوں سے یہ ڈراما جاری ہے کہ  امریکا کی ایران پر نظر ہے اور اب جو امکانی حملہ ہوا تو ایران زد میں آئے گا اور مسلم دنیا کے عوام کو ہمیشہ یہ فکر کھائے جاتی تھی کہ امریکا و اسرائیلی گٹھ جوڑ سے ایران کا کیا ہوگا۔ کہیں عراق اور افغانستان جیسا نہ ہو، یہ اچھی بات ہے اگر یہ اتنی ہی سادہ ہے جتنی دکھائی دے رہی ہے۔ لیکن ایسا ہے نہیں اب تو امریکا اور ایران کا ایک دوسرے کی طرف جھکاؤ ان کے ایک دوسرے کے ساتھ مفادات کو نہ صرف ظاہر کرنے لگا ہے بلکہ کسی بڑے ایٹمی و اقتصادی معاہدے کے بھی امکانات واضح کر رہا ہے۔

اللہ کرے کے خطے میں جلدازجلد امن قائم ہوجائے کیونکہ عوام ہی کو درد وکرب سہنا پڑتا ہے حکمراں تو اپنے اپنے مفاد کی چالیں چل کر اپنی اپنی منزلوں کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں کچھ بھی ہوتا ہو میرے وطن کے لوگوں کو مختلف بیانات کے تیروں سے چھلنی نہیں ہونا چاہیے۔ امن عالم ایک بڑی ضرورت ہے۔ انسانیت موت کی دہلیز سے دور رہے تو اچھا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔